شاہد زبیری
ایک طرف ہم چاند پر کمندیں ڈال ر ہے ہیں دوسری طرف ہم انسانیت کی تذلیل کی ساری حدیں پار کر تے جا رہے ہیں کہیں خواتین کو برہنہ کرکے ان کا جلوس نکال کر تو کہیں حجاب سروں سے نوچ کر انسانیت کے چہرہ پر خراشیں ڈالی جا رہی ہیں،ماب لنچنگ کے ذریعہ انسانیت کو پائوں تلے روندا جا رہا ہے اب تعلیم گاہوں تک یہ سلسلہ دراز ہوگیاہے۔ استاد جس کی ذمّہ داری ہے کہ وہ طلبہ کو انسانیت اور اخلاق کی تعلیم دے لیکن اس کے برعکس استاد ہی طلبہ کے معصوم ذہنوں میں مذہبی منافرت کا زہر گھول رہے ہیں، یہ کھیل پہلے سے ہی دلتوں اور سماج کے دوسرے کمزور طبقات کیساتھ ذات برادری کے نام پر کھیلا جا رہاتھا اور آج بھی کھیلا جا رہا ہے اب یہی کھیل مذہب کے نام پر مسلم طلبہ کیساتھ پرائمری اسکولوں کی سطح پر کھیلا جا رہا ہے ۔ابھی تو ایک مظفر نگر ضلع کے گائوں منصور پورہ کے کھبّا کی ویڈیو سامنے آئی ہے نہ جا نے اور ایسے کتنے پرائمری اسکول ہوں گے جہاں کے اسا تذہ معصوم طلبہ کو مذہبی منافرت کا درس دے رہے ہوںگے اور مذہب کی بنیاد پر ہم سبق طلبہ کو ایک سے دوسرے سے زدو کوب کرا یا جا رہا ہو گا اور گھر والوں کی تذلیل بھری کلاس میں کیجا رہی ہو گی ۔
مظفر نگر کے اسکول کی استانی نے نہ صرف مذہب کی بنیاد پر ایک مسلم طالب علم کو اس کے ہم سبق طلبہ سے پٹوایا اس نے طلبہ کے ذہنوں میں مذہبی منافرت کے بیج بھی بوئے ہیں ویڈیو دیکھ کراستانی کا رویّہ جو سامنے آتا ہے وہ طالب علم کو تنبیہ کر نیکا نہیں بلکہ ایک خاص مذہب سے نفرت اور دشمنی کے جذبات کا مظہر ہے ،استانی کا یہی جرم نہیں کہ اس نے معصوم طلبہ کو مذہبی منافرت کی راہ دکھائی بلکہ سماج کو بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر بانٹنے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانیکا بھی جرم کیا ہے کیا استانی کو معلوم نہیں کہ کسی بھی طالب علم کو زدو کوب نہیں کیا جا سکتا اسکو جسمانی چوٹ نہیں پہنچائی جا سکتی یہ قانو ناًً جُرم ہے استانی نے جس طالب علم کو اس کے ہم سبق طلبہ سے پٹوایا اور اس کے چہرے پر طمانچوں کی بارش کرائی اور کمر پر گھونسے لگوائے اور طالب علم بے بسی کی تصویر بنا کھڑا رہا اگر یہ معاملہ بچوں کے مابین جھگڑے کا ہوتا تو جس کو پیٹا جا رہا ہے وہ بھی کچھ ہاتھ پائوں چلاتا لیکن ویڈیو ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ یہ طلبہ کے مابین جھگڑے کا معاملہ ہے جن طلبہ سے ان کے ساتھی طالبِ علم کو پٹوایا گیا ہے وہ طالبِ علم قصور وار نہیں قصور وار پیٹنے کا حکم دینے والی استانی ہے ۔ بات اگر اتنی ہی ہوتی تو بھی تاویل کی جا سکتی تھی لیکن استانی نے طالبِ علم کے گھر والوں کے نام پر مسلم خواتین کے بارے میں جو زبان استعمال کی ہے وہ استانی کی گندی ذہنیت کا مظہر ہے یہ ذہنیت ایک خاص تربیت اور خاص ذہن سازی کی دین ہے جس ماحول میں انہوں نے پرورش پائی اور جو ان کے ذہن میں بٹھا یا گیا یہ اس کا قصور ہے تو کیا ایسی استانی کو قا نون کے تحت سزا نہیں دیجا نی چا ہئے لیکن بھارتیہ کسان یو نین کے قومی صدر نریش ٹکیت ہوں یا مرکزی وزیر ڈاکٹر سنجیو بالیان وہ اس کو بچوں کے جھگڑے کانام دے رہے ہیںاور گائوں کا مسئلہ بتا رہے ہیں وہ یہ فرمان بھی جاری کر چکے ہیں کہ معاملہ کو اسکول اور گائو ں والے نمٹا لیں گے سنجو بالیان نے کہا کہ اس چھوٹے سے معاملہ کو بڑا بنا کر پیش کر نا غلط ہے وہ اس کو مذہب اور ذات پات سے جوڑ نے کو بھی غلط ما نتے ہیں کاش وہ اتنے ہی صاف ذہن کے ہو تے تو وہ بی جے پی میں نہ ہو تے جس نے سماج میں مذہب اور ذات پات کے نام نفرت کا بازار گرم کررکھا ہے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ یہی بات سماجوادی پارٹی کے قومی جنرل سیکریٹری ہریندر ملک بھی کہہ رہے ہیں وہ اس معاملہ کو محض بچوں کا جھگڑا مان کر دبا نا چاہتے ہیں اس کا جو اصلی قصور وار ہے اس کو بچایا جا رہا ہے ۔سنجیو بالیان سے ہمیں شکایت نہیں وہ جس پارٹی میں اس پارٹی کی سرکار ہے اور اس واقعہ سے سرکار کی بد نامی ہو تی ہے لیکن نریش ٹکیت کو اور ہریندر ملک کو تو سچ سامنے لانا چا ہئے وہ اس سنگین معاملہ کی کیوں لیپا پوتی کر نا چا ہتے ہیں کیا اس طرح فرقہ وارانہ ہم آہنگی بحال رکھی جا سکتی ہے کہ کمزور کو انصاف نہ دلا یا جا ئے اور ظالم کو بچا یا جا ئے آخر ان دونوں لیڈروں کا کیا مفاد ہے ۔ہریندر ملک جس پارٹی کے لیڈر ہیں اس پارٹی کے قائد اکھلیش سنگھ کا بیان تو کچھ اور ہے ہریندر ملک نے اس بیان کو ہی پڑھ لیا ہوتا ۔ اکھلیش سنگھ یادو اپنے بیان میں صاف کہا کہ سنگھ اور بی جے پی کی نفرت کی سیاست نے ملک کو یہاں تک پہنچا دیا ہے راہل گانڈھی کا کہنا صد فیصد صحیح ہے کہ ایک ٹیچر ملک کیلئے اس سے بُرا کچھ نہیں کرسکتا کہ وہ معصوم بچوں کے ذہن بھید بھائو کا زہر گھولے اسکول جیسی پاک جگہ کو نفرت کا بازار بنائے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ یہ بی جی پی کا پھیلا یا ہوا وہی کیروسن ہے جس نے بھارت کے کونے کونے میں آگ لگارکھی ہے ۔
آخروہ نیشنل کمیشن فار چائلڈس رائٹس کہاں ہے جس نے ایک’ مانو شی سدن ‘نامی دہلی کی غیر معروف تنظیم کی فرضی شکایت پر دارالعلوم دیو بند جیسے عالمی شہرت یافتہ ادارہ کو نوٹس بھیجااور پوچھا تھا کہ دارالعلوم میں بچوں کو غلط تعلیم کیوں دیجا ر ہی ہے اس میں کتاب بہشتی زیور کا نام بھی لیا گیا تھا جبکہ بہشتی زیور دارالعلوم کے نصاب میں ہی شامل نہیں ہے بعد کمیشن کی طرف سے محکمہ تعلیم کے افسروں نے چھان بین کی اور ڈی ایم کو رپورٹ دی تھی ۔مظفرنگر اسکول میں ایک طالب علم کو استانی کے ذریعہ جس طرح اس کے ہم سبق طلبہ سے بیدردی سے پٹوایا گیا اس معاملہ میں نیشنل کمیشن فار چائلڈ رائٹس نے اب تک کیوں کو ئی پہل نہیں کی اور کیا یہ انسانیت کی تذلیل نہیں اس پر ہیومن کمیشن نے بھی چپّی سادھ رکھی ہے ۔ ایک طرف بی جے پی کواندنوں پسماندہ مسلمانوں کو غم ستا رہا ہے اور بی جے پی ان کے غم پر ٹسوے بہا تی ہے ۔مظفر نگر کے اسکول میں جس بچہ کو پٹوایا گیا کیا وہ بچہ اشرافیہ طبقہ کا ہے پسماندہ مسلم طبقہ کا نہیں؟ اس پر بی جے پی کیوں استانی کیخلاف کارروائی کیلئے اپنی سرکار پر دبائو نہیں ڈال رہی ہے الٹا بی جے پی کے وزیر اس کی پردہ پوشی کرر ہے ہیں ۔ بی جے پی کا پروردہ ،پسماندہ مسلم محاذ بھی خاموش ہے۔ راشریہ مسلم منچ کے مارگ درشک اندریش کمار اور قومی صدرمحمد افضل ہوں یا بی جے پی کا گن گان کر نے والی جماعت علماء کے صدر صہیب قاسمی ہوں یہ سب مسلمانوں پر ہو نے والی زیادتیوں پر ہمیشہ خاموش رہتے ہیں۔ سنگھ پریواراور بی جے پی نے آخر یہ مسلم نام کی نمائشی تنظیمیں کس لئے بنا رکھی ہیں؟۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ مطالبہ انصاف پر مبنی ہے کہ “نیشنل کمیشن فار چائلڈ رائٹس اس واقعہ کا از خود نوٹس لے اور مجرم (استانی) کیخلاف چائلڈ رائٹس ،ہیومن رائٹس اور دو قوموں کے درمیان منافرت کی روک تھام ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کریں اور متعلقہ افسران کو ہدا یت دیں کہ وہ معمولی دفعات لگا کر اس سنگین معاملہ کی پردہ پو شی نہ کرے ” ان کا یہ کہنا صحیح ہیکہ ملک ہیٹ (نفرت) کا مرکز بنتا جا رہا ہے ۔ راہل گاندھی ہوں یا اکھلیش سنگھ یادوان جیسے لیڈران ان سب کی تشویش بجا ہے ۔ معصوم ذہنوں کو اس حد درجہ مسموم کردیا جا ئیگا یہ تو کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا اسکول جہاں دماغوں میںعلم کے چراغ روشن کئے جا تے ہیں اچھے برے کی تمیز سکھا ئی جا تی اچھے اخلاق کی تعلیم دیجا تی ہے اس اسکول میں طلبہ کے درمیان ایک دوسرے کے کیخلاف دماغ میں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں اور تعلیم گاہوں کو نفرت کی نرسریاں بنایا جا رہا ہے ۔ پہلے مسلم لڑکیوں کو حجاب کے بہانہ اسکول کا لجوں سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ، اب مسلم بچوں کو اسکول بھگا نے کی سازش رجی جا رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل کو تعلیم سے بے بہرہ رکھ کر مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی میں اضافہ اس کا مقصد ہے ۔
qqqq