ڈاکٹر منموہن سنگھ حقیقتاً من موہنے والی شخصیت تھے: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

یاد آئیںگے ہم تم کو اے اہل جہاں اکثر
ہم نے رخ ہستی پر وہ نقش ابھارے ہیں

ہم نے پہلی مرتبہ منموہن سنگھ کو سادہ لباس میں ملبوس چپل پہنے ہوئے منحنی سی شخصیت کے روپ میںDelhi School of Economics میں اس وقت دیکھا تھا جب ہم 60کی دہائی میں دہلی یونیورسٹی سے ایم- اے (Economics ) کرر ہے تھے۔یہ وہ دور تھا جب منموہن سنگھ کے دیگر ہمعصر عظیم المرتبت ماہرین معاشیات دہلی یونیورسٹی میں تدریسی و تحقیقی عملے کا حصہ تھے۔ان میں خسرو صاحب کو کلیدی حیثیت حاصل تھی مگر منموہن سنگھ کو ترقی کے متواتر مواقع ملتے رہے اوروہ جہاں جہاں بھی رہے، انہوں نے اپنی قابلیت، شرافت، مروت، سادگی، فروتنی، کسر نفسی اور خشوع جیسے اوصاف سے سب کو متاثر کیا اور سب کا دل جیتا۔ اپنے سے کم درجہ لوگوں کی آمد پر بھی کھڑے ہوکر خوش آمدید کہتے۔

اردو کے دلدادہ تھے۔ اپنی ہندی تقاریر کو اردو میں لکھ کر پڑھتے تھے۔جب ان کی خاموشی پر ایوان میں سوال اٹھایا گیا تو شاعرانہ انداز میں جواب دیا: ’ہزاروں جوابوں سے اچھی ہے میری خاموشی،جو کئی سوالوں کی آبروڈھک لیتی ہے‘۔جب منموہن سنگھ نے سشما سوراج کو مخاطب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا:

ہے ہم کو ان سے وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

تو سشما سوراج نے بھی برجستہ جواب دیا:

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوںگی
یوں ہی کوئی بے وفا نہیں ہوتا

ایک اور موقع پرسشما سوراج نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا:

تو ادھراُدھر کی نہ بات کریہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
ہمیں رہزنوں سے گلہ نہیں، تری رہبری کا سوال ہے

اس پر منموہن سنگھ نے یہ جواب دیا:

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ

کسی جمہوری ملک میں کسی ایسے شخص کی اس سے بڑی حصولیابی اور کیا ہوگی کہ جو الیکشن میں شکست کے بعد دس سال تک وزیراعظم رہا اور ایک اٹلی نـژاد خاتون، جو ہندوستان کی بہو بن کر اور ہندوستان کی شہریت حاصل کرنے کے بعدہندوستان کی سیاست میں ایک فعال کردار نبھانے کی اہل ہوگئی، منموہن سنگھ نے اس کے تئیں مکمل وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اٹوٹ سیاسی رشتہ قائم رکھا۔ یہ ہے ہندوستان کا بڑا پن جس نے سونیا جی کو اتنی عزت دی جبکہ انسانی حقوق کے عظیم علمبردار امریکہ تک میں غیر امریکی نژاد اس ملک کا سربراہ نہیں ہوسکتا۔صرف یہی نہیں بلکہ اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ جمہوریت میںجہاں سر گنا کرتے ہیں اور اکثریت مغلوب رہتی ہے، ہندوستان کی 1.72فیصد آبادی سے تعلق رکھنے والے شخص کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ادھر نہرو خاندان کی اعلیٰ ظرفی دیکھئے کہ جس نے ایسے مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کو و زیراعظم بنادیا جس کے ہم مذہب نے اس خاندان کی عظیم شخصیت اور ملک کی وزیراعظم کی جان لے لی تھی۔ اسے کہتے ہیں اعلیٰ ظرفی اور روشن خیالی کیونکہ قاتل صرف قاتل ہو تا ہے یعنی مجرم صرف مجرم،اور اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

منموہن سنگھ کے اوصافِ حمیدہ، پاکیزہ اخلاق، غیر متزلزل رویہ، مستقل مزاجی، صبر و استقامت، حلم و برداشت، راست گفتاری، انکساری مگر ساتھ ہی بے خوفی، جرأت، بلند ہمتی، ضرورتمندوں کی مدد(ملیشیا کے اس وقت کے معزول وزیراعظم ابراہیمی کو بچوں کی تعلیم کے اخراجات کو برداشت کرنے کی پیشکش)،الوالعزمی، غرباء پروری، بیوگان کی مدد، احباب سے حسن سلوک، رشتہ داروں سے معیاری برتاؤ، دشمنوں کے ساتھ رحم، عفو ودرگزر، اہل خانہ سے محبت، ان کی ہر طرح کی خدمت اور حسنِ سلوک، سادگی، بے تکلفی، بلاامتیاز بنی نوعِ انسان سے ہمدردی، اعلیٰ انتظامی صلاحیت، قیادت، ذہانت و بصیرت، فہم ودانش، صدق وامانت، ایمانداری، خوش خوئی،شائستگی، حسنِ ظاہر اور کمالِ باطنی(صرف ایک چہرہ یعنی ظاہر و باطن ایک) وہ کون سی خوبی ہے، جو ذاتِ گرامی کی صفات میں بدرجہ اتم نہ پائی جاتی تھی۔

