وہ خواب جس کی کوئی تعبیر نہیں: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

’’غزہ جہنم بن چکا ہے ،جو انسانوں کے رہنے کے لائق جگہ نہیں ہے۔اس لیے اہل غزہ کو یہ علاقہ خالی کردینا چاہیے۔یہ نقل مکانی قلیل یا طویل مدتی دونوں ہوسکتی ہے،ہم اسے دوبارہ تعمیر کریں گے۔‘‘یہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا ہے۔سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غزہ اگر جہنم بن چکا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت بالکل نہیں ہے۔دنیا کا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ اعلان کرنے والے کا پیش رو صدر جوبائیڈن ،خود ڈونالڈ ٹرمپ اور وہ شخص ہے جس کے ساتھ کھڑے ہوکر انہوں نے یہ اعلان کیا ہے۔گزشتہ ڈیڑھ برس کے عرصے میں غزہ میں انسانی اقدار کی جو خلاف ورزیاں ہوئی ہیں ،جس کی وجہ سے ایک سرسبز و شاداب خطۂ ارض بنجر زمین میں تبدیل ہوچکا ہے ،جہاں 50ہزار سے زائد شہریوں بشمول بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا قتل کردیا گیا، لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور کردیے گئے جس کی وجہ سے یہ علاقہ واقعی جہنم بن گیا،جس میں امریکی اسلحہ نے سب سے بڑا کردار ادا کیا۔اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہوکو ان ہی وجوہ کی بنا پر عالمی عدالت سے جنگی مجرم قرار دیا گیا ہے۔امریکہ خود عالمی عدالت کا ممبر ہے جس پر اس کے قوانین نافذ ہوتے ہیں، اس کے باوجود بڑی بے شرمی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اس کے صدر نے ایک جنگی مجرم کے ساتھ اسٹیج کا اشتراک کیا بلکہ اس کو سرکاری مہمان بناتے ہوئے اسی کے ساتھ یہ اعلان کر رہا ہے کہ اہل غزہ کو علاقہ خالی کردینا چاہیے جس پر امریکی فوج کا قبضہ ہوگا۔

یہ دراصل طاقت کا نشہ اور مسلم ممالک کی بزدلی کا نتیجہ ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔درحقیقت امریکہ کا یہ اعلان بھی بزدلی پر ہی محمول کیا جائے گا،کیونکہ ’’ کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مصداق امریکہ اور اسرائیل دونوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ نے غزہ کو تباہ کردیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دونوں ممالک اپنے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔اسی ناکامی کو چھپانے کے لیے اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔

مجھے اپنے وجود کی طرح اس بات پر یقین ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اپنے اس منصوبے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، کیونکہ فلسطینی وہ جیالے ہیں جو بے سرو سامانی کے ساتھ زندگی جینے کے عادی ہیں،وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت سے نبرد آزما ہیں، اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں ذرہ برابر لغزش نہیں آئی ہے۔ان کی ایسی ذہنی تربیت ہے جس کی وجہ سے کوئی انہیں ان کی سرزمین سے نہیں نکال سکتا۔جس عزم، ہمت، پامردی اور استقلال کا مظاہرہ اہل فلسطین نے کیا ہے، وہ تاریخ میں تلاش بسیار کے بعد بھی شاید ہی مشکل سے ملے۔اس لیے امریکہ اور اسرائیل کا یہ وہ خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں۔

جب اہل غزہ اپنی سرزمین پر رہنا چاہتے ہیں تو بھلا دنیا کی کس قوم یا ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان سے یہ کہے کہ آپ اپنی سرزمین کو چھوڑ کر نقل مکانی کرجائیں؟دنیا کے کس قانون میں اس بات کی اجازت ہے کہ شہریوں کو ان کے ملک سے نکال دیا جائے؟قوموں کے درمیان جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔یہ کشمکش رہتی دنیا تک جاری رہے گی۔ہر قوم کا ماضی جنگوں سے بھرا پڑا ہے لیکن جنگ کے بھی اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں۔جب دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کیا جا چکا ہے تو ایسے میں اس طرح کی پھلجھڑی کا کیا مطلب ؟
دراصل امریکی صدر طاقت کے نشے میں اس قدر بدمست ہیں کہ اپنے کیے گئے فیصلوں کے عواقب کی جانب ان کی نظر ہی نہیں جاتی ۔موجودہ امریکی صدر کے حالیہ فیصلے نہ صرف دنیا کی نظر میں محل نظر ہیں بلکہ خود امریکی قوانین کے مطابق انہیں درست نہیں قرار دیا گیا ہے۔امریکی صدر کا یہ اعلان ’’بیوقوفانہ عمل‘‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ اس کے باوجود چونکہ یہ اعلان امریکہ جیسے سپر پاور ملک کے صدر نے دیا ہے، اس لیے اس پر گفتگو ہونا لازمی امر ہے۔

امریکی صدر کے مذکورہ بیان کے بعد عرب ممالک اور عالمی تنظیموں کے سربراہوں کے رد عمل بھی سامنے آئے ہیں جن میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس بیان کو درست قرار دیا ہو۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے تو اسے نسلی تطہیر سے تعبیر کیا ہے۔عرب ممالک کے سربراہوں نے بھی اس منصوبے پر امریکہ کی تنقید کرتے ہوئے اسے ناقابل عمل قراردیا اور فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں اس سرزمین کا مالک قرار دیا ہے لیکن عرب رہنماؤں کے بیانات پر کامل یقین نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ سیاستداں اور سیاست دانوں کے قول و فعل میں تضاد لازمی امر ہے۔اگر عرب ممالک امریکہ کے دکھائے گئے خوابوں کو تعبیر میں بدلنے کی خواہش میں اسرائیل کے ساتھ رشتوں کو استوار کرنے کی جانب قدم نہ بڑھاتے تو آج فلسطین کے وجود پر سوالیہ نشان نہیں لگتا۔امریکی صدر بھی یہ سوچنے کی ہمت نہ کرتے کہ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کراکر اس پر قبضہ کرلیا جائے اور یہ قبضہ در اصل امریکہ کا نہیں ہوگا بلکہ یہ اسرائیل کا قبضہ ہوگا۔امریکی صدر کے اس بیان میں کوئی بین السطور نہیں ہے جسے کوئی دیکھ اور پڑھ نہ سکے ۔یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ کا منصوبہ اہل غزہ کو یہاں سے بھگا کر اس سرزمین کو اسرائیل کے قبضے میں دینا ہے جو دونوں کی قدیمی خواہش اور خواب ہے لیکن کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی اور یہ خواب اسی قبیل سے ہے۔

امریکی صدر کے بیان کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنی فوج کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ایک ایسا منصوبہ بنائے جس سے اہل غزہ رضاکارانہ طور پر اس سرزمین کو چھوڑ کر ان ممالک میں نقل مکانی کر جائیں جو انہیں قبول کر لیں۔اب اگر امریکہ اور اسرائیل اپنے اس منصوبے کی طرف عملی قدم بڑھاتے ہیں تو اس کے بد عواقب کیا ہوں گے؟اس پر پوری دنیا کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔اگر طاقت کے زور پر اس علاقے کو خالی کرایا جاتا ہے تو صرف اہل غزہ یا پڑوسی عرب ممالک کے لیے دشواریاں نہیں پیدا ہوں گی بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوگی،کیونکہ جن لوگوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں بچتا وہ دشمن کے سامنے سپر نہیں ڈالتے بلکہ جہاں اور جب انہیں موقع ملتا ہے، اس سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں کیونکہ سوال ان کے وجود کا ہوتا ہے۔’’آبزرور‘‘کے مبصر سیمون ٹسڈل(Simon Tisdall)کا مضمون Trumps Gaza power-Trip tells us this:he is just another coward denying the need for a paletinian state’دی گارجین‘ میں 6فروری کو شائع ہوا ہے ۔جس میں انہوں نے امریکی صدر کو نہ صرف بزدل قراردیا ہے بلکہ ان کے اس بیان کوناقابل عمل، خوفناک،غیر منصفانہ،لاپروائی پر مبنی،داغدار کرنے والا بتایا ہے۔امریکی صدر کے جملوں کو اہل غزہ کے لیے ایک ایسے خواب سے تعبیر کیا ہے جو دیکھنے میں کثیر تعبیری، تخیلاتی، پرامن اور خوبصورت ہے لیکن در اصل منصف مزاج لوگوں کا دل توڑنے والا ہے۔مضمون نگار کے مطابق ان کے اس منصوبے میں عرب،برطانیہ اور یوروپی ممالک یقینی طور پر اس کا ساتھ نہیں دیں گے ۔امریکی فوجیں یہاں مسلمانوں کو ہی نشانہ بنائیں گی جو اس کو عراق بنا دے گا۔اس نے یہ بھی پیشین گوئی کی ہے کہ اس علاقے کی اسلامی فوجیں امریکہ اور مغرب مخالفت میں نئے سرے سے حماس کے ساتھ جہاد میں شامل ہونے پر مجبور ہوجائیں گی اور اس خلفشار کا روس خیر مقدم کرے گا۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ کیسا ہوگا۔بالفرض اگر امریکہ اس منصوبے پر عملی اقدام کرتا ہے تو روس اور چین کو کھل کر حماس کے ساتھ آجانا چاہیے جس طرح امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہے۔ ایسے میں اس کا نشہ بھی اتر جائے گا اور دنیا کو ایک ایسے سانڈ سے بھی نجات مل جائے گی جو جب چاہے کسی بھی سرسبز و شاداب کھیتی کو چر کر اس کا وجود ختم کردیتا ہے۔یہ وہ وقت ہوگا جب امریکہ کی چودھراہٹ کو ختم کرنے کا ان دونوں ممالک کو ایک شاندارموقع مل جائے گا۔

آبزور کے مبصر نے اس علاقے سے ہمیشہ کے لیے جنگ کے خاتمہ کے امریکی صدر کے مذکورہ منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ اس معاملے میں ایک ہی حق بات ہے جو 77سالہ طویل کشمکش کو ختم کرسکتی ہے،وہ فلسطین کی سرزمین میں ایک آزادانہ اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو قبول کرنا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS