شروع ہوا ٹرمپ راج!

0

امریکہ کا صدر کوئی بھی لیڈر بنے، اس کی اہمیت ہوتی ہے۔ عالمی برادری کی نظر اس بات پر رہتی ہے کہ اس کی مدت صدارت میں امریکہ کی پالیسی کیسی رہے گی۔ عالمی سیاست کی دِشا اور دَشا کتنی بدلے گی۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ ایک منفرد لیڈر ہیں۔ وہ کھل کر باتیں کرتے ہیں بلکہ یہ کہیے کہ متنبہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ دشمن یا حریف کے خلاف وہ کھل کر پالیسی بناتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ جیسے ان کی پہلی مدت صدارت میں امریکہ نے چین کے خلاف ٹریڈوار چھیڑ رکھی تھی لیکن دوست کو بھی ٹرمپ زیادہ ڈھیل دینے کے حق میں نہیں رہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے ’امریکہ پہلے‘ ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ بعد میں اور سب سے آخر میں بھی وہ امریکہ کے ہی بارے میں سوچتے ہیں، اس لیے 20جنوری، 2025کو ان کے صدر امریکہ کا حلف لے لینے کے بعد بہت کچھ امریکہ میں بدلے گا اور اس کا راست یا بالواسطہ اثر دنیا محسوس کرے گی۔ ویسے جونیئربش، اوباما اور بائیڈن کی مدت صدارت میں امریکہ کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں لوگوں کا جانی نقصان ہوا، اس پر اگر ایک سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو ان لیڈروں کے مقابلے ٹرمپ امن پسند نظر آئیں گے۔ اس بار کی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ نے یہ بات کہی تھی کہ امریکہ کا صدر بن جانے کے بعد یوکرین اور غزہ جنگ ختم کرادیں گے، صدر منتخب ہوجانے کے بعد پہلے خطاب میں بھی یہی بات انہوں نے دہرائی۔ یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ بائیڈن غزہ جنگ میں لوگوں کے مرنے کا تماشہ دیکھتے رہے مگر یہ ٹرمپ کے انتباہ کا اثر ہے کہ اسرائیل اور حماس کے مابین معاہدہ ہوسکا۔ بائیڈن نے اپنی مدت صدارت کے آخری دنوں میں یوکرین کی مدد کرنے میں بڑی فراخ دلی دکھائی۔ اس سے ٹرمپ کے لیے یوکرین جنگ ختم کرانا آسان نہیں رہ گیا ہے جبکہ وہ بھلی بھانتی جانتے ہیں کہ جنگوں میں بالواسطہ الجھے رہنے سے بھی امریکہ کی اقتصادی حالت بہتر نہیں ہوگی اور اس کا فائدہ چین اور روس جیسے ممالک اٹھائیں گے۔

20جنوری، 2025سے امریکہ میں ٹرمپ راج شروع ہورہا ہے لیکن اس بار ٹرمپ کے لیے چین سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے یوروپی ممالک کمزور ہوئے ہیں، ناٹو ممالک کا اتحاد پہلے جیسا نہیں رہ گیا ہے۔ غزہ جنگ کی وجہ سے امریکہ کی ساکھ پر اثر پڑا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے عالمی برادری میں یہ میسیج گیا ہے کہ امریکہ طاقتور کا دوست ہے، اس کے لیے اہمیت جنگ کی ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے روس اور چین زیادہ قریب آگئے۔ غزہ جنگ نے مشرق وسطیٰ میں ان کے لیے مواقع پیدا کیے ہیں۔ گزشتہ 4سال میں چین اقتصادی اور دفاعی طور پر زیادہ مستحکم ہوگیا ہے۔ روس نے برکس کرنسی بنانے کی بات کہی ہے جبکہ چین گزشتہ ایک دہائی سے اپنی کرنسی یوآن کو مضبوط اور ڈالر کا متبادل بنانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ عالمی تجارت میں ڈالر کا وہ تسلط نہ رہے جو ابھی ہے۔ اس سے امریکہ کی پابندیوں کا اثر نہیں رہ جائے گا، اس کا دائرۂ اثر کم ہوگا۔ دراصل چین اب امریکہ سے دبنے کے نہیں، دبانے کے موڈ میں ہے۔ غالباً اسی لیے ٹرمپ نے ابھی چینی اشیا پر ٹیرف بڑھانے کی ہی بات کی ہے اور چین نے تین معدنیات گیلیم، جرمینیم اور انٹی منی کی امریکہ کو سپلائی پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ ان معدنیات کا سب سے بڑا سپلائر چین ہے اور ان کی امریکہ کے لیے بڑی اہمیت ہے، کیوں کہ ان معدنیات کا استعمال کمپیوٹر، دفاعی آلات اور قابل تجدید توانائی میں ہوتا ہے۔ صرف گیلیم اور جرمینیم کی سپلائی میں رکاوٹ سے ہی امریکہ کو 3ارب ڈالر کے نقصان کا امکان ہے۔ کیا ٹرمپ نے صلح صفائی کے لیے ہی شی کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی؟ بات اگر یہی ہے تو شی کی حلف برداری میں عدم شراکت بھی چین کا واضح پیغام ہے۔

فی الوقت یہی لگتا ہے کہ اقتصادی طور پر امریکہ کو مستحکم بنانا ٹرمپ کے لیے آسان نہیں ہوگا، کیوں کہ امریکہ پر قرض بہت ہے۔ وہ سب سے زیادہ جاپان اور پھر چین کا قرض دار ہے۔ چین سے اس کی بنتی نہیں اور جاپان کے بارے میں یہ بات کہی نہیں جاسکتی کہ اس کا جھکاؤ چین کی طرف نہیں ہوگا۔ امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کے لیے ٹرمپ کو کئی چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS