خواجہ عبدالمنتقم
ماہرین تعلیم،تعلیمی جہد کار اور تعلیم کے حامی و علمی خدمت گار اور ہمارے اساتذہ تعلیم کے میدان میں ماضی بعید، ماضی قریب اور دور جدید میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیںاور انہیں یوم اساتذہ و دیگر مواقع پر یاد بھی کیا جاتا رہاہے۔حال ہی میں ہمارے ملک میں حسب روایت یوم اساتذہ منایا گیا اور اس موقع پر ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کو ان کی علمی خدمات کے لیے یاد کیا جانا لازمی ہے۔ڈاکٹر رادھا کرشنن نے اپنی ساری زندگی علمی خدمات کے لیے وقف کردی تھی۔1908میںپریسیڈنسی کالج مدراس(چنئی) میں پروفیسر بن گئے تھے۔ وہ اپنی قابلیت، سادہ مزاجی اور ملنساری سے طلبا کے دل جیت لیتے تھے۔ جب ان کا تبادلہ میسور سے کلکتہ ہوا تو الوداع کہنے کے لیے طلبا نے انہیں ایک رتھ پر سوار کیا اور اسے کھینچتے ہوئے ریلوے اسٹیشن لے گئے۔ ڈاکٹررادھا کرشنن اپنے شاگردوں کی اس عقیدت اور محبت سے بہت متاثر ہوئے۔
ڈاکٹررادھا کرشنن کو اپنے پیشے پر بڑا ناز تھا۔ وہ فخر سے کہا کرتے تھے ’میں ایک مدرس ہو ں ‘۔ان کی خواہش تھی کہ ان کی پیدائش کے دن کو یوم اساتذہ کے طور پر منایا جائے۔ ان کی اس خواہش کے احترام میں ہمارے ملک میں5ستمبر، 1962 سے باقاعدگی سے ’یوم اساتذہ‘ منایا جاتا رہا ہے۔وہ ایک کامیاب مدرس تو تھے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف و مرتب بھی تھے۔ان کی طالب علمی کے زمانے میں ہی لکھی گئی ویدوں کی تعلیمات سے متعلق ایک کتاب کافی مقبول ہوئی۔بعد ازاں ان کی کتاب ’انڈین فلاسفی‘ دنیا بھر میں مشہور ہوئی۔ اسی بنیاد پر انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں مدعو کیا گیا۔ اپنی تعلیمی لیاقت کی وجہ سے 1952 میں وہ اس یونیورسٹی کے اعزازی فیلو بنائے گئے۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔حکومت ہند کی جانب سے انہیں 1954 میں ہندوستان کے سب سے بڑے اعزاز ’بھارت رتن‘ سے سرفراز کیا گیا۔ ان کی علمی صلاحیتوں کے اعتراف میں دنیا کی 17یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔
اس سال اس مبارک دن ہمیں چند ایسے علمی خدمتگار، جنہوں نے ناموافق حالات میں بھی شعبۂ تعلیم میں ایسی خدمات انجام دیں جن کی مثال نہیں ملتی، بہت یاد آئے۔ان میں سر سید احمد خاں، ڈاکٹر ذاکر حسین اور حکیم عبدالحمید خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ہم نے ذیل میں ان کے ان مثالی پہلوؤں کا مختصر جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین ایک اعلیٰ درجے کے ماہر تعلیم و سیاستداںہونے کے ساتھ ساتھ مصنف بھی تھے۔ذاکر صاحب نے حیدرآباد دکن، دہلی اور علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ بعدازاں جرمن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک معمولی فہم کا شخص بھی اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ 19ویں صدی میں جرمنی سے پی ایچ ڈی کرنے والے شخص کو کیا کچھ نہیں مل سکتا تھا مگر جامعہ ملیہ اسلامیہ،جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مقابلے پر قائم کی گئی تھی، اس سے انتہائی کم تنخواہ پر وابستگی قبول کی۔ وہ ماسوائے آزادی کے بعد بطور صدر ونائب صدر خدمات انجام دینے کے،ہمیشہ علمی وتعلیمی سرگرمیوں سے ہی وابستہ رہے۔ 1937 میں جب بنیادی تعلیم سے متعلق اسکیم تیار کرنے کی بات آئی تو انہیں ایجوکیشن کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔انہیں ان کے تعلیمی امور اور بچوں سے متعلق تصانیف کے حوالے سے بھی حسب موقع یاد کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہونے تک جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایک طویل عرصے تک وابستہ رہے اور جامعہ ملیہ کے بارے میں ان کا درج ذیل قول آج بھی اس ادارے کی روز افزوں ترقی و اہمیت کا مظہر ہے۔
’’جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تحریک ایک تعلیمی وثقافتی نشأۃ ثانیہ کے لیے جدوجہد ہے۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک ایسا خاکہ (blue print) تیار کرے گی جس کا فوکس اسلام پر ہونے کے ساتھ ساتھ عام ہندوستانیوں کے لیے ایک قومی کلچر معرض وجود میں لانا ہے۔یہ تحریک ہندوستانی مسلمانوں میں جذبۂ حب الوطنی اور قومی یکجہتی کو فروغ دے گی اور اس طرح ہندوستانی مسلمان ملک کی ترقی میں حصہ لینے میں فخر محسوس کریںگے اور ہمارا ملک اقوام عالم کے ساتھ مل کر دنیا میں امن وامان قائم کرنے اور ترقی کے کاموں میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کا مقصد مستقبل میں ہندوستانی مسلمانوں کودرپیش چنوتیوں کے مدنظر ان کے لیے ایک ایسا عام نصاب تیار کرنا ہے اور بچوں کو اس طرح تیار کرانا ہے کہ وہ مستقبل میں اہم کردار ادا کرسکیں یعنی انہیں یہ احساس ہو کہ یہ ملک ان کا اپنا ہے اور وہ ہی اس کے مالک ہیں۔‘‘
آج جامعہ اسلامیہ کو ملکی و عالمی پیمانے پر مجموعی طور پر اعلیٰ رینکنگ حاصل ہے اور اس کے طلبا ہر شعبہ ٔ حیات میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔اس سے بڑی بات اور کیا ہوگی کہ چندر یان مشن میں بھی ان کی قابل قدر حصہ داری رہی۔
1857 کے نامساعد حالات میںمسلمانان ہند کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے سید تعلیم سر سید احمد خاںنے برطانوی حکمرانوں سے ٹکراؤ کا راستہ اپنانے کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا۔ اپنوں کی طعنہ کشی برداشت کی مگراپنے مشن کو جاری رکھا۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کا شمار دنیا کی معزز، مہذب اور تعلیم یافتہ قوموں میں کرانے کے خواہاں اور کوشاںتھے۔ انہوںنے اپنے اس تعلیمی خواب کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے آکسفورڈ یونیورسٹی اورکیمبرج یونیورسٹی کی طرز پرعلی گڑھ میں 1877میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا اور اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد ڈا لی جس نے 1920میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ کی رو سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلی۔ اگر یہ ادارہ قائم نہ ہوا ہوتا تو مسلمانان ہند کی جدید تعلیم کے اعتبار سے شرح خواندگی کم از کم ملک تقسیم ہونے تک نہایت کم رہتی بلکہ ایک طرح سے منجمد رہتی اور اس کے پگھلنے کا کوئی راستہ نہ نکلتا اور وہ دیگر فرقوں کے مقابلے میں بہت پیچھے رہتے اور رہے بھی۔
جہاں سرسید احمد خاں نے خوابیدہ مسلمانوں کو نیند سے جگاکر تعلیم کی جانب رجوع کیا تو وہیں ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے کے بعد حکیم عبدالحمید،جنہیں سرسید ثانی کے نام سے لوگ یاد کرتے ہیں، نے جامعہ ہمدرد جسے اب Deemed University کا درجہ حاصل ہے اور جسے حکومت ہند نے ایک اقلیتی ادارہ قرار دیا ہے، اس کے لیے ایک ایسے وقت میں جب لوگ تقسیم ملک کے بعد خوف زدہ تھے اور اس کشمکش میں تھے کہ ہندوستان میں رہنا ہے یا ہجرت کرنی ہے جنوبی دہلی میں اتنے بڑے رقبہ پر مشتمل زمین خریدی اور اس دور میں جب پرائیویٹ یونیورسٹی قائم کرنے کی بات سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی، ایک پرائیویٹ یونیورسٹی قائم کرکے ملک وقوم کے لیے ایسی عظیم مثالی خدمت انجام دی جو تعلیمی و علمی خدمت گاروں کے لیے ایک بہترین مثال و مشعل راہ ہے اور وہ پرائیویٹ یونیورسٹیاںو تعلیمی ادارے قائم کرکے اس مشن کو آگے بڑھا بھی رہے ہیں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]