منموہن سنگھ، اگر کوئی ان کی تعظیم کے لیے کھڑ ا ہوتا تھا یا ان کے آگے پیچھے رہتا تو اسے پسند نہیں کرتے تھے یااپنے لیے کسی امتیازی عمل کے روا دار نہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ تمہارے درمیان ممتاز نظر آؤں۔ ہمیں یاد ہے جب بجٹ کی تیاری کے سلسلہ میں وزارت قانون کے افسران،جن میں ہم بھی شامل تھے،و عملے کو وزارت خزانہ میں خصوصی طور پر تعینات کیاجاتا تھا تو منموہن سنگھ اس کام میں مشغول عملے کے ہر درجے کے ملازمین و افسران سے خود جا کر ملتے تھے اور دریافت کرتے تھے کہ کوئی پریشانی تو نہیں۔ جب وہ ہم سب کا حال چال پوچھتے تھے تو عجیب سا لگتا تھا چونکہ اس سے قبل کسی بھی وزیر خزانہ کا رویہ ایسا نہیں رہا۔اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے اسد؟ جب گولڈن ٹیمپل کے گرو صاحبان نے انہیں ’تنخئیا‘ یعنی مذہبی گنہگار قرار دیا تو وہاں جا کر روایتی انداز میں در گرودوارہ پر سیوا کی۔ تقسیم ملک کے دوران ان کے خاندان کو مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا لیکن ان میں تعصب جیسی کوئی بات نہیں تھی اور ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ قاتلوں اور ظالموں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے خاندان کو نقصان پہنچانے والے اور بچانے والے ایک ہی مذہب کے تھے۔ میری ماں کو بچانے والے بھی مسلمان تھے۔ کبھی کبھی ان کی اعتدال پسندی کو اقلیتوں کی خوشنودی سے تعبیر کر دیا جاتا تھا۔

منموہن سنگھ کی ایمانداری کے تو سب ہی قائل تھے۔آخر وہ بابا گرو نانک کے سچے پیرو کار تھے۔ بابا گرونانک تو ا س قدر ایماندار تھے کہ کسی رشوت خور یابے ایمان شخص کے یہاں کچھ کھاتے پیتے تک بھی نہیں تھے۔

گروجی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص رشوت لیتا ہے، چور بازاری کرتا ہے یا غیر اخلاقی وغیر قانونی طریقوں سے پیسہ کماتا ہے تو اس طرح حاصل کردہ پیسہ یا دولت صحیح معنوں میں اس کی دولت نہیں ہے اور اس کے اس قبضے کو ناجائز تصور کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دولت اس دیگر شخص کی ہے جس سے اس نے بے ایمانی سے حاصل کی ہے۔ انہوں نے حق وحلال کی کمائی کی اہمیت کو یہ مثال دے کر مزید اجاگر کیا اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یہ پیغام دیا کہ بے ایمانی سے کمائی ہوئی آمدنی ہندو کے لیے گائے اور مسلمان کے لیے خنزیر کے گوشت کے برابر ہے۔اس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ انہوں نے سید پورہ کے حاکم کے ایک ایسے اہلکار کھتری ملک بھاگو کے اپنے باپ کی شراد پر برہمنوں کو دیے گئے بھوج میں شامل ہونے سے اس بنیاد پر انکار کردیا کہ ملک بھاگو ایک رشوت خور، دوسروں کا حق تلف کرنے والا شخص اورایک بے ایمان و مغرور اہلکار تھا۔ جب گروجی پر اس بھوج میں شریک ہونے کے لیے زور دیا گیا تو انہوں نے صاف طور پر یہ بات کہہ دی کہ میں ایسے کھانے کے مقابلے میں حق وحلال کی سوکھی روٹی ہی کو ترجیح دوںگا۔

منموہن سنگھ کی صاحبزادی کے چتا کو اگنی دینے سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ سکھ مذہب میں مرد و زن کو برابر سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی بابا گرونانک نے ہمیشہ صنفی امتیاز کے خلاف آواز اٹھائی۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS