ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
مسجداللہ کا گھر ہے اور روئے زمین پر سب سے پاکیزہ جگہ ہے کیونکہ وہاں شرک کی ہر آلودگی سے پاک خالص خدائے واحد کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس لیے مسجد کو ظاہر اور باطن میں پاک رکھنا بہت ضروری ہے۔ مسجد میں نماز پڑھنے کی جگہ ہی صاف اور پاک نہیں ہونی چاہیے بلکہ پورے مسجد اور اس کے اندر اور باہر کے نیز آس پاس کے ماحول کو بھی صاف اور پاکیزہ ہونا چاہیے۔ مسجد کا وضو خانہ، استنجا خانہ، طہارت خانہ اور غسل خانہ وغیرہ بالکل صاف ستھرا اور ہر طرح کی گندگی سے پاک ہونا چاہیے۔ ہر مسجد میں امام، مؤذن اور دیگر لوگوں کے ساتھ ایک صفائی کرمچاری کی مستقل تعیناتی ہونی چاہیے اور اس کا خرچ مسجد کے جملہ خرچ میں شامل کرکے اس کے لیے فنڈ فراہم کرنا چاہیے تاکہ وہ ان چیزوں کو پوری طرح صاف ستھرا رکھے۔ صفائی نصف ایمان ہے، اس کی شروعات مسجد سے کی جانی چاہیے اور لوگوں کو مسجد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کی جانی چاہیے۔ مسجد کے آس پاس گندگی نہ رہنے دیں اور مسجد تک آنے کا جو راستہ ہے وہ بھی صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ مسجد مسلمان سماج کی روحانی اور اجتماعی خوبیوں کا مظہر ہے۔ لہٰذا اس جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے۔
مسجد ہمارا سب سے اہم سماجی ادارہ ہے۔ لہٰذا اس کو سماج کی ضروریات کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کا دائرہ بڑھانا چاہیے۔ مسجد میں عموماً تابوت وغیرہ کا انتظام ہوتا ہے۔ لیکن بچے بڑے، عزیز اقارب تعلیم و تلاش معاش میں گھر سے دور رہتے ہیں۔ کسی ناگہانی کی صورت میں ایئر کنڈیشن تابوت کا نظم وقت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہر مسجد میں اس کے حصول کی کوشش ہونی چاہیے۔ اسی طرح جو شہر کی بڑی اور جامع مسجدیں ہیں ان کے پاس ایمبولینس کا نظم بھی ہو تو بہتر ہے جو مناسب کرائے پر ضرورت مندوں کو فراہم کرائی جاسکتی ہے۔ مسجد کے ذریعے مفت یا رعایتی شفاخانہ جہاں فوری علاج اور فرسٹ ایڈ کی سہولت ہو اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے اور جہاں جہاں ایسا ممکن ہے اس کی کوشش کی جانی چاہیے۔
بھوکوں کو کھانا کھلانا اس پر قرآن نے بہت زور دیا ہے اور اس کو آخرت پر ایمان سے جوڑ کر اس کی ترغیب دی ہے۔ پہلے کے مقابلے اگرچہ حالات سدھرے ہیں مگر ابھی بھی غریبی اور بھکمری کا مسئلہ موجود ہے۔ بہت سے لوگ جو شہروں میں تلاش معاش کے لیے آتے ہیں، ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے اور فاقہ کشی کی نوبت آجاتی ہے۔ بہت سے لوگ مستقل بیمار اور مریض ہیں جو کوئی کام نہیں کرسکتے۔ بہت سے بوڑھے بے سہارا لوگ ہیں جن کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے۔ دہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں ہیں جن کو کام نہیں ملنے کے سبب کھانے کے لالے پڑجاتے ہیں۔ غرض مسلموں اور غیر مسلموں کی بڑی آبادی ہے جن کے سامنے یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔ اگر ہم کسی شہر میں پانچ مسجدوں میں ڈبے بند سوسو کی تعداد میں کسی ایک وقت چھ پوری اور تھوڑی سبزی تقسیم کریں تو بہت سے لوگوں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہماری آبادیوں میں ایسے بہت سے مخیر افراد ہیں جو کسی خاص موقعوں پر بھوکوں کو کھانا کھلانا چاہتے ہیں۔ اگر مسجد انتظامیہ ایسا کوئی نظم کرلے تو آپ دیکھیں گے کہ مسجد کی سماجی افادیت میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔
ہم نے اپنی خواتین کو مسجد کے پورے نظام سے الگ تھلگ رکھا ہے۔ میں اس معاملہ میں کسی فقہی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ حضورؐ کے زمانے میں خواتین مسجد میں نماز باجماعت میں شریک ہوتی تھیں، جمعہ اور عیدین کی نماز بھی ادا کرتی تھیں۔ بعد کے زمانے میں فقہا نے بعض مصلحتوں کے تحت انہیں مسجد آنے سے روک دیا۔ اس سلسلے میں جو دلیلیں دی جاتی ہیں وہ کمزور ہیں۔ آج کل عورتیں تعلیم، روزگار، بازار سے سودا سلف خریدنے، سیروتفریح اور تمام کاموں کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں اور ایسا کرنا ضروری بھی ہے۔ اس صورت میں صرف مسجد میں آنے سے روکنا غیر معقول اور نقصان دہ بات ہے۔ مسجد کے مخصوص آداب کے ساتھ عورتوں کو جمعہ اور جماعت میں شرکت کی اجازت دی جانی چاہیے۔ جمعہ کے خطبہ میں جنسی حساسیت کا لحاظ کرنا چاہیے اور عورتوں کے شرف کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں اچھی نصیحت کرنی چاہیے۔ جو کام اللہ کے رسول کے زمانے میں رائج تھا ان حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دینا ایک مردہ سنت کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔ اس سے قبل کے بہت دیر ہوجائے ہمیں ان اصلاحات کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔
Website: abuzarkamaluddin.com
کالم نگار اردو کی بیسٹ سیلر بک’اکیسویں صدی کا چیلنج اور ہندوستانی مسلمان- بند گلی سے آگے کی راہ‘ کے مصنف ہیں۔
مساجد کو خیرکا مرکز بنائیے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS