کیا یونیفارم سول کوڈ تمام شہریوں کیلئے یکساں قانونی نظام فراہم کرتا ہے؟ : پروفیسر ایم جے وارثی

0

پروفیسر ایم جے وارثی

ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 25 کی رو سے ’’تمام شہری ضمیر کی آزادی اور آزادی کے ساتھ مذہب کا اعلان کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے یکساں طور سے حق دار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آرٹیکل میں کوئی بھی چیز کسی بھی موجودہ قانون کی عمل درآمدگی کو متاثر نہیں کرے گی اور نہ ہی ریاست کو کسی بھی معاشی، مالیاتی، سیاسی یا دیگر سیکولر سرگرمیوں (جو مذہبی عمل سے متعلق ہو سکتی ہیں) کو منظم کرنے یا اسے محدود کرنے سے متعلق کوئی قانون بنانے سے روکے گی‘‘۔
مزید یہ کہ’’ امن عامہ، اخلاقیات اور صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے، ہر مذہبی فرقہ یا اس کے کسی طبقے کو یہ حق حاصل ہو گا کہ (الف) مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرے اور اس کو برقرار رکھے، (ب) اور اپنے مذہب سے متعلق معاملات کو خود منظم کرے‘‘۔
اس طرح دیکھا جائے تو ہندوستان کے آئین نے ملک کے سبھی مذہبی طبقوں کو، خواہ وہ اقلیت ہوں یا نہ ہوں، حکومت کی مداخلت کے بغیر اپنے مذہب پر عمل درآمد کی آزادی دی ہے۔ جب 1949میں ہندوستان میں آئین سازی کا عمل جاری تھا ، اس وقت آئین سازوں کے لیے مذہبی بنیادوں پر پرسنل لا کے نفاذ کا معاملہ سب سے زیادہ فکر کا موضوع تھا۔ مذکورہ بالا آرٹیکل کے ذیل میں ہی آگے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ہندوستانی ریاست پورے ملک کے شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ وضع کرنے کی کوشش کرے گی‘‘۔ یکساں سول کوڈ کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں تمام شہریوں کے لیے شادی، طلاق اور پرسنل لا کے دیگر معاملات کو منظم کرنے کے لیے ایک مشترکہ قانون ہونا چاہئے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے متعلق کیوں نہ ہوں۔
آئین میں آرٹیکل 44 کی شمولیت کو حکومت میں شامل کچھ افراد ہندوستانی معاشرے کو ’متحد‘ کرنے کی خدمت کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن مسلمان اسے ملک کے سب سے بڑے اقلیتی گروہ کی ثقافتی شناخت کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں، جو ان کو پسماندگی کے گہرے غار میں ڈھکیل سکتا ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو پرسنل لاء کا مسئلہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے تعلق سے سیاسی طور پر سب سے زیادہ نزاعی مسئلہ بن گیا ہے، جس سے مذہب اور ثقافت سے متعلق دیگر مسائل کو بھی مزید شہ ملے گی۔ خاص طور سے مسلمانوں کے قانونی نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ یا دیگر پرسنل لاز کے ساتھ اس کو بھی نشانہ بنانے سے ہندوستانی قوم کو متحد کرنے کے مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہندوستان کی مختلف برادریوں کو متحد کرنے کے نام پر پرسنل لا کے مسئلے کوغیر مناسب طور سے اہمیت دی جا رہی ہے۔ یکساں سول کوڈ پر جتنی بھی سیاست ہو رہی ہو، لیکن اس کا نفاذدرحقیقت مسلم کمیونٹی میں عدم اعتماد پیدا کرے گا جیسا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے وجود میں آنے سے ظاہر ہے جس کا وجود اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے قوانین میں کوئی مداخلت نہ کی جائے۔ یہاں ہم مسلم پرسنل لا سے متعلق کچھ اہم مسائل کا جائزہ لیں گے، جس کی ابتدا آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے فروغ کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کریں گے۔
یہ ادارہ جو ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لیے دسمبر 1972 میں مسلم مذہبی رہنماؤں کے کنونشن میں قائم کیا گیا، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی تشکیل کا بنیادی مقصدمسلمانوں میں سماجی اصلاح کو فروغ دینے کے ساتھ قانون سازی یا کسی دوسرے طریقے سے مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کی کسی بھی کوشش کو چیلنج کرنا تھا ۔ موجودہ وقت میں اس کے 151 اراکین ہیں، جن میں زیادہ تر مذہبی رہنما شامل ہیں جنہیں ہندوستان میں مختلف مسلم فرقوں اور خطوں کے نمائندوں کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ اس کی آخری بڑی کانفرنس میں، جو گزشتہ سال 16 جون کو جامعہ اسلامیہ دارالعلوم، شیورامپلی میں منعقد ہوئی تھی، مزید 150 کارکنوں، وