ٹرمپ کی وہائٹ ہائوس میں واپسی اور مسئلۂ فلسطین: صبیح احمد

0

صبیح احمد

امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کئی مہینوں سے اصرار کر رہے ہیں کہ اگر وہ صدر ہوتے تو دنیا کے ساتھ سب کچھ اچھا ہوتا۔ ان کا یہ بیان درست ہے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا کیونکہ امریکہ اپنے کو درپیش چیلنجز کا سامنا کیسے کرتا ہے، اس بات کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ ٹرمپ امریکی صدر کے طور پر اپنی دوسری مدت کے لیے باضابطہ طور پر 20 جنوری کو حلف اٹھائیں گے۔ 2024 میں اپنی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ نے امیگریشن اور مہنگائی سمیت مختلف گھریلو ایشوز سے نمٹنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنی ’امریکہ فرسٹ‘ خارجہ پالیسی کی طرف واپسی کا عندیہ دیا ہے۔ عالمی محاذ پر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے 24گھنٹوں میں یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران وہ مغربی ایشیا میں جنگ کے خاتمہ کا بھی عزم دہراتے رہے ہیں۔

بہرحال ڈونالڈ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب میں اگر کسی کو حد سے زیادہ خوشی ہوئی ہوگی تو وہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو تھے۔ ٹرمپ کی پہلی مدت کار کے اختتامی دنوں میں ان کے تعلقات سرد ہونے کے باوجود خاص طور پر اس وقت جب نیتن یاہو نے جو بائیڈن کو ان کی 2020 کی جیت پر فوری طور پر مبارکباد دی تھی، دونوں رہنما گہرے نظریاتی تعلقات کا اشتراک کرتے ہیں۔ اس بار نیتن یاہو نے انتظار نہیں کیا۔ انہوں نے 5 نومبر کے نتائج کے حتمی اعلان سے پہلے ہی ٹرمپ کی ’سب سے بڑی واپسی‘ کو پرجوش انداز میں سراہا تھا۔ کورس میں شامل ہوتے ہوئے اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بڑے ہی پرجوش انداز میں ٹرمپ کی ممکنہ واپسی کو ’ایران کے زیر قیادت برائی کے محور‘ پر حملہ کرنے کے موقع کے طور پر منایا۔ نیتن یاہو کے لیے ٹرمپ کی دوسری میعاد مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر نئے سرے سے صف بندی کا موقع ہے، جس میں دونوں رہنما اسرائیل مخالف تمام عناصر کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ایک ہی نظریہ رکھتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے امن کے پیغام کو فروغ دینے کی بھر پور کوشش کی، جس میں دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمہ کی اپیل کی گئی۔ اب 7 اکتوبر کو حماس کے مہلک حملوں کے بعد غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے دوران ٹرمپ نے بالواسطہ طور پر حماس کے خلاف ’کام ختم کرنے‘ کے اسرائیل کے ارادے کی بالواسطہ توثیق کر دی ہے، حالانکہ ان کے منصوبے کی تفصیلات ابھی غیر واضح ہیں۔ نیتن یاہو کے ساتھ ان کا دیرینہ اتحاد ان کے نقطہ نظر کو متاثر کرسکتا ہے، خاص طور پر یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی دعوؤں کے حوالے سے ٹرمپ کی سابقہ حمایت کے پیش نظر۔

ٹرمپ نے غزہ میں اولوالعزم پیش رفت کے لیے اپنے خیالات ضرور پیش کیے ہیں لیکن جنگ کے بعد بحالی کے لیے کوئی واضح حکمت عملی بیان نہیں کی ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری دشمنی نے ان پیچیدگیوں میں اضافہ کیا ہے جن کا ٹرمپ کو وہائٹ ہاؤس کا چارج سنبھالنے پر سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ ان کا گزشتہ دور کچھ نظیر فراہم کرتا ہے، جیسا کہ اسرائیل-فلسطین، امریکہ-خلیج تعلقات اور ایران کے بارے میں ان کا موقف۔ ٹرمپ کا ’امریکہ فرسٹ‘ فلسفہ ان کی علاقائی حکمت عملی کو کمزور کر سکتا ہے جس سے اس کی صحیح پیش گوئی کرنا قدرے مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی دوسری مدت کار میں کس طرح کا فیصلہ کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے 2018 میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی ’انروا‘ (UNRWA) کے لیے امریکی فنڈنگ کو روکنے کا ایک مضحکہ خیز قدم اٹھایا تھا۔ حالانکہ صدر بائیڈن نے 2021 میں اس فیصلے کو جزوی طور پر تبدیل کر دیا تھا، لیکن2025 میں ٹرمپ کی وہائٹ ہاؤس میں واپسی نے UNRWA جیسے بین الاقوامی اداروں کے خلاف نئے سرے سے مخاصمت کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ بے گھر فلسطینیوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے جو صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم سمیت ضروری خدمات کے لیے ایجنسی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ غزہ ایک ایسے اسرائیلی حملے کی زد میں ہے جس نے پہلے ہی 28,000 خواتین اور بچوں سمیت 44,000 سے زیادہ جانیں لے لی ہیں، اس لیے UNRWA کا کردار اس وقت کے مقابلے کبھی اتنا زیادہ اہم نہیں رہا تھا۔ یہ ایجنسی افراتفری کے درمیان اپنی کارروائیوں کو برقرار رکھنے کے لیے لڑ رہی ہے، لیکن اس کا مستقبل تیزی سے غیر یقینی ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتہ ہی اسرائیل نے بھی UNRWA کے ساتھ اپنے تعاون کے معاہدے کو منسوخ کر کے بحران میں مزید اضافہ کر دیا ہے، جو کہ 1967 سے جاری تھا۔ اگر ٹرمپ نے دوبارہ امریکی فنڈنگ میں کٹوتی کی تو یہ ایک تباہ کن دھچکا ہو سکتا ہے جس کے بعد ایجنسی کیلئے سنبھلنا مشکل ہوجائے گا۔ فلسطینی قیادت اور عالمی برادری کو اس امکان کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

محکمہ صحت کے حکام کے مطابق غزہ میں 45,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے 2.3 ملین افراد میں سے 90 فیصد بے گھر اور بے سرو سامان ہوچکے ہیں اور زیادہ تر شہری انفرااسٹرکچر ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔ انکلیو پر اسرائیل کا جاری حملہ سب سے مہلک اور فلسطینی تاریخ میں جبری نقل مکانی کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ اگرچہ مغربی کنارہ اتنا متاثر نہیں ہے، لیکن یہاں بھی صورتحال تباہ کن ہے، جہاں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی فوج اور اسرائیلی آباد کاروں کی بے قابو دہشت گردی میں کم از کم 800 فلسطینی مارے جاچکے ہیں۔ 2 دہائیوں سے زائد عرصہ میں اس علاقے میں سب سے مہلک تشدد ہوا ہے اور فلسطینیوں کی کمزور اور بصارت سے محروم قیادت ان کو پوری طرح ناکام کر چکی ہے۔ فلسطینی تاریخ کے دیگر تباہ کن لمحات کی طرح غزہ کی یہ مسلسل تباہی فلسطینیوں کے قومی شعور پر انمٹ نقوش چھوڑے گی۔ ایک ایسی جنگ جس نے 17,000 سے زیادہ بچوں کو ہلاک کیا اور بڑے پیمانے پر بھوک اور بیماری کو جنم دیا، وہ اتنی آسانی سے فراموش نہیں کی جاسکتی۔ غزہ میں سماجی نظام کی تباہی کے ساتھ مل کر انسانی مصائب، اجتماعی صدمے اور مایوسی کے بڑھتے ہوئے احساس بالکل ایسے حالات ہیں جو نسلوں کو عدم استحکام اور تشدد کی راہ دکھا سکتے ہیں۔ مستقبل قریب میں فلسطینیوں کو ایک نئے چیلنج کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور وہ چیلنج ہے ٹرمپ انتظامیہ کی واپسی کا۔ صدر کے طور پر ٹرمپ کی پہلی مدت کار کے دوران کے ریکارڈ اور ان کے دوبارہ انتخاب سے حالات بہت حد تک واضح ہو چکے ہیں۔ خود کو ’اینٹی وار‘ (جنگ مخالف) کے طور پر پیش کرنے کے باوجود ٹرمپ نے مبینہ طور پر بائیڈن انتظامیہ کے مقابلے اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی میں کم رکاوٹیں ڈالنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ٹرمپ کی حالیہ مجوزہ تقرریاں بشمول سابق گورنر مائیک ہکابی کی اسرائیل میں سفیر کے طور پر اور فاکس نیوز کی سابق عہدیدار پیٹ ہیگستھ کی بطور وزیر دفاع تقرری، نہ صرف ایک ’عظیم تر اسرائیل‘ پر یقین کی جانب اشارہ کرتی ہیں بلکہ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی مخالفت کرتی نظر آتی ہیں۔ ٹرمپ کے حلقے میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو امریکہ بھر میں فلسطینیوں کے حق میں جاری سرگرمیوں کو روکنے کیلئے پرعزم ہیں۔

یہ سب تلخ حقیقتیں ہیں، جن کے طویل مدتی نتائج کسی کو بھی پتہ نہیں ہیں۔ لیکن فلسطینیوں کے حق میں طاقتور قوتیں بھی کام کر رہی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی بین الاقوامی یکجہتی کی تحریک، بین الاقوامی برادری کے ذریعہ اسرائیل کے احتساب کا تاریخی امکان اور فلسطینیوں کی صلاحیت اور لچک کے وسیع ذخائر اس عزم کو برقرار رکھتے ہیں کہ موجودہ بحران کی شدت کے باوجود آگے ایک بہتر مستقبل منتظر ہے۔ یہ ایک موقع ہے، ایک مختلف مستقبل کا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS