ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنی غیر متوازن شخصیت اور ناقابل عمل افکار کو پیش کرنے کے لئے معروف ہیں۔ یہ واحد ایسے امریکی صدر ہیں جو کسی بھی معاملہ پر پہلے بولتے ہیں اور اس کے بعد اپنے بیانات کے نتائج پر غور کرتے ہیں۔ جب انہیں سمجھ میں آتا ہے کہ وہ صرف عقارات کے تاجر ہی نہیں بلکہ واحد سپر پاور ملک کے طاقت ور ترین صدر بھی ہیں تب وہ اپنی ہی باتوں اور بیانات سے ایک ایک کرکے پیچھے ہٹنے لگتے ہیں لیکن تب تک وہ اپنی شخصیت اور منصب دونوں کے وقار کو بری طرح مجروح کر چکے ہوتے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ رویہ ان کے عہد ثانی کے آغاز کے اول دن سے ہی قائم ہے۔ انہوں نے اب تک پوری دنیا میں جو اتھل پتھل مچا یا ہے اس کی کوئی معقولیت نظر نہیں آتی۔ کبھی وہ ماحولیات کی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدہ سے باہر نکل جانے کا اعلان کرتے ہیں تو کبھی اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کاؤنسل کو خیرباد کہتے ہیں اور ساتھ ہی اعلان کردیتے ہیں کہ فلسطینیوں کی انسانی ضرورتوں کی دیکھ ریکھ کرنے والی اقوام متحدہ کی تنظیم اونروا کی فنڈنگ روک رہے ہیں اور مستقبل میں کبھی بھی اس کو فنڈ فراہم نہ کرنے کا اپنا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ اپنے پڑوسی ممالک کناڈا اور میکسیکو کو دھمکی دیتے ہیں اور امریکہ میں داخل ہونے والے ان کے سامان تجارت پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کرکے کشمکش کا ماحول قائم کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد فوراً ہی ان ممالک کے لیڈران سے فون پر بات چیت کرکے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان فیصلوں پر عمل در آمد کو کچھ مدت کے لئے ٹالنا مناسب رہے گا۔ یہی حال غیر قانونی ڈھنگ سے امریکہ میں داخل ہونے والے مہاجرین کے معاملہ پر بھی نظر آتا ہے۔ غیر قانونی طریقہ سے امریکہ میں موجود ان مہاجرین کو جب واپس ان کے ملکوں میں بھیجنے کی بات آتی ہے تو اس مسئلہ پر بھی ان کا رویہ اور پالیسی دونوں ہی غیر انسانی ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی خارجہ پالیسی کی سطح پر بہت حد تک ناقابل عمل اور غیر قانونی ثابت ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میکسیکو، کولمبیا اور اکواڈور جیسے ممالک نے ٹرمپ کے اس قدم کی سخت مذمت کی کہ ان کے شہریوں کو امریکہ کی ملٹری جہازوں میں زنجیروں سے جکڑی ہوئی حالت میں واپس بھیجا جائے۔ اس احتجاج کا اثر بھی ہوا اور کولمبیا نے اپنے شہریوں کو امریکی ملٹری جہاز میں پا بہ زنجیر حالت میں قبول کرنے سے منع کر دیا اور اس کے بجائے اپنے خاص جہازوں میں انہیں منگوایا اور اپنے شہریوں کا وقار محفوظ رکھا۔ اس کے علاوہ کولمبیا کے صدر کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ اچھی زندگی کی تلاش میں ہجرت کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ کولمبیا ہی کی طرح میکسیکو نے بھی امریکہ کے اس ملٹری جہاز کو جو اس کے شہریوں کو لے کر آ رہا تھا اپنی زمین پر اترنے نہیں دیا کیونکہ یہ اس کی سیادت کے لئے توہین کی بات تھی۔ کاش کہ ہندوستان کی سرکار بھی اپنے شہریوں کے حقوق اور وقار کی حفاظت کے لئے ایسا ہی کچھ کرتی تو زنجیروں میں باندھ کر غیر انسانی ڈھنگ سے ہندوستانیوں کو امریکی ملٹری جہاز میں نہیں بھیجا جاتا۔
اوپر کی سطروں میں ڈونالڈ ٹرمپ کے غیر متوازن فکر کے حامل صدر ہونے کی صرف چند جھلکیاں ہیں۔ اگر ٹرمپ کے ان تمام صدارتی فرمانوں کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے جو انہوں نے اب تک بطور امریکی صدر جاری کئے ہیں تو صاف اندازہ ہوجائے گا کہ وہ اپنے ملک کی طاقت کا صرف غیر ذمہ دارانہ ڈھنگ سے استعمال کرنا جانتے ہیں۔ انہیں ان قانونی اداروں اور اصولوں کی کوئی فکر قطعا نہیں ہے جن کو بنانے میں خود امریکہ کا بڑا کردار رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد کی جو دنیا تیار ہوئی اس کے کل پرزوں کو تیار کرنے اور عالمی نظام کو نئی شکل عطا کرنے میں امریکہ کا رول بنیادی اور اہم رہا ہے۔
لیکن ٹرمپ جنہیں اپنی عظمت کا آوارہ خواب ہر روز اتنا پریشان رکھتا ہے کہ وہ اس عالمی نقشہ سے خوش نہیں ہیں جو انہیں تاریخی طور پر ورثہ میں ملا ہے۔ اس لئے وہ اس نقشہ کو ہی بدل دینا چاہتے ہیں جو ان کے من کے موافق نہیں ہے۔ لیکن ان کی دقت یہ ہے کہ وہ کاغذ پر بنے ہوئے نقشہ اور حقیقت کی زمین پر موجود تلخ سچائیوں کے درمیان فرق کرنا نہیں جانتے۔ وہ زندگی بھر عقارات کے بڑے تاجر رہے ہیں اور اسی لئے صرف ہوٹلوں، ریستورانوں اور تفریح گاہوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں جہاں لوگ اپنی تھکی ہوئی زندگیوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے وقتی طور پر آتے ہیں اور پھر اپنی تھکان کو ہلکا کرکے چلے جاتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطین کی زمین کو بھی تقریباً اسی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں امریکی قوت کے زور پر انسانی بستیوں کو بہت آسانی سے اجاڑا جا سکتا ہے اور تاریخ کو چشم زدن میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے وزیر اعظم اور غزہ میں جنگی جرائم کے مبینہ مجرم نتن یاہو کے دورہ امریکہ کے موقع پر ان کی موجودگی میں یہ اعلان کر دیا کہ وہ غزہ پر قابض ہوکر اس کو ایک خوبصورت سیاحت گاہ میں تبدیل کر دیں گے اور وہاں کے لوگوں کو نکال کر یا تو مصر و اردن میں بسائیں گے یا پھر دیگر پڑوسی ملکوں میں ان کو ڈال دیں گے۔
ٹرمپ کی نظر میں فلسطین کے غیور عوام کی حیثیت گویا کسی بے جان سامان کی مانند ہے جس کو ان کی مرضی کے خلاف وہ جہاں چاہیں منتقل کر دیں۔ گویا وہ ٹرمپ کی ملکیت والی زمین پر موجود کوئی خس و خاشاک ہوں جن کو صاف کرکے زمین کو ہموار کیا جانا ضروری ہو تاکہ اس کی جگہ ایک ایسی خوبصورت تفریح گاہ تیار کیا جائے جہاں دنیا بھر کے ارباب ثروت جمع ہوکر داد عیش دیں۔ ٹرمپ نے شاید اہل فلسطین کو ایک لقمہ تر سمجھ لیا ہے جس کو آ سانی سے نگلا جا سکتا ہے۔ یا ان کے کسی صہیونی مشیر نے یہ مشورہ دے دیا ہے کہ فلسطینیوں کو ڈرا دھمکا کر یا ان کا قتل عام کرکے آج بھی ان کی زمینوں سے اسی طرح ان کو نکالا جا سکتا ہے جس طرح صہیونی مجرموں نے 1948 میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے نکالا کر ان پر صہیونی ریاست اسرائیل کو قائم کیا تھا۔ اس قتل عام کے نتیجہ میں تقریباً7 لاکھ فلسطینی 1948 میں بے گھر بنائے گئے تھے اور انہیں لبنان، اردن اور مصر و شام جیسے پڑوسی ممالک میں پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا تھا جہاں سے وہ آج تک لوٹ کر اپنے گھروں اور کھیت کھلیانوں میں نہیں آ سکے ہیں۔ لیکن وہ اس امید میں آج بھی ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔
یہ واقعہ فلسطین کی تاریخ میں نکبہ کے نام سے مشہور ہے۔ نکبہ عربی کا ایسا لفظ ہے جس میں حرمان و تباہی کے تمام پہلو شامل ہیں۔ فلسطینیوں کو آج بھی افسوس ہے کہ انہوں نے ناتجربہ کاری کی بنا پر ایسا قدم کیوں اٹھایا کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ بیٹھے۔ ان میں یہ احساس شدید طور پر پایا جاتا ہے کہ وہ آئندہ ایسی کسی غلطی کا ارتکاب نہیں کریں گے جس کی پاداش میں انہیں ان کی زمین و ثقافت اور شاندار تاریخ سے محروم ہونا پڑے۔ وہ اس بات کو تو قبول کریں گے کہ وہ اپنی ہی زمین پر شہید ہوکر وہیں دفن ہوجائیں لیکن یہ ہرگز انہیں قبول نہیں ہوگا کہ وہ دوبارہ اپنی زمینوں اور گھر بار کو کسی بھی حالت میں چھوڑ کر نقل مکانی کر جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نکبہ اولی کی تلخ یادوں کو آج بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور اپنے ان گھروں کی کنجیوں کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں جن کو چھوڑنے پر وہ 1948 میں مجبور ہوئے تھے۔
اگر ٹرمپ نے اپنے مشیروں کی فہرست میں مشرق وسطی اور بطور خاص فلسطین کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے کسی سنجیدہ مورخ کو جگہ دی ہوتی تو وہ ان کو سمجھاتا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال باہر کرنے کا خواب چھوڑ دیں ورنہ نتیجہ یہ نکلے گا کہ جس امریکہ کی عظمت کی بحالی کا سپنا وہ اپنے من میں لے کر دوبارہ کرسیٔ صدارت پر بیٹھے ہیں کہیں اس کی قوت کے زوال کا ہی نقطہ آغاز غزہ کے تئیں امریکی پالیسی نہ ثابت ہوجائے۔ ٹرمپ نے غالباً کبھی اس پہلو پر غور ہی نہیں کیا کہ جو قوم گزشتہ تقریباً ایک صدی سے اپنے حقوق کی بازیابی اور اپنی زمین کی آزادی کے لئے مسلسل کوشاں ہے اور کبھی ایک دن کے لئے بھی اس کے قوت و عزم میں اضمحلال پیدا نہیں ہوا وہ بھلا آج اپنی زمینوں سے کیسے دستبردار ہوجائے گی؟ یہ معاملہ اس بات کا ہے ہی نہیں کہ مصر و اردن فلسطینیوں کو اپنی زمینوں میں بسانے کیلئے راضی ہوں گے یا نہیں۔
اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا فلسطینی کبھی اس کو ایک لمحہ کیلئے بھی گوارہ کریں گے کہ ان کی زمین، ان کی ہزاروں سال پرانی تاریخ، ان کی ثقافت اور دین و مذہب کی علامتوں سے انہیں محروم کر دیا جائے؟ ٹرمپ غالباً یہ بھی سمجھ نہیں پائے کہ فلسطینی قوم ایک غیور و بہادر قوم ہے جو اپنے حق سے کسی صورت دست برداری قبول نہیں کرے گی۔ انہیں اس نقطہ پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ابھی غزہ جنگ کا تازہ واقعہ ہے کہ اس موقع پر دس لاکھ سے زیادہ یہودی ارض موعود اسرائیل کو چھوڑ کر اس لیے بھاگ گئے کیونکہ انہیں سکون کی وہ زندگی میسر نہیں آئی جس کا تصور کرکے وہ اسرائیل آ ئے تھے۔ اس کے برعکس فلسطینیوں نے اپنی زمین کو نہ صرف یہ کہ چھوڑنا گوارہ نہیں کیا بلکہ اس کے دفاع کے لئے مغربی ملکوں سے واپس لوٹ آئے۔ اگر ٹرمپ اس ضد پر آ بھی جائیں کہ ہر حال میں فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے نکالا دیا جائے تو اس کا پورا امکان ہے کہ امریکی قوت کا سورج بھی غزہ کے دلدل میں ہمیشہ کیلئے ڈوب جائے گا، کیونکہ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے نکالنے کیلئے ٹرمپ کو نکبہ ثانیہ جیسے جرائم کا مرتکب ہونا پڑے گا۔
ظاہر ہے کہ اپنی تمام تر استعماری قوتوں کے باوجود امریکہ یہ ہرگز نہیں کر سکتا۔ عبرت کے لئے ضروری ہے کہ ٹرمپ غزہ کو تفریح گاہ میں تبدیل کرنے سے قبل ویتنام میں امریکی شکست کی تاریخ کا مطالعہ دوبارہ سے کرلیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ویتنام میں جب جنگ بندی کا آخری دن آیا تو ایک امریکی افسر کی بات چیت اس کے اپنے ویتنامی ہم منصب سے ہو رہی تھی۔ امریکی افسر نے ویتنامی افسر سے کہا کہ ہم کسی بھی معرکہ میں تم سے شکست نہیں کھا سکتے۔ ویتنامی افسر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ جو تم کہہ رہے ہو وہ بات سچ ہو لیکن تم اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کر سکتے کہ جب کل کا سورج نکلے گا تو تمہیں ہماری زمین سے نکلنا ہوگا جبکہ یہاں باقی صرف ہم ہوں گے۔ امریکیوں اور صہیونیوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ارض فلسطین سے ان کو ہی نکلنا ہوگا کیونکہ وہ اصحاب ارض نہیں ہیں۔ فلسطین کی زمین فلسطینیوں کی ہی رہے گی۔ باقی سب کچھ صرف صحرائے عرب پر کھنچی ہوئی بس لکیریں ہیں جن کا اس وقت مٹ جانا ہی مقدر ہوگا جب ہوائیں فلسطین کے حق میں چلنی شروع ہوں گی۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)