اسعد بدایونی کا اصل نام اسعد احمد تھا۔ وہ 25 فروری 1958 کو یوپی کے معروف شہر بدایوں کے قصبہ سہسوان میں پیدا ہوۓ۔ ان کے والد کا نام حاجی محمد تھا اور ان کے دادا کا نام حاجی عبدلرزاق تھا۔ ان کے دادا کی بدایوں کے بڑے بازار میں جوتوں کی مشہور دوکان تھی۔ اسعد بدایونی کی ابتدائ تعلیم بدایوں میں حاصل کی۔ ہائی اسکول حافظ صدیق اسلامیہ انٹر کالج سے کیا، اس کے بعد بی اے اور ایم اے کی ڈگری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1980ء میں حاصل کی۔ یہیں سے انہوں نے پی یچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے متعلق رہے۔
اسعد بدایونی کے چار شعری مجموعے اور ایک کلیات شائع ہو چکی ہے، جس میں ’’دھوپ کی سرحد‘‘(1977)’’خیمۂ
خواب‘‘(1986)،’’جیون کنارا‘‘(1992) اور “نئی پرانی غزلیں”(1997) شامل ہیں۔ “نئی پرانی غزلیں” نامی
کتاب دیونا گری رسملخط میں بھی شعیہ شائع ہو چکی ہے۔ نثر میں بھی ان کی تین کتابیں شائع ہوئیں، یعنی’’نئی غزل، نئی
آوازیں‘‘(1987)’’کاروان رفتہ‘‘(1991) اوربیخود بدایونی۔ حیات اور ادبی خدمات‘‘(1995) بھی شامل
ہیں۔ آخری کتاب ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ ان کے آخری مجموعۂ کلام ’’وارئے شعر‘‘ہے
جس کو وہ مرتب کرچکے تھے، مگر اشاعت کی نوبت نہ آسکی۔
5 مارچ 2003ء کو علی گڑھ میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کا
زنازہ کو بدایوں میں ان کے آبائی قبرستان میں لایا گیا جہاں ان کے والد کے سرہانے دفن کیا گیا۔
سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں
عجیب لوگ ہیں دیوانے ہونا چاہتے ہیں
نہ جانے کس لیے خوشیوں سے بھر چکے ہیں دل
مکان اب یہ عزا خانے ہونا چاہتے ہیں
وہ بستیاں کہ جہاں پھول ہیں دریچوں میں
اسی نواح میں ویرانے ہونا چاہتے ہیں
تکلفات کی نظموں کا سلسلہ ہے سوا
تعلقات اب افسانے ہونا چاہتے ہیں
جنوں کا زعم بھی رکھتے ہیں اپنے ذہن میں ہم
پڑے جو وقت تو فرزانے ہونا چاہتے ہیں