ہند – روس کے درمیان اقتصادی تعاون

0

ہندوستان اور روس کے درمیان ہمیشہ سے ہی قریبی تعلقات رہے ہیں۔ سوویت یونین کے دور میں ہندوستان کی قیادت نے دنیا کی بڑی سپر پاور کے ساتھ جہاں ایک طرف تعاون کیا اسی کے ساتھ ساتھ جب وقت پڑا تو اپنا خود کا موقف بھی پیش کردیا۔ اپنی بات کہنے میں کبھی تامل سے کام نہیں لیا۔ ہندوستان کی روایتی خارجہ پالیسی غیر جانبداری ناوابستگی تحریک پر مبنی رہی ہے اور ہندوستان نے کبھی بھی کسی بھی ملک یا ملکوں کے بلاک کے پچھلگو رہ کر کام نہیں کیا۔ اس کے خارجہ پالیسی ہمیشہ سے مجموعی طور پر آزادانہ رہی ہے۔ اگرچہ مختلف ادوار کی حکوموتوں نے اپنی پالیسی ، ضروریات اور ملک کے مفادات کو مد نظررکھتے ہوئے اپنے رہنما اصول اور پالیسی مرتب کی ہے مگر پچھلے سال یوکرین پر روس کے حملے کے بعد پوری دنیا میں خارجہ پالیسی کو لے کر کافی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں اور مختلف ممالک میں اپنے مفادات اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی بنائی ہے۔ اس سلسلہ میں ہندوستان نے حالیہ یوکرین بحران کے دوران امریکہ اور اس کے حلیفوں سے الگ ہٹ کر پالیسی وضح کی ہے اور ان ممالک کے دبائو کے برخلاف روس سے تیل خریدا ہے۔
پچھلے سال فروری میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو پوری دنیا میں تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا اور اس کا اثر ہندوستان میں محسوس ہوا۔ روس کو بھی عالمی برادری بطور خاص امریکہ اور ناٹو ممالک کی مخالفت کی وجہ سے اقتصادی اور تجارتی سطح پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ روس کھلے بازار میں اپنی مصنوعات فروخت نہیں کررہا ہے اور یہ پابندی کس سطح پر اثرانداز ہورہی ہے۔ پوری دنیا میں تیل مہنگا ہوا۔ عالمی بازار میں تیل کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے ہندوستان کو سستے شرح پر پٹرولیم اور دیگر مصنوعات حاصل کرنے کے لیے روس کا سہارا لینا پڑا۔ پابندیوں کی وجہ سے روس اپنے دیرینہ حلیفوں اور دوستوں کو دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم قیمت پر تیل فراہم کررہا ہے۔ روس ہندوستان کو 12سے 16امریکی ڈالر کی اوسط سے کم قیمت پر تیل خرید رہا تھا ۔یہ صورت حال تقریباً ایک سال تک برقرار رہی۔ اس سے ہندوستان کو 2022-23کے درمیان چار بلین امریکی ڈالر کا بچت ہوئی اور اس طرح روس ہندوستان کو سب سے بڑا تیل سپلائی کرنے والا ملک بن گیا۔ اگرچہ زیادہ تیل کی خریداری کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان آپسی تجارتوں میں عدم توازن پیدا ہوا مگر جس قیمت پر اور جس افراط کے ساتھ ہندوستان کو پیٹرولیم مصنوعات فراہم ہوئیں وہ اس سخت دور میں فائدہ پہنچانے والی تھیں۔ ہندوستان اور روس کے درمیان تجارتی میدان میں نشیب وفراز دیکھے گئے ہیں لیکن دونوں ملک اپنے دیرینہ تعلقات اور مراسم کی وجہ سے اس رشتے کو نبھاتے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی لین دین کم ہوا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں اور امریکہ ودیگر ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان نے امریکہ اور یوروپی یونین ممالک کے ساتھ تجارت میں اضافہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ روس کے مقابلے میں چین کے ساتھ ہماری تجارت کافی زیادہ ہے۔ تازہ ترین اعداوشمار کے مطابق روس اور ہندوستان کے درمیان تجارت کا حجم 136بلین امریکی ڈالر ہے جبکہ چین کے ساتھ 180بلین سالانہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بڑا فرق ہے ۔ اسی طرح 2021-22میں روس اور ہندوستان کے درمیان باہمی تجارت 12بلین امریکی ڈالر رہی ہے۔ یہ اعدادشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں کبھی بھی کسے ایک خاص ملک یا بلاک کے ساتھ چپک کر اس کی اندھی تقلید نہیں کی۔ ہندوستان روس سے بڑی مقدار میں پٹرول حاصل کررہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا ٹارگیٹ 30بلین امریکی ڈالر تھا جو کہ 2025تک پورا کیا جانا تھا مگر دونوں ملکوں نے 2023-24کے درمیان ہی اس ٹارگیٹ سے کہیں زیادہ 45بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی تجارت کرلی ہے۔ روس اور ہندوستان کے درمیان تجارت کا جو عدم توازن ہے اس کے کئی پہلو ہیں اور ان مسائل کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کیا جاسکتا ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق روس ہندوستان سے تقریباً 500اشیا خریدنا چاہتا ہے،جن میں کاریں ، ہوائی جہاز اور ٹرینیں شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر روس اس منصوبے پر عمل کرتا ہے تو ہندوستان میں گھریلو سطح پر صنعتی سرگرمیاں تیز ہوں گی اور دونوں ممالک تجارت میں عدم توازن کے مسئلہ سے نمٹنے میں بھی کامیاب ہوں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری نے روس پر سخت اقتصادی پاپندیاں عائد کردی ہیں اور اس کی وجہ سے رقومات کی ادائیگی اور ڈالر یا یورو میں لین دین میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ۔ دونوں ممالک ان دشواریوں کو عبور کرنے کے لیے تبادلۂ خیال کررہے ہیں اور روس کے ذریعہ ہندوستانی روپے میں تجارت کا روپے میں متبادل کی تجویز پیش کی جا رہی ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہندوستان کی تیل کی کمپنیاں خود بھی روسی کرنسی میں تجارت سے اجتناب کررہی ہیں۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ایک تجویز یہ بھی زیر غور ہے کہ روس اور ہندوستان کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے ذریعہ یورو ایشین اکنامک یونینEurasian Economic Union(EEU) کو درمیان میں لا کر اس مسئلہ کا حل نکالا جائے مگر ابھی تک اس تجویز پر کوئی خاطر خواہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ ای ای یو میں روس، بیلا روس، قزاقستان ، امرمینا اور گرغستان شامل ہیں۔ یہ بلاک 2014میں بنا یا گیا تھا اور اس کے قیام کا مقصد اس خطے کے لوگوں کے معیاری زندگی میں تبدیلی کی جائے۔ مگر ابھی یہ تجویز کسٹم یونین میں بن سکتی ہے اور یوروپین یونین کی طرح سنگلس کرنسی نہیں بن سکتی ہے۔
ہندوستان اور روسی کے درمیان طویل فاصلہ ہے اور اس کو ہندوستان لانے میں کافی وقت اور کرایہ لگتا ہے، ہندوستان ان پابندیوں کے باوجود روس سے خریداری کررہاہے اور اس کو چاہے وہ بھی ہندوستان کو اس طرح سمجھے اور اپنے ملک آرہی دشواریوں کو حل کرنے کے لیے ہندوستان میں مواقع کا استعمال کرے اس طرح دونوں ملک ایک دسرے کی ضروریات کو سمجھ کر اپنے اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS