ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
یہ بدیہی صداقت ہے کہ جس طرح آج نوع انسانی متنوع علمی اور فکری جہات سے لطف اندوز ہورہی۔ انسانوں کے درمیان فاصلے کم ہورہے ہیں۔ دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کو سمجھنے، جاننے اور سیکھنے کے مواقع کثرت سے میسر آرہے ہیں۔ وہیں انسانی اعصاب پر تنگ نظری اور عدم اعتماد کی تحریک بھی پوری طرح معاشرے میں رچ بس رہی ہے۔ صرف فکر میں ہی جمود نہیں ہے، بلکہ گاہ بگاہ معاشرے میں ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جب ہم کسی کی علمی اور فکری کاوش پر تنقید کرتے ہیں تو ہمارے اسلوب اور انداز سے حریفانہ بو آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم سامنے والے پر تنقید اس لیے نہیں کررہے ہیں کہ اس سے معاشرے میں علمی اور تحقیقی شعور پروان چڑھے گا، نوجوانوں اور نسلوں کو کچھ سیکھنے کو ملے گا، بلکہ کہیں نہ کہیں ہمارا اپنا ذاتی عناد یا کوئی بدلہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس طرح کا مزاج اب صرف عوام میں نہیں رہ گیا ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ رویہ خواص میں بہت زیادہ ہے۔ اس کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ عوام اور خواص میں ایک بڑا سنگین تنازع مسلک پرستی کا ہے جو تعصب اور جانبداری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ تنگ نظری قاسمی، ندوی، اصلاحی، فلاحی وغیرہ وغیرہ کے نام پر پائی جاتی ہے۔ یہ خلیج جہاں علمی اور تحقیقی قدروں کے فروغ میں سدباب ہے تو وہیں اس سے سماج میں نہاہت منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔ باہمی رکھ رکھاؤ اور سماجی ہم آہنگی، فکری بالیدگی متاثر ہوتی ہے۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ کسی کی بھی اچھی بات خواہ وہ کسی ادارے کا فاضل ہو، اس کی بات یا کسی کے نظریہ کو صرف اس لیے تسلیم نہیں کیا جائے کہ وہ فلاں ادارے سے فارغ ہے؟ اسی پر بس نہیں بلکہ حد تو اس وقت ہوجاتی ہے جب کوئی کسی کی بات کو نکارتا ہے، یا اس پر منفی تنقید کرتا ہے تو پھر اسی مدرسے کے دیگر فاضلین بلا تحقیق اور معاملہ کو سمجھے ہوئے اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ اس کا بین ثبوت سوشل میڈیا ہے۔ ہم اس طرح کی بحثیں آئے دن پڑھتے اور دیکھتے رہتے۔ خصوصاً یہ مزاج عہد حاضر کے فاضلین میں بہت پایا جاتا ہے۔ لہٰذا علمی اور تحقیقی جہات کو منور کرنے کے لیے، معاشرے کو فکری اعتبار سے مستحکم بنانے کے لیے لازمی طور پر ڈگری پرستی کے اس ناسور کو پوری طرح سے معدوم کرنا ہوگا۔ یاد رکھیے اس طرح کے مزاج اور رویوں سے چیزیں خود بخود الجھ جاتی ہیں۔ سماج علم و فضل اور تحقیق و تفتیش کی حقیقی روح سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس بات کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مسلک پرستی سے زیادہ نقصان دہ سماج کے لیے ڈگری پرستی ہے۔ گویا اہل علم وفکر اور سنجیدہ سماج کے لیے جس طرح خارجی تحدیات ہیں۔اسی طرح ڈگری پرستی کا کھیل بھی اندرونی چیلنج ہے۔ اس سے نمٹنا اجتماعی اور انفرادی طور پر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس کا دائرہ اور اثر بڑھتا جارہا ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سماج بذات خود کچھ نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ سماج کو اچھا یا برا ہمارے اصحابِ فکر و نظر اور اہل عقل و خرد بناتے ہیں۔ ہمارے افکار و خیالات اور کردار بناتا ہے۔ یعنی جو مزاج اور نظریہ اصحاب علم اور مفکرین و مدبرین کا ہوتا ہے وہی رنگ سماج پر بھی چڑھتا ہے۔ اس تناظر میں اب تمام مفکرین اور سماجی مصلحین اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں اس سماج کو ہم کیا دے رہے ہیں؟ اور اسے کہاں لے جارہے ہیں ؟ کہیں ہم مسلک و مشرب کے تنازع کے ساتھ ساتھ ڈگری پرستی کی تفریق سے وہ تو نہیں کر رہے ہیں جو دانشمند اور سنجیدہ سماج کا کبھی شیوہ نہیں رہا ہے؟ اختلافات ہونا ایک فطری اور طبعی چیز ہے۔ لیکن اختلافات ڈگری کے نام پر ہوں، اس بناء پر کیا جانے کہ فلاں شخص اس ادارے سے فارغ ہے۔ محض اس لیے اس کی بات نہیں مانی جائے گی تو یہ اختلاف نہیں بلکہ یہ عناد ہے۔ تعصب اور تنگ نظری ہے۔ یاد رکھنا ہوگا کہ تاریخ میں وہی قومیں اور انہیں مفکرین کے نظریات زندہ رہتے ہیں جن سے سماج کو مثبت چیزیں حاصل ہوں۔ منفی خیالات خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبہ حیات سے ہو ، وہ ہمیشہ مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ، اپنی تحریر ، تقریر اور کسی بھی موڑ پر اعتدال پسندی اور توسیع کا بھر پور مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یقین جانیے جس نہج پر آج ہمارا سماج جارہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت ہمیں کئی طرح کے مسائل در پیش ہیں۔ لیکن وہیں اس بات سے بھی کوئی صاحب فکر انکار نہیں کرسکتا ہے کہ آج ان میں بہت زیادہ مسائل وہ ہیں جنہیں ہم نے خود جنم دیا ہے۔ ان کے کیا اسباب و عوامل ہیں۔ اس پر توجہ کم دیتے ہیں بلکہ دوسروں پر اپنے کیے کو تھوپنے کی جسارت کرنے لگتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں مناسب اور درست تجزیہ کرکے مسائل کا حل نکالنا باشعور قوموں کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔
اس طرح کے اختلافی اور متنازع مسائل اور مباحث کو دیکھ، سن اور پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ بھی ان غیر ضروری اختلافات میں ملوث ہوتے ہیں وہ مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔ انہیں اپنے مسائل یا خامیوں کے سدھارنے کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے بلکہ دوسروں کی خوبیوں تک کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ سماج اور معاشرے کو جوڑنے، سماجی تقاضوں اور عصری ضروریات کو مدنظر رکھ کر اپنے اہداف طے نہ کرنا، یا کسی کو کم تر سمجھنا ، خواہ وہ سند کی بنیاد پر ہو ،یا کسی طبقے سے وابستگی کی وجہ سے۔ ان مسائل میں الجھ کر کوئی فرد سکون و اطمینان حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ نہ ہی ایسے معاشرے عالمی سطح پر اپنی علمی اور فکری پہچان بنا پاتے ہیں۔
آج کا عالمی منظر نامہ جو چیزیں اور مسائل سامنے لارہا ہے۔ اس میں ہمیں نہایت استحکام اور مضبوطی سے آگے بڑھنا ہے۔ اتحاد و اتفاق اور یکجائیت و مرکزیت کو بالآخر ترجیح دینی ہوگی۔ معاشرتی مسائل اور اس کی اجتماعی قدروں کا تحفظ اسی وقت ہوسکتاہے جبکہ ہم اپنے بیچ کے تمام علاقوں اور فاصلوں کو ملیا میٹ کردیں۔ یہ فاصلے اور دوریاں خواہ ، مسلک ومشرب کے نام پر ہوں، یا کسی فکر سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ہوں۔ ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ جس شریعت اور دین کے ہم تابعدار ہیں اس نے قوموں اور معاشروں کو مثبت انداز میں سوچنے اور اعتدال پر گامزن رہنے کی تلقین کی ہے۔ اچھائیوں کے اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ برائیوں اور جرائم سے بچنے کو کہا گیا ہے۔
ہمارے لیے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑا نمونہ ہے۔ اگر ہم سیرت کے اوراق پلٹ کر دیکھنا شروع کریں تو پتہ چلے گا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر جو گرانقدر ارشادات فرمائے تھے ان میں نمایاں طور پر یہ بھی کہ کسی کو کسی بنیاد پر مفاخرت اور کبر و نخوت میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ رنگ نسل کی بنیاد پر اور نہ کسی اعزاز و اکرام کی وجہ سے۔ قابل فخر صرف وہ طبقہ اور سماج ہے جو خالق کائنات سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ لیکن ہمارے سماج کا ان پڑھ طبقہ ہی نہیں خصوصاً وہ طبقہ جو عمائدین اور خواص کہلاتا ہے۔ اس نے فخر کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اور دیگر بہت سارے غیر شرعی طریقے تلاش کر رکھے ہیں۔ جن کا ذکر بالائی سطروں میں آیا ہے۔ پستی اور خفت سے بچنے دنیاوی شعبوں میں سرخرو ہونے کے لیے اختلافی باتوں کو ختم نہیں کرنا ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ان ہی اختلافات اور دوسروں کی خوبیوں کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے نوجوان نسل اور وہ طبقہ جو عصری دانش گاہوں میں زیر تعلیم ہے وہ بہت سارے شکوک وشبہات کے ساتھ جی رہا ہے۔ صلاحیتوں اور قابلیتوں کا احترام ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے قطع نظر اس کے کہ وہ کس ادارے کا سند ہے۔
آخر میں یہ کہنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ کائنات عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ہمارا کوئی بھی عمل اور کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس لیے انسانی حقوق اور سماجی اقدار کی بالادستی کی خاطر ان روایات اور چیزوں کو بڑی تیزی سے پروان چڑھانا ہوگا جن سے احترام و وقار اور عظمت و رفعت کی بو آتی ہو۔ اگر کسی مسئلہ،، یا کسی کی رائے سے کوئی اختلاف ہے تو اس کا اظہار کرنا علمی اور فکری راہ کھولنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جب یہ اختلاف محض کسی کی تنقیص یا اس کی پگڑی اچھالنے کے لیے کیا جائے تو پھر اس کے نتائج یقینا درست نہیں ہوتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں بے راہ روی اور تشکیک و تفریق کا ماحول پنپتا ہے جو کسی بھی صحت مند اور پاکیزہ سماج کی ترتیب و تشکیل میں رکاوٹ ہے۔ اگر ہم اپنے اندر پائے جانے والے ان تمام اختلافات کا قلع قمع کردیں جن کو ہم اپنے لیے اعزاز کی بات سمجھتے ہیں تو پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں فکری اور نظریاتی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
[email protected]
ڈاکٹر ظفردارک قاسمی: مسلم معاشرے میں اختلافات کی شکلیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS