محمد فاروق اعظمی
نوٹ بندی جی ایس ٹی، لاک ڈائون جیسے فاتر العقل فیصلے کرنے اوربزور طاقت اس کے نفاذ کے بعد سے ملک میں مودی حکومت کی جو شبیہ بنی ہے، اس میں اس کے اچھے کام بھی شبہات میں گھرے نظرآتے ہیں۔اعتماد اور اعتبا ر کی یہ کمی کسی حکومت کیلئے بڑا خطرناک ثابت ہوتی ہے لیکن مودی حکومت اس معاملے میں خوش نصیب ہے کہ ساکھ کی کمی کا شکار ہونے کے باوجود سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعہ وہ تیسری بار اقتدار پر قابض ہوچکی ہے اور اس کا آغازملک کے نظام عد ل و انصاف کی نئی صورت گری سے کررہی ہے۔ہندوستان کے نظام انصاف میں بنیادی کردار اداکرنے والی تعزیرات ہند1860، ضابطہ فوجداری1898اور قانون شواہد 1872اگلے ایک ہفتہ میں مکمل طور پر ختم کردیے جائیں گے اوران کی جگہ تین نئے فوجداری قوانین نافذ کیے جائیں گے۔ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ ان قوانین کے نفاذ کے بعد ہمارا فوجداری انصاف کا نظام دنیا کا جدید ترین فوجداری انصاف کا نظام بن جائے گا۔ مرکزی حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق برطانوی دور کے انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی)، انڈین ایویڈینس ایکٹ اور کریمنل پروسیجر کوڈ(سی آر پی سی) کی جگہ لینے والے تین نئے فوجداری قوانین انڈین جسٹس کوڈ، انڈین سول ڈیفنس کوڈ اور انڈین ایویڈینس ایکٹ یکم جولائی 2024سے نافذ ہوں گے۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ان قوانین کے نفاذ کے خلاف دائر مفادعامہ کی عرضی پر سماعت سے بھی انکار کردیا ہے اور آخری اڑچن بھی ختم ہوگئی ہے۔ مفادِ عامہ کی عرضی میں کہاگیاتھا کہ جب یہ قوانین پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے تھے تو پارلیمنٹ میں اس پر کوئی وسیع بحث نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس وقت زیادہ تر ارکان پارلیمنٹ کو معطل کر دیا گیا تھا۔ عرضی میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے کر نئے قانون کا جائزہ لینے نیز ان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن عدالت عالیہ نے اس عرضی کو سماعت کیلئے لائق بھی نہیں جانا اور اسے مسترد کردیا۔ گویا مقننہ کے بعد عدلیہ بھی ہندوستان کے فوجداری نظام انصاف کو 19ویں صدی سے سیدھے 21ویں صدی میں چھلانگ لگانے کیلئے ہری جھنڈی دے چکی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تینوں فوجداری قوانین تعزیرکی بجائے انصاف کے اصولوں پر بنائے گئے ہیں۔ہندوستان میں مکمل لیک پروف عدالتی نظام بنانے کی بنیادی باتیں ان قوانین میں رکھی گئی ہیں جس کے ذریعہ پولیس اسٹیشن، ڈی جی پی آفس، کورٹ، جیل، ایف ایس ایل، پراسیکیوٹر آفس اور سکریٹریٹ کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جائے۔ ان قوانین کے مکمل نفاذ کے بعد ملک بھر میں کسی بھی فوجداری مقدمے کو نمٹانے میں 3 سال سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
لیکن اعتبار اور اعتماد کی کمی کی شکل مودی حکومت کی ان باتوں پر اپوزیشن بالکل ہی بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی ان قوانین کی سب سے بڑی شاکی ہیں، انہوں نے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر ان تینوں قوانین پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔خط میں ممتابنرجی نے لکھاہے کہ گزشتہ دسمبر میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 146 اراکین اسمبلی کو نکالے جانے کے بعد جس خود مختار طریقے سے تین بل منظور کیے گئے وہ ہندوستانی جمہوریت کی تاریخ میں ایک کالا دھبہ ہے۔ اب اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ممتابنرجی نے وزیراعظم کو یاد دلایا کہ پارلیمانی اخلاق کا تقاضا ہے کہ ان تینوں قوانین کے بننے کے عمل کا ایک بارپھر سے جائزہ لیاجائے۔جس طرح سے یہ تینوں بل سابقہ لوک سبھا میں بغیر کسی بحث کے عجلت میں منظور کیے گئے تھے، وہ جمہوری عمل اور اقدار کے خلاف ہے۔
