ریاستوں کے واجبات

0

ریاستوں کی مالی رکاوٹوں کو کم کرنے کیلئے مرکز نے ایک ہی بار میں دو ماہ کے ٹیکس واجبات کی ادائیگی کردی ہے۔ دو دنوں قبل بدھ کے روز مرکزی حکومت نے ملک کی27ریاستوں کو 1.16لاکھ کروڑ روپے کی خطیر رقم جاری کی ہے۔ یہ رقم دو مہینہ کی قسط کے مساوی ہے۔ وزارت خزانہ نے یہ رقم جاری کرتے ہوئے باقاعدہ اعلان کیا کہ حکومت ہند کی جانب سے 58,332.86 کروڑ روپے کی معمول کی ماہانہ منتقلی کے مقابلے میں اس بار 1,16,665.75 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں تاکہ ریاستوں کے ہاتھ مضبوط ہوں اور ان کے ترقیاتی اخراجات میں سرمایہ کی کمی آڑے نہ آئے۔یہ رقم جاری کرنے سے قبل اوراس کے بعدبھی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے ٹوئٹ کیا اور اسے مرکزی حکومت کی فیاضی اور دریادلی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ مرکز اس کوشش میں ہے کہ ریاستوں کو سرمایہ کی فراہمی برقرار رکھی جائے اور ترقیاتی شعبہ کے اخراجات میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
مرکز کی طرف سے ریاستوں کو دی گئی رقم نہ تو ریاستوں پر کوئی احسان ہے اور نہ یہ آقا کی جانب سے غلاموںپر کی جانے والی کوئی مہربانی ہے۔ یہ رقم ریاستوں کا واجب الادا حق ہے اوراس کی ادائیگی کیلئے مرکزپابند ہے۔ ہندوستان،ریاستوں کا وفاق ہے اور مرکز کی طرح ہی ریاستوں میں بھی عوام کی منتخب حکومت ہی کام کرتی ہے۔ ملک کا پیداواری نظام نہ تو ملک کے رہین منت ہے اور نہ اس پر مرکز کسی بھی طرح سے مکمل قابض ہوسکتا ہے۔ مرکز اورریاستوں کی مشترکہ کوشش سے پورے ملک کا پیداواری نظام رو بہ عمل رہتا ہے۔ لہٰذا یہ فطری امر ہے کہ آمدنی اور محصولات میں بھی اشتراک ہو۔ ملک کے انتظامی ڈھانچہ میں زیادہ تر محصولات مرکز ہی اکٹھا کرتا ہے لہٰذا مخصوص فارمولہ کے مطابق ریاستوں کو ان کا حصہ دینا مرکز کی ذمہ داری ہے۔
محصولات کی بروقت تقسیم اور ایڈجسٹمنٹ آئین کا بنیادی حصہ اور وفاق کی روح ہے۔ آئین کی رو سے ریاستوں کو سرمایہ کی فراہمی یقینی بنانے اور ترقیاتی شعبہ جات میں ہونے والے اخراجات کی ہر کمی دور کرنے کیلئے مرکز پابند ہے۔لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ اس معاملے میں مرکزی حکومت تساہلی اور بعض اوقات امتیازات سے بھی کام لیتی رہی ہے۔ ریاستی حکومتوں کو مطلوبہ رقم کی فراہمی میں ردو قدح اور تاخیر کا حربہ استعمال کیاجاتا ہے۔ خاص کر ان ریاستوں کے ساتھ جہاں مرکز میں حکمراں سیاسی جماعت کے بجائے کسی دوسری پارٹی کی حکومت ہو۔حالیہ برسوں میں مغربی بنگال، پنجاب، راجستھان اوراسی طرح کی دوسری ریاستوں کے معاملے میں کئی بار یہ تنازعے منظر عام پرآچکے ہیں۔ مغربی بنگال کے معاملے میں تو واجب الاداحق کی ادائیگی بھی بوجوہ مہینوں تاخیر کا شکار ہوتی رہی ہے اورمرکز نے کبھی بھی خوش دلی سے یہ فریضہ ادا نہیں کیاہے۔
2017میں جی ایس ٹی کا نفاذ شروع ہونے کے بعدریاستوں کو براہ راست ملنے والے ٹیکسوں کا ایک خطیرحصہ مرکز کی طرف منتقل ہوجانے کی وجہ سے بھی مرکزپر ریاستوں کے واجبات بڑھتے رہے ہیں۔ٹیکس کی یہ رقم ریاستوں کو بروقت نہ ملنے کی وجہ سے انتظامی امور اور ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں۔ریاستوں کے اپنے وسائل کم ہونے کی وجہ سے بھی بار زیادہ ہی بڑھ جاتا ہے۔ مرکز کی جانب سے رقم کی منتقلی میں تاخیر در تاخیر کی وجہ سے ریاستیں مالی مشکلات کا شکار ہوجاتی ہیں اور پھر یہ سیاسی ایشو بن جاتا ہے۔ مرکزی اور ریاستی اجلاس میں بھی اس بارے میں اکثر بحث و مباحثہ ہوتا رہتا ہے، ریاستیں کبھی سکریٹری کی سطح پر تو کبھی کسی اور سطح پر مرکز کے سامنے اپنے مطالبات رکھتی ہیں۔ وزارت خزانہ کے دفتر میں مالی مطالبات کیلئے ریاستوں کے خطوط کا انبار جمع ہوتارہتا ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ ریاستوں کے وزیراعلیٰ اس معاملے میں وزیراعظم سے مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں، انہیں ریاستوں کے واجبات جلد جاری کرنے کی یاددہانی کراتے ہیں لیکن زیادہ تر معاملات میں مرکز خاموش ہی نظرآتا ہے۔
گزشتہ7اگست کو وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل کے اجلاس میں بھی ریاستوں نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا اورجی ایس ٹی معاوضے کی مدت میں توسیع اور ٹیکسوں میں زیادہ حصہ داری کا مطالبہ کیا تھا۔اس کے بعد ہی ریاستوں کو دو مہینہ کی رقم جاری کی گئی ہے۔ یہ رقم نہ تو ریاستوں پر کوئی احسان ہے اور نہ ہی اسے فیاضی اور دریادلی سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ رقم مہینوں روکی نہیں جاتی خاص کر مغربی بنگال کے معاملے میں بلاوجہ کے امتیاز سے کام نہیں لیاجاتا اور27000کروڑ روپے کے واجبات کے مقابلے فقط8,776.76 کروڑ روپے ہی جاری نہیں کیے جاتے۔مرکز کو ریاستوں کے ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں حقیقی فکر ہے تو اسے ریاستوں کے مکمل واجبات کی بروقت ادائیگی کا انتظام کرنا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS