ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
امریکہ کے 47 ویں صدر کے طور پر دوسری بار منتخب ہونے والے ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں اب تک دنیا بھر میں ہزاروں مضامین لکھے جا چکے ہیں اور آئندہ چار برسوں میں سیاست و اقتصاد سے لے کر اخلاقیات و خارجہ پالیسی جیسے عناوین پر بے شمار تجزیاتی مقالے لکھے جاتے رہیں گے۔اکادمیوں اور کانفرنسوں میں ان کی پالیسیوں پر گھنٹوں اور مہینوں بحثیں چلیں گی اور مختلف پہلوؤں سے ان کا تجزیہ کیا جاتا رہے گا کیونکہ جس طرح 2024 میں ٹرمپ کی یہ جیت غیر معمولی ہے اسی طرح اس کے منفی اثرات بھی غیر معمولی اور دور رس ہوں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقتصادی اور عسکری طور پر امریکہ دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے اور اس کی پالیسیوں کے اثرات صرف امریکیوں پر ہی مرتب نہیں ہوتے ہیں بلکہ اکلوتا سپر پاور ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کو ان کے اچھے برے نتائج سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس معاملہ میں تیسری دنیا کے لوگوں کی حالت پہلی دنیا کے عوام سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوگی، جس طرح ٹرمپ کی جیت سے امریکہ میں غیر قانونی ڈھنگ سے رہنے والے ایک کروڑ سے زیادہ مہاجرین پریشان ہیں کیونکہ اپنے وعدہ کے مطابق ٹرمپ انہیں تمناؤں کی سر زمین امریکہ سے باہر پھینک دیں گے اسی طرح وہاں کے ترقی پسند، جمہوری قدروں پر یقین رکھنے والے، عرب و مسلمان کے علاوہ خود وہ لوگ بھی ٹرمپ کے ہاتھوں انتقام کے انتظار میں پریشان ہیں جنہوں نے کبھی ٹرمپ کے ساتھ کام کیا تھا اور اس تجربہ کی روشنی میں وہ اس نتیجہ تک پہنچے تھے کہ وہ فاشزم کا علمبردار شخص ہے۔ اس کے علاوہ یوروپ کے وہ ممالک جو ناٹو کے ممبران ہیں یا پھر چین جو کہ امریکہ کا سخت حریف ہے سب کو ٹرمپ کی جیت سے مسائل پیش آئیں گے۔
روس اور یوکرین جنگ کا مستقبل طے کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی حیثیت ڈانواڈول رہے گی، ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا کیونکہ ٹرمپ ماحولیاتی تبدیلی کے فلسفہ اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات میں یقین ہی نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن ان سب سے زیادہ مسلم اور عرب دنیا زیادہ غور سے ٹرمپ کے ہر قدم پر نظر رکھے گی، کیونکہ ٹرمپ کی وجہ سے دو باتیں ایسی ہوں گی جن کا سیدھا اثر کرۂ ارض پر بود و باش رکھنے والے اسلام کے پیروکاروں اور مسلم ممالک اورخاص طور سے مشرق وسطی پر پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلاموفوبیا کے وبا میں شدت سے اضافہ ہوگا اور بطور خاص امریکہ و مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو کئی قسم کی صعوبتوں سے گزرنا ہوگا۔
اس میں اچنبھے پن کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ پوری دنیا کے سامنے 2016 سے 2020 تک چلنے والے ٹرمپ ادارہ کا تکلیف دہ تجربہ موجود ہے۔ زیادہ سے زیادہ اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ جب پہلی بار ٹرمپ کامیاب ہوئے تھے تب یہ نتیجہ سب کے لئے چونکا دینے والا تھا کیونکہ ان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ نہ تو ان کی شخصیت کے بارے میں پورا پورا اندازہ تھا اور نہ ہی ان کے طرز فکر اور ادارہ چلانے کے اسلوب کا خاطر خواہ مطالعہ موجود تھا کیونکہ ٹرمپ روایتی سیاسی حلقہ سے نہیں آئے تھے۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ وہ تجارت اور شوبازی میں مشہور تھے۔ اس دوران ٹرمپ کے ایک قریبی نے بند کمرہ میں چلنے والے ایک کانفرنس میں بتایا تھا کہ ٹرمپ کی خوبی ہی اس کا عیب بھی ہے۔ وہ ایک مضبوط شخصیت کے مالک ہیں۔
انہیں ناراض کرنے سے گریز کرنا چاہئے ورنہ وہ آپ کو آٹویابس کے نیچے ڈال سکتے ہیں۔ ان کی یہ بات درست ثابت ہوئی۔ ٹرمپ صرف ایک انتقام پسند انسان ہی نہیں بلکہ نہایت ہی طاقت ور اور جنونی انتقام پسند امریکی صدر بن چکے ہیں اور اس لئے سنگین نتائج کیلئے سب کو تیار رہنا چاہئے۔ ہندوستان میں بھی جو عناصر اسلاموفوبیا کے مرض میں مبتلا ہیں وہ بھی ٹرمپ کی جیت میں اپنا روشن مستقبل دیکھ رہے ہیں اس لئے ہندوستانی مسلمانوں کو بھی ہر وقت محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ ان کے خلاف ہندوتو کا نشتر اب مزید تیز تر ہوتا جائے گا۔ باوجودایں کہ ٹرمپ اپنے نئے اوتار میں کچھ بدلے ہوئے سے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ ان میں پہلی بار والی حدت اور تنک مزاجی نہیں پائی جا رہی ہے یا وہ زیادہ بولنے کے بجائے اب سننے کے عادی ہوچکے ہیں اور سیاسی مسائل کے بارے میں ان کی سمجھ بہت گہری ہو گئی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی فطرت سے عمر کے 78 ویں پڑاؤ میں باز آ جائیں گے۔ بالخصوص ایسے حالات میں جبکہ وہ اس بار تمام انتخابی معرکوں کو سر کرکے اور پہلے کے مقابلہ زیادہ بھاری اکثریت سے جیت کر واپس آئے ہیں۔ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کا تجربہ بتلاتا ہے کہ اس شخص میں بڑی صلاحتیں ضرور ہیں لیکن وہ صرف منفی طریقہ سے ہی ان کے استعمال کے عادی ہیں۔ لہٰذا پہلی مدت صدارت کے مقابلہ اس بار ٹرمپ پر ایک دوسرا جنون یہ بھی سوار رہے گا کہ وہ خود کو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کیلئے ثبت کر دیں۔ یہ مقصد ہر اس امریکی صدر کا رہا ہے جو دوسری بار جیت کر وہائٹ ہاؤس پہنچے ہیں لیکن سب کامیاب نہیں ہو پائے۔ البتہ ٹرمپ تاریخ کے جس موڑ پر کھڑے ہیں اس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بس ڈر اس بات کا ہے کہ دنیا پر اپنا گہرا نقش چھوڑ نے کی سعی میں وہ اس انسانی دنیا کو ہی بڑے سنگین مسائل سے دوچار نہ کر دیں۔ کیونکہ وہ کہہ چکے ہیں کہ ان میں روئے زمین کو بچانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایسی باتیں طاقت و سطوت کے جنون میں مبتلا شخص ہی کہہ سکتا ہے۔ اگر کسی مثبت تبدیلی کا عندیہ ان کی کسی بات سے ملتا ہے تو وہ صرف اس قدر ہے کہ انہوں نے جنگوں کو روکنے کی بات کہی ہے۔اس سلسلہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کا امتحان دو محاذوں پر ہوگا۔ ایک تو یہ دیکھا جائے گا کہ وہ روس و یوکرین جنگ کے مستقبل کو طے کرنے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔
دوسرا معاملہ فلسطین و لبنان میں جاری اسرائیلی جارحیت کا ہے جہاں نسل کشی کے جرائم کا ارتکاب اسرائیل ہر روز کرتا ہے۔ روس۔ یوکرین جنگ کو روکنا قدرے آسان ہوگا کیونکہ اس میں مشرق وسطی جیسے مسائل کی پیچیدگی نہیں پائی جاتی ہے۔ مشرق وسطی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش ٹرمپ سے قبل بائیڈن، جارج ڈبلیو بوش، کلنٹن اور رونالڈ ریگن سب نے کی ہے لیکن سب کے خواب عرب کے صحراؤں میں دفن ہوگئے۔ ڈونالڈ ٹرمپ ریت کے اس سمندر کو پار کر پائیں گے یا نہیں اس کا اندازہ ان کی مدت کے آغاز میں ہی ہوجائے گا جب وہ فلسطین۔اسرائیل جنگ کی فائل کو ڈیل کرنا شروع کریں گے۔ میڈیا کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بہت پہلے سے ہی اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اپنی غیر رسمی ٹیم کو لگا رکھا ہے۔ اس کا مطلب کم سے کم 20 جنوری 2025 تک غزہ و لبنان پر اسرائیل کے مظالم کا سلسلہ جاری رہے گا اور اس کے بعد جب ٹرمپ کرسی صدارت پر متمکن ہوں گے تو دنیا کے سامنے اپنے پہلے معاہدہ امن کا اعلان کریں گے۔ گویا اگلے دو مہینے تک نیتن یاہو کو کھلی چھوٹ ہوگی کہ وہ ’حماس‘ و ’حزب اللہ‘ کے بچے کھچے لوگوں کو ختم کرے اور اس کے بعد پھر تینوں پر دباؤ بنایا جائے گا کہ وہ اپنی اپنی شرطوں میں تخفیف کریں۔ ’حماس‘کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ یرغمال شدہ اسرائیلیوں کو آزاد کرے اور غزہ کی حکمرانی فلسطینی اتھارٹی کے حوالہ کی جائے گی جس کیلئے اسرائیل کو قانع کیا جائے گا۔
لبنان میں بھی جنوبی لبنان سے ’حزب اللہ‘ کو نکال کر وہاں کی فوج کے حوالہ یہ علاقہ کیا جائے گا اور ’حزب اللہ‘ کو غیر مسلح بناکر اسرائیلی تحفظ کو یقینی بنایا جائے گاکیونکہ ٹرمپ اسرائیل کے اس مطالبہ کی تائید کرتے ہیں کہ ’حزب اللہ‘ ایک ایسی عسکری قوت باقی نہ رہے جس سے اسرائیل کو خطرہ ہو۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں ‘حماس’ اور ’جزب اللہ ‘ دونوں ہی سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ بصورت دیگر جنوبی لبنان اور غزہ میں اسرائیلی فوجیں طویل مدت تک آپریشن کرتی رہیں گی اور مسائل میں ہر روز اضافہ ہوتا رہے گا۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ہر حال میں یہ چاہے گا کہ غزہ و لبنان کا مسئلہ حل کیا جائے کیونکہ جب تک یہ قضیہ ختم نہیں ہوگا تب تک امریکہ کی شرطوں پر ایران سے معاہدہ کا دور شروع نہیں ہوگا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ چار برسوں تک مشرق وسطی مسلسل ابال کا شکار رہے گا اور اس سلسلہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کا غیر متوازن طرز فکر و عمل سب سے بڑا کردار ادا کرے گا۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)