اپوزیشن کانگریس ہو ممتابنرجی یا پھر سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کرنے والے وکلا اور رضاکارتنظیمیں ان کے شکوک و شبہات کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ یہ تینوں فوجداری قوانین جن کی بابت حکومت زمین و آسمان کے قلابے ملارہی ہے اورا نہیں تعزیر کی جگہ فرد کی اصلاح قرار دے رہی ہے، ان میںشفافیت کی کمی تو ہے ہی ان کے نفاذ کیلئے جن انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے، وہ ہندوستان میں تاحال قائم نہیں ہوسکے ہیں۔اس سلسلے میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ ان تینوں قوانین کے نفاذ کیلئے بنیادی ڈھانچے، سافٹ ویئر، انسانی وسائل کی تربیت اور عدالتوں کی مکمل کمپیوٹرائزیشن کا کام دسمبر 2024 تک مکمل کرلیا جائے گا۔گویاقانون پہلے نافذ ہوگا اور اس پر عمل درآمد کے وسائل بعد میں سامنے آئیں گے۔
فوجداری انصاف کا نظام پولیس، عدلیہ، بیوروکریسی اور جیل حکام سمیت مختلف اداروں کے کام پر انحصار کرتا ہے۔ پولیس افسران کو قانون نافذ کرنے، مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے اور انہیں تحویل میں لینے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ مشتبہ افراد کسی جج کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جو ان کے جرم یا بے گناہی کا تعین کرتا ہے۔ سزا سنائے جانے پر، جیل حکام کو قید، پے رول اور پروبیشن کا انتظام کرنے کا کام سونپا جاتا ہے۔ لیکن لاجسٹک مسائل اور انفرااسٹرکچر فوجداری انصاف کے نظام میں کم عملہ، ماہرین کی کمی اور زیر التوا مقدمات کی بلند شرح وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو ان قوانین کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنیں گے۔اس کے علاوہ مختلف اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کی سفارشات کو بھی ان قوانین میں شامل نہیں کیاگیا ہے۔لاکمیشن، پارلیمانی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ، جسٹس مالیمتھ کمیٹی(2003) اور جسٹس ورما کمیٹی (2013) کی گرفتاری، اعتراف جرم، ضمانت، غلط استغاثہ کیلئے معاوضہ اور سزائے موت جیسی کئی اہم سفارشات کو اس قانون میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔اس کے علاوہ یہ نہیں بتایا کہ فوجداری سے متعلق وہ مقدمات جو ابھی زیرا لتوا ہیں، ان کی سماعت اور فیصل ہونے کی کیا صورت ہوگی۔خبر ہے کہ 30 مارچ 2022 تک سپریم کورٹ میں زیر التوا 20 فیصد مقدمات فوجداری کے تھے۔12 دسمبر 2021 تک ملک کی نچلی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا 74 فیصد فوجداری مقدمات تھے۔ نومبر 2023 تک 30 لاکھ سے زیادہ فوجداری مقدمات 10 سال سے زائد عرصے سے زیر التوا ہیں۔ ان تمام نکات کے حوالے سے مودی حکومت کے قوانین خاموش ہیں۔
شبہ کی سب سے بڑی وجہ ان بلوں کو ایوان سے بغیر کسی بحث کے پاس ہوکر قانون بننا ہے۔جس پر مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی کو ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام شہریوں کو اعتراض ہوناچاہیے۔ایک ایسا قانون جو نافذ تو 2024کی یکم جولائی سے نئے ارکان قانون سازیہ کی حلف برداری کے بعد ہورہاہے لیکن اس قانون سازی میں نئے ارکان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ پارلیمانی نظام کی شفافیت اور ساکھ کابھی تقاضا ہے کہ لوک سبھا کے نو منتخب اراکین کو ان کے دور میں بنائے گئے قوانین پر بحث میں حصہ لینے کا موقع دیا جانا چاہیے۔
ہوسکتا ہے مودی حکومت کی نیت اچھی ہو، قانون کے کئی مثبت پہلو بھی ہیں لیکن ان پر اٹھنے والے شبہات بھی کافی قوی ہیں،اس لیے ممتابنرجی کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ جب تک ان شبہات کا ازالہ نہیںہوجاتا ہے یہ تینوں قوانین نافذ نہیں کیے جانے چاہئیں۔
[email protected]