بھارت پاک ناچاکی کی وجہ سے شمالی کشمیر میں سوکھا،سینکڑوں کنال کھیت تشنۂ آب،کسانوں کے یہاں فاقہ کشی کی نوبت

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    بھارت اور پاکستان کے بیچ کی ناچاکی کے خمیازہ کے بطور شمالی کشمیر کے سرحدی علاقہ کرناہ میں دھان کے وسیع کھیت بنجر ہورہے ہیں اور انکے مالک کسانوں کیلئے فاقہ کشی کی نوبت آنے کو ہے۔پاکستانی زیرِ انتظام علاقہ سے بہنے والے پانی پر منحصر ان کھیتوں میں سوکھا پڑا ہے اور کسانوں کا کہنا ہے کہ فوجی و سیول حکام نے فوری توجہ نہیں کی تو وہ برباد ہوجائیں گے۔
    کپوارہ ضلع کا کرنا سب ڈویژن ایک انتہائی حساس علاقہ ہے اور یہاں بھارت و پاکستان کے بیچ کی حد بندی اس طرح کھینچی جاچکی ہے کہ نہ صرف لوگوں کے کھیت بلکہ کہیں کہیں مکان تک بٹے ہوئے ہیں۔اس علاقہ سے متعلق یہ رپورٹیں پہلے کئی بار سامنے آچکی ہیں کہ یہاں کئی مکانوں کا ایک حصہ اس جانب تو دوسرا حصہ آزاد کشمیر کلانے والے پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر میں ہے اور یوں خاندانوں کے خاندان ایک دوسرے سے جدا ہوچکے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ کرناہ میں سینکڑوں کنال رقبۂ اراضی محض اس لئے تشنۂ آب ہے کیونکہ ان کھیتوں کو سیراب کرنے والا پانی پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سے بہتا ہے مگر دونوں ممالک کے بیچ کی ناچاکی اس پانی کے قدرتی بہاؤ کی سمت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
    اس دلچسپ مگر بھارت پاک کشیدگی کی وجہ سے کئی مسائل سے دوچار علاقہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جوں جوں دونوں ممالک کی ناچاکی میں اضافہ ہوتا ہے انکے مسائل بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جیسا کہ مشکور احمد نامی ایک شہری بتاتے ہیں ’’ہمارے یہاں قاضی ناگ نالہ کے نام سے ایک ندی ہے جو ہمارے کھیتوں کو سیراب کرتی ہے لیکن جونہی بھارت اور پاکستان کے بیچ حالات خراب ہوتے ہیں اسے بند کردیا جاتا ہے اور ہمارے کھیتوں میں سوکھا پڑتا ہے‘‘۔مشکور نے کہا کہ ماضی میں دونوں ممالک کے فوجی حکام فلیگ میٹنگوں کا انعقاد کرکے کھیتوں کو سیراب کرانے کا راستہ نکالتے تھے لیکن ایک مدت ہوئی کہ اس طرح کی فلیگ میٹنگوں کا انعقاد ہوسکا اور نہ ہی کھیتوں کو سیراب کئے جانے کا راستہ ہی نکل آیا۔ فاروق خان نامی ایک اور کسان کا کہنا ہے ’’اس نالے میں قدرتی طور پیدا ہونے والے رساؤ اور دیگر خرابیوں کی ہم خود مرمت کرایا کرتے تھے اور اس مقصد کیلئے ہم کسی کپڑے وغیرہ میں باندھ کر پیسے پار پھینکا کرتے تھے جسے اُجرت سمجھ کر وہاں کے لوگ رکھا کرتے اور نالے کی مرمت کرتے تھے لیکن اب ایسا کوئی انتظام نہیں ہے اور نتیجہ یہ کہ ہمارے کھیتوں میں سوکھا پڑ رہا ہے‘‘۔ انکا کہنا ہے کہ انکے کھیتوں میں بہترین چاولوں کی کاشت ہوا کرتی تھی لیکن پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ کھیت بنجر ہوئے جارہے ہیں۔انکا کہنا ہے ’’حالانکہ فوج نے ہمارے یہاں ایک واٹر پمپ بھی لگوایا ہے اور جموں کشمیر سرکار کے محکمہ آبپاشی نے بھی کوئی اسکیم بنائی تھی لیکن یہ متبادل ذرائع کامیاب نہ رہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر متعلقہ فوجی اور سیول حکام یہ معاملہ پاکستان کے ساتھ اٹھائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ وہ آبپاشی کے اس قدرتی نظام کو بحال کریں اور ہمارے کھیت سیراب ہوں‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں ’’دونوں جانب غریب لوگ رہتے ہیں جنکا پُرامن طور جیتے ہوئے روٹی کھانے کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے لیکن بڑے بڑے سیاسی جھمبیلے،جو ہماری سمجھ میں بھی نہیں آتے ہیں،ہم غریبوں کا سکون غارت کرکے رکھ دیتے ہیں‘‘۔ غلام قادر نای ایک اور شہری کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کرناہ کی زمینوں کو سیراب کرانے کا انتظام کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا ’’ہماری زمینیں ہمارے بچوں کی طرح ہیں اور انہیں یوں برباد ہوتے دیکھ کر ہم بہت غمزدہ ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس اہم مسئلے کو لیکر علاقہ کے لوگوں نے کئی سرکاری دروازوں پر دستک دی لیکن انکی فریاد سُننے والا کوئی نہیں ہے۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS