ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہماری اپوزیشن کے ترکش میں تیر ہیں ہی نہیں۔ وہ حکمراں جماعت پر خالی ترکش گھمانے میں مصروف ہے۔ کانگریس کی صدر سابق سونیا گاندھی نے پہلے نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ پر حملہ کیا اور پھر توانگ میں ہوئی مڈبھیڑ پر لوک سبھا میں ہنگامہ ہوگیا۔ ان دونوں معاملات میں اپوزیشن چاہتی تو پارلیمنٹ میں سنجیدہ بحث شروع کرسکتی تھی جس سے ملک کو فائدہ ہی ہوتا۔ عوام کو بھی معلوم ہوتا کہ عدلیہ اور ایگزیکٹیو کے درمیان ہم آہنگی کے بارے میں جو بات نائب صدر نے کہی ہے، وہ کس حد تک درست ہے۔ جگدیپ دھن کھڑ نے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں موجودہ ’کالجیم‘نظام کو بہتر بنانے کی بات کہی تھی۔ انہوں نے عدلیہ کے حقوق میں کمی یا نظرانداز کرنے کی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ انہوں نے کسی صحت مند پارلیمانی جمہوریت میں عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکٹیو کے درمیان جو ضروری توازن اور تعاون کا عنصر ہوتا ہے، اسی پر زور دیا تھا۔ اس کے علاوہ راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے اور وزیر پیوش گوئل سے کہا تھا کہ وہ ایوان میں ایک دوسرے پر کھلے حملے کرنے کے بجائے ان کے کمرے میں آکر توانگ میں ہوئی مڈبھیڑ پربات کریںتو کھڑگے نے دھن کھڑ کی اس مؤدبانہ اپیل کو بھی مسترد کردیا۔ اپوزیشن نے توانگ کے معاملے پر تو لوک سبھا کی کارروائی ہی ٹھپ کردی تھی۔ کانگریس کا مطالبہ ہے کہ توانگ مسئلہ پر ہندوستانی فوجیوں کی جو ’پٹائی‘ ہوئی ہے، اس پر کھلی بحث ہو۔ ہمارے بہادر سپاہیوں کے لیے اس لفظ کا استعمال بالکل نامناسب ہے۔ بغیر ثبوت اس طرح کے الفاظ کا استعمال اپنے بولنے والے کی ساکھ کو ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔ توانگ میں ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان جو معمولی جھڑپ ہوئی ہے، وہ کیا اس قابل تھی کہ اس پر ہماری پارلیمنٹ کے کئی گھنٹے ضائع کیے جائیں؟ سرحدی علاقوں میں اس طرح کی فوجی جھڑپیں اکثر ہوتی ہی رہتی ہیں۔ ایسی جھڑپیں ہند-چین اور ہند-پاک سرحدوں پر ہی نہیں ہوتیں، وہ بنگلہ دیش، میانمار، نیپال جیسے پڑوسی ممالک کی سرحدوں پر بھی ہوجاتی ہیں۔ انہیں ’تل کا تاڑ‘ بنانے کی تک آخر کیا ہے؟شاید اسی لیے ہے کہ ہماری اپوزیشن کے پاس نہ تو کوئی بڑی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی لیڈر! اگر توانگ کی مڈبھیڑ سنجیدہ ہوتی تو ہندوستان اور چین کے کور کمانڈر دو دن پہلے چوشول- مولڈو سرحدی کیمپ میں بیٹھ کر پرامن طریقہ سے بات کیوں کرتے؟ دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعہ حل کریں گے۔ 2020میں ہوئے وادی گلوان تنازع پر بھی دونوں فریقوں کا رویہ تال میل کا تھا۔ چین کے ساتھ سرحد پر کبھی کبھار جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس کے ساتھ ہندوستان کی تجارت بھی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ہماری اپوزیشن کیا چاہتی ہے؟ ہم زبردستی چین کے ساتھ کیا جھگڑا مول لے لیں؟ کانگریس یہ نہیں چاہ سکتی لیکن وہ مودی حکومت کی کسی بھی طرح ٹانگیں کھینچنا ضرور چاہتی ہے۔ اسی لیے وہ نان ایشو کو ایشو بنانے پر آمادہ ہے۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]