ڈاکٹرریحان اخترقاسمی
دنیا کا کوئی بھی سماج اور معاشرہ قانون کے بغیر منظم اور ترقی یافتہ نہیں رہ سکتا قانون کے ذریعے انسانوں کے حقوق کی تعین ہوتی ہے جیسے شاہراہ پر بلاتفریق مذہب وملت ہر انسان کو چلنے کی اجازت ہے لیکن ساتھ ہی اگر ٹریفک کا کوئی قانون اور ضابطہ نہ ہو اور ہر شخص جس سمت میں چاہے چلنے میں آزاد ہو اور سگنل وغیرہ کا کوئی نظام نہ ہو تو روزانہ نہ جانے کتنے انسان حادثات کا شکار ہوںگے اور سینکڑوں جانیں اس بدنظمی کی نذر ہو جائیں گی، اس بدانتظامی کی روک تھام کے لیے قانون ایک نگران اور محافظ کا رول ادا کرتا ہے اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قوانین کون بنائے اور کس کو بنانے کا حق حاصل ہے مثلاً جیسے کوئی انسان کسی مشین کو بنا کر یا کوئی چیز ایجاد کرکے اس کے استعمال کے تعلق سے ایک کتابچہ (Guide Book)بھی تیار کرتا ہے جس میں اس کے استعمال کے تمام طرق اور رہنمائی کا بیان ہوتا ہے جس کی اتباع کر کے اس مشین سے کام لیا جاتا ہے لہٰذا ظاہر ہے کہ انسان اپنا خود خالق نہیں ہے بلکہ وہ ایک ذات (اللہ) کی تخلیق ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’کیا تم اس کو پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں‘‘ (واقعہ:59) جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ انسان پر اس کے خالق کا ہی حکم چلے گا اور اس کا بنایا ہوا قانون ہی اس کے لیے سود مند اور مناسب ہوگا، چنانچہ قرآن کریم میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ حلال و حرام کے فیصلے کرنے کا حق صرف اسی کو ہے ارشاد باری ہے۔’’حکم صرف اسی کا ہے‘‘ ،’’سن لو اسی کو پیدا کرنے اور حکم دینے کا حق ہے‘‘ حالانکہ اس دنیا میں سماج اور سوسائٹی کو انسان کے خود ساختہ قوانین کے ذریعے منظم اور ملکی نظام کو چلانے کے لیے مختلف نظریات کے تحت قوانین بنائے گئے ہیں اور ان کے اجراء و نفاذ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے ہیں لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا کسی کی جان مال عزت و آبرو نہ پہلے محفوظ تھی اور نہ اب اس تعلق سے تدبر و تفکر اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ چونکہ یہ قوانین انسانی ذہن کی اختراع ہیں اس لیے آئے دن ان میں کوئی نہ کوئی تبدیلی سامنے آتی رہتی ہے جس سے مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ کے قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہی اور ان پر عمل کر کے سارے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔
مسلم پرسنل لاء: مسلم پرسنل در اصل اسلامی شریعت کے ایک خاص جزو حصے کا نام ہے جن کا نفاذ مسلمانوں کی عائلی زندگی پر ہوتا ہے جس کی جڑیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پیوست ہیں۔مولانا رابع حسنی ندوی فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں اہم ترین نعمت اس کی طرف سے نازل کی جانے والی شریعت ہے جن میں انسان کے لیے دنیا کی بھلائی بھی ہے اور ا?خرت کی کامیابی بھی کیوں کہ شریعت میں جتنے احکام دیے گئے ہیں وہ انسان کے فروغ کے لیے ہیں پھر شریعت میں جہاں اللہ تعالی کی عبادت کا طریقہ سکھایا گیا ہے وہی اس بات کی بھی رہنمائی فرمائی گئی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کس طرح پیش آئے ؟:شوہر بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ کیسا تعلق ہو؟ والدین اور اور اولاد کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں؟ یہ اور خاندانی زندگی سے متعلق اس طرح کے دوسرے قوانین کو ہمارے ملک کی اصطلاح میں’’مسلم پرسنل لاء ‘‘کہا جاتا ہے‘‘۔ (مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مسلم پرسنل لاء اور بعض غلط فہمیاں، ص 11)
قیام کا پس منظر: جب ہندوستان آزاد ہوا اورآئین کو مرتب کیا گیا تو یہ ملک ایک سیکولر اور جمہوری ملک قرار پایا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستان کا نظام حکومت کسی خاص مذہب کا پابند نہیں ہوگا اور ہر شہری کو اپنے طور پر مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور ایک مذہب کے ذریعے دوسرے مذہب کا استحصال نہیں کیا جائے گا تاکہ مختلف مذاہب کے ماننے والے جمہوری نظام حکومت کے تحت پرسکون زندگی گزاریں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارباب حکومت نے ایسے معاشرے کے قیام کی جدوجہد کی شروعات کی جس میں مذہب کے اثرات ختم ہوجائیں ۔
23نومبر 1964 کو مہاراشٹر اسمبلی کے ایک مسلم ممبر مسٹر حسن ہمدانی نے ایک سے زیادہ شادی پر پابندی عائد کرنے کے سلسلے میں ایک بل پیش کیا ، چھ ستمبر1964ء کو مسٹر ایس کے اتھلے نے پھر مہاراشٹرا اسمبلی میں ایک سے زیادہ شادی پر پابندی عائد کرنے کا ایک بل پیش کیا جس کی بعض مسلم ممبران اسمبلی کی طرف سے حسب توقع تائید ہوتی رہی۔ ( آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ خدمات اور سرگرمیاں،ناشر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ،نئی دہلی،2010ء ص 6)
اسی طرح یکساں شہری قانون کا مسئلہ،اور اسی سلسلے کا ایک اہم قدم متبنی بل (Adoption of Children Bill)کی شکل میں اٹھایا گیا۔مولانا منت اللہ رحمانی اس کے متعلق فرماتے ہیں:
’’کوشش کی گئی کہ مساوی قانون سازی کے ذریعے عہد جاہلیت کی ایک غلط رسم کو زندہ کیا جائے اور اسلامی قانون وراثت اور قانون نکاح کو مجروح کیا جائے۔‘‘ (مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی،مسلم پرسنل لاء بحث و نظر کے چند گوشے،مرکزی دفتر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء،نئی دہلی، 2012ء ص 11,10)
چنانچہ مسلم علماء میں یہ سب دیکھ کر بے چینی پیدا ہوئی اور اس کے سدباب کے تعلق سے دیوبند میں قاری محمد طیب نے ایک میٹنگ بلائی اس کے بعد اسی طرز پر ایک اجتماع بمبئی میں منعقد ہوا جس میں باقاعدہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام عمل میں آیا جس میں تین تجویزیں منظور ہوئیں۔
.1 شریعت اسلامی کے احکام وحی الٰہی پر مبنی ہیں ان میں نہ کوئی کمی ہے جسے پوری کرنے کی ضرورت ہے اور نہ زیادتی جسے کم کرنے کی حاجت پیش آئے مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کے دین و مذہب کا جزو ہے، پارلیمنٹ یا ریاستی مجالس قانون ساز کو اس میں ترمیم یا تنسیخ کا حق حاصل نہیں ہے۔
.2 یہ اجلاس متبنی بل 1972 کو اپنی موجودہ شکل میں قانون شریعت میں مداخلت سمجھتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
.3 یہ کنونشن اپنے فیصلوں کو بروئے کار لانے کے لیے آ ل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ تشکیل کرتا ہے جو ہمیشہ ہر فرقہ مسلم کے علماء ماہرین شریعت مسلم قانون دانوں اور ملت کے دیگر ارباب حل و عقد پر مشتمل ہوگا۔ ( آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ خدمات اور سرگرمیاں، ص13,12)
بورڈ کے مقاصد:
.1 مسلمانان ہند کو اس معاملے میں باخبر رکھنا ساتھ ہی صوبائی قانون ساز اسمبلی اور عدلیہ ہی زیربحث ان تمام قوانین پر گہری نگاہ رکھنا جو بالواسطہ مسلم پرسنل لاء سے ٹکراتے ہوں اور محمڈن لاء یعنی شریعت اسلامی کا ماہرین فقہ کی زیرنگرانی جائزہ لے کر حل تلاش کرنا
.2 مسلمانوں کو اسلامی عائلی قوانین و فرائض سے روشناس کرانا اور اس سلسلے میں ضروری لٹریچر کی اشاعت کرنا
.3 مختلف مسالک و مکاتب فکر اور فرقوں کے مابین مسلم پرسنل لاء کی حفاظت کی خاطر اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا
کارکردگی و تنقیدی جائزہ: مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانان ہند کا ایک ایسا متحدہ پلیٹ فارم ہے جو دستور کی رو سے معاشرے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا جائزہ لے کر اس کی اصلاح کی ممکنہ کوشش کرتا ہے ذیل میں بورڈ کی خدمات کو موجودہ دور میں پیش آمدہ مسائل کے تعلق سے بورڈ کی کیا کوششیں رہی ہیں ان کا تنقیدی جائزہ لیا جائے گا۔
.1 انیس سو پچھتر میں ملک نے ایمرجنسی کا دور دیکھا جس نے پورے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور خاص کر مسلمانوں کو جبری نسبندی کی وجہ سے سب سے زیادہ بے چین کر دیا۔ حکومت کے اس رویہ کے خلاف کسی کو زبان کھولنے کی اجازت نہ تھی پریس وغیرہ ہر چیز پر حکومتی پابندی عائد تھی اس ماحول میں بورڈ نے مجلس عاملہ میں نسبندی کے خلاف قرارداد منظور کی جسے پریس نے شائع کرنے سے منع کردیا چنانچہ مولانا منت اللہ نے ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ کے نام سے رسالہ شائع کیا جسے بورڈ نے مختلف زبانوں میں شائع کرا کر ملک کے کونے کونے میں پہنچایا اور حکومت کے ناپاک منصوبہ نسبندی کے خلاف واضح اور مضبوط موقف اختیار کیا۔ آج بھی کچھ صوبائی حکومت دو بچوں والا قانون لانا چاہتی ہے جس کا اصل نشانہ بھی مسلمان ہی ہیں یہ قانون بھی دراصل نسبندی کے مثل ہی ہے نسبندی کا سبب بھی قلت آبادی ہے اور اس قانون کا سبب بھی دراصل یہی ہے۔یہ ایک طرح سے شریعت اسلامی کی خلاف ورزی ہے، شریعت اسلامی میں بچوں کی پیدائش کی کوئی تحدید نہیں ہے بلکہ شریعت اسلامی نے تو اولاد کی پیدائش کو نعمت قرار دیا ہے۔ لیکن آج بورڈ کے ذمہ دار اس قانون کے تئیں زیادہ فکر مند نظر نہیں آتے ہیں جب بھی اس طرح کا کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو ایک دو بیان جاری کر کے بورڈ کے اراکین مطمئن ہوجاتے ہیں کہ جیسے پریس ریلیز اور بیان ہی مسئلے کا حل ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بورڈ بلا تفریق فرق و مسالک شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں علماء کی ایسی ٹیم کو تشکیل دیتے کہ جو لوگوں کو مذکورہ قانون کے متعلق بتلاتے اور اس تعلق سے خدا کا وعدہ ان کے قلوب میں پختہ کر تے کہ اولاد دو ہو یا چار رزاق اللہ ہی ہے نہ کہ وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور ہے یا کم از کم اسلاف کی طرح حکومت سے بات کرتے کہ جیسے اسلاف نے اپنے وقت میں بات چیت سے مسئلہ کا حل تلاش کیا تھا۔
.2 اکتوبر 1978 میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں لکھنؤ کی دو مسجدیں ایک قبرستان اور جے پور کی ایک مسجد کو وہاں کی میونسپل کارپوریشن نے ایکوائر کرلیا اور ساتھ ہی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ جس مسجد یا قبرستان کو مفاد عامہ کی خاطر قبضے میں لینا چاہیے لے سکتی ہیں۔بورڈ کی انتھک کوششوں سے اس فیصلے کو واپس لینا پڑا۔آج بھی مسلمانوں کی مساجد و مقابر اور مقدس مقامات حکومت کے نشانے پر ہیں حال ہی میں ضلع مظفرنگر کی ایک مسجد کو یہ کہہ کر کے کہ سرکاری زمین میں ہے شہید کر دیا گیا لیکن بورڈ کے ذمہ داران اس طرح کے مسئلہ میں متحرک نظر نہیں آئے نہ وہ اسلاف کی طرح حکومت کے ذمہ داروں سے تبادلہ خیال کرتے نظر آئے کہ ما قبل زمانہ جیسا انہوں نے مسئلہ کا حل نکالا تھا۔یا پھر یہ کہ بورڈ کو ماہرین قانون کی ہر علاقے میں ایک ایسی کمیٹی تشکیل دینی چاہئے کہ جو مساجد و مقابر پر نظر رکھے اور اس طرح کے پیش آمدہ واقعات کے تئیں قانونی چارہ جوئی کا حق رکھے لیکن موجودہ حالات میں بورڈ حرکت میں نظر نہیں آتاہے بس بیان جاری کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔
.3 انیس سو تہتر میں بورڈ نے قیام کے بعد ہی ایک ایسے فوجداری قانون کا سامنا کیا جو توجہ کا مرکز بنا رہا کہ جس میں متعلقہ کے تا حیات یا نکاح ثانی، شوہر پر نفقہ لازم کر دیا جو سراسر شریعت اسلامی کے خلاف اوراس میں کھلم کھلا مداخلت تھی جس کا بورڈ نے نوٹس لیا اور پورے ملک میں تحریک چلائی بالآخر اسلامی قانون یعنی نفقہ جاری رہا۔موجودہ حکومت نے بھی تین طلاق پر پابندی عائد کرکے شریعت میں مداخلت کی ہے جو ایک طرح سے یکساں سول کوڈ کی طرف راہ ہموار کرنے کا سبب ہے اگر پرسنل لاء بورڈ آغاز سے ہی مسلکی وفرقی اعتبار سے علماء کی ایک ٹیم تیار کرتا جو عوام کو تین طلاق کی برائیاں اور خرابیاں بتاتی اور زوج اور زوجہ میں نباہ نہ ہونے کی صورت میں ایک طلاق کے ذریعے تفریق کا راستہ بتاتے تو آج معاشرے میں تین طلاق کے واقعات پیش نہ آتے اور حکومت کو اسلامی شریعت میں مداخلت کی جرأت نہ ہوتی۔
.4 پرسنل لاء کے مسائل میں ایک مسئلہ نکاح کا بھی آتا ہے نکاح کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دیا گیا ہے اور ساتھ ہی شریعت اسلامی نے آسان نکاح پر ابھارا ہے لیکن آج معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے جو چیز آسانی سے ہونی تھی وہی سب سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔اس کی چند وجوہات ہیں ایک جہیز جیسی لعنت کا معاشرے میں عام رواج پا جانا، دوسرے سماج میں اس بات کا چلن ہو نا کہ جب تک نوکری نہ ہو نکاح کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے موجودہ دور میں آئے دن لڑکیوں کی خودکشی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔
ساتھ ہی ہم جو ارتداد کے واقعات سنتے ہیں یہ بھی ان ہی کے سبب ہے۔یہ بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ اصلاح معاشرے کے نام سے گاؤں گاؤں ایسے پروگرام کا انعقاد عمل میں لائے جن کے ذریعے معاشرے میں پنپ رہی ان برائیوں کی بیخ کنی کی جائے، لیکن بورڈ کے ذمہ داران حرکت میں تب آتے ہیں جب اس طرح کے واقعات پیش آ چکے ہوتے ہیں۔
الغرض بورڈ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک جو خدمات انجام دی ہیں ان سے کسی کو انکار نہیں لیکن موجودہ حالات میں جہاں مسلم معاشرہ بہت سی خرابیوں کا شکار ہے اس کی ذمہ داری بھی ایک ذمہ دار ادارہ کی حیثیت سے کسی نہ کسی حد تک بورڈ کے ذمہ داران کی ہے کہ جب حکومت نے بابری مسجد شہادت، تین طلاق وغیرہ جیسے معاملوں میں ہماری نبض ٹٹول کر راہ ہموار پائی اور اب یکساں سول کوڈ کی طرف حکومت کی نظر ہے تو ایسی صورت حال میں بورڈ کو چاہیے کہ مستقبل کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرے جس پر بلا مسلک و فرق سب کا اتفاق ہوا اور جس پر عمل پیرا ہوکر سماج اور معاشرے میں بیداری لائی جائے تاکہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں جو ہمارے لئے شرمندگی کا باعث بنیں اور شریعت میں بھی کسی کو مداخلت کی جرأت نہ ہو۔
( اسسٹنٹ پروفیسر،فیکلٹی آف تھیولوجی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ)