معیشت کا غبارہ

0

گزشتہ دہائی میں مودی حکومت نے ہندوستان کی معیشت کو ایک چمکدار غبارے کی مانند پیش کیا جو بلند و بالا اڑتا ہوا دنیا کی نظر میں کامیابی کی علامت بن رہا تھا۔ اس غبارے میں مودی حکومت نے خوش فہمیوں اور سیاسی دعوئوں کی ہوا بھری تھی‘ مگر اس میں جو حقیقت کی کمی تھی وہ روز بروز واضح ہوتی گئی۔ اس دوران معیشت میں ایک لمحاتی ابھار ضرور آیا، مگر یہ ابھار ایک عارضی جھرمٹ سے اٹھا تھا اور اس کے بعد کی ترقی محض وقتی تھی۔ جب تک اس غبارے میں صرف ہوا تھی، وہ نظر آتا تھا، لیکن جیسے ہی حقیقت کا دباؤ بڑھا، اس کی حقیقت کا پردہ چاک ہو گیا۔ کووڈ کے بعد معیشت میں ایک عارضی ابھار ضرور آیا، لیکن اس کے بعد کی ترقی بھی عارضی ثابت ہوئی۔ صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کی معیشت آج بھی کووڈ سے پہلے کے مقابلے میں بہت کمزور ہو چکی ہے۔ 8.2 فیصد کی ترقی کی شرح ایک وقتی فریب سے زیادہ کچھ نہیں جو معیشت کے وسیع مسائل کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ مودی حکومت کی پالیسیوں نے معیشت کی ترقی کی رفتار کو سست کر دیا ہے اور ان پالیسیوں کے اثرات کو روکنے میں حکومت اب تک ناکام رہی ہے۔

مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد معیشت میں جن سنگین مسائل کا سامنا کیا گیا ان میں سب سے بڑا دھچکا 2016 میں کرنسی نوٹوں کی یکطرفہ ڈیمونیٹائزیشن تھا۔ اس فیصلے کا اثر آج تک محسوس ہو رہا ہے۔ ایک ایسی پالیسی جسے حکومت نے معیشت کیلئے مفید قرار دیا تھا وہ دراصل ایک سنگین غلطی ثابت ہوئی جس کا اثر لاکھوں افراد کی روزی روٹی پر پڑا اور معیشت میں گہری ہلچل پیدا ہوئی۔ اس کے بعد 2017 میں جی ایس ٹی کے نفاذ نے کاروباری دنیا کو ایک زبردست جھٹکا دیا۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کی تیاریوں میں کمی نے خاص طور پر چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروباروں کو شدید مشکلات میں ڈالا، جس کا نتیجہ بے روزگاری میں اضافے اور معیشت کی ترقی میں سست روی کی صورت میں نکلا۔ مودی کی ان پالیسیوں نے معیشت کو نقصان پہنچایا اور لاکھوں افراد کو روزگار سے ہاتھ دھونے پر مجبور کیا۔کووڈ کے دوران ان مسائل میں مزید اضافہ ہوا اور معیشت ایک بدترین بحران سے دوچار ہو گئی۔ اگرچہ حکومت نے اس بحران کو بھی ایک کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف وقتی ابھار تھا، جو اقتصادی مسائل کو حل نہیں کر سکا۔ حکومت کی کوششوں کے باوجود، معیشت کی اصل حالت میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔

اب جب کہ اگلے ہفتہ مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن 2025 کاعام بجٹ پیش کرنے جا رہی ہیں‘ سوال یہ ہے کہ کیا اس بجٹ میں وہ اقدامات کئے جائیں گے جو عوام کے مسائل کا حل پیش کر سکیں؟ مودی حکومت نے گزشتہ دہائی میں بے روزگاری، مہنگائی اور آمدنی کی عدم مساوات جیسے مسائل کو حل کرنے میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی۔ وزیر خزانہ نے 2024 کے بجٹ میں ٹیکس دہندگان کو کچھ ریلیف دینے کی بات کی تھی لیکن اس میں کوئی ایسا اقدام نہیں تھا جو عوامی سطح پر قابل ذکر تبدیلی لاتا۔ یہی صورتحال 2025 کے بجٹ میں بھی دکھائی دے رہی ہے، جہاں حکومت نے ٹیکس کے نظام کو سادہ بنانے کا وعدہ کیا ہے، مگر یہ حقیقت سے بہت دور ہے کہ یہ سادگی کب تک عوام تک پہنچے گی۔انکم ٹیکس ایکٹ کے جائزے کا دعویٰ کیا گیا، جس میں قانون سازی کو واضح اور سادہ بنانے کی کوشش کی گئی‘ لیکن یہ اقدامات فی الحال ایک نظریاتی ہی ہیں اور ان سے عوام کو کوئی حقیقی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔

خاص طور پر غیر رہائشی ہندستانیوں کیلئے جائیداد خریدنے پر ٹی ڈی ایس کی تعمیل میں نرمی کا اعلان اگرچہ ایک اچھی کوشش ہے لیکن یہ اقدامات صرف تکنیکی سطح تک محدود ہیں اور عوام کی روزمرہ زندگی پر ان کا اثر بہت کم پڑے گا۔ ان تمام پالیسیوں اور اقدامات کے باوجود حکومت کے دعوے بے معنی ہیں جب تک کہ عوام کی حقیقت پسندانہ ضرورتوں کو مدنظر نہیں رکھا جائے۔جب ہم اس حکومت کی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں‘ تو ہمیں یہ حقیقت بھی نظر آتی ہے کہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے جو بھی اقدامات کئے ہیں، وہ صرف نمائشی طور پر ہیں۔معیشت کا یہ غبارہ جسے حکومت نے خوش فہمیوں کے ساتھ پھلایا تھا اب حقیقت کے دباؤ کے تحت پھٹنے کے قریب ہے۔ جب تک بے روزگاری، مہنگائی اور آمدنی کی عدم مساوات جیسے مسائل حل نہیں ہوتے، اس وقت تک اس غبارے کی ہوا کا نکلنا بدستور جاری رہے گا۔ ان مسائل کا حل تلاش کئے بغیر، حکومت کی پالیسیوں سے معیشت میں کوئی نمایاں تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اور جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے، ہم اس غبارے کی ہوا نکلتے دیکھیں گے، جسے مودی حکومت نے خوش فہمیوں کے ذریعے پھلایا تھا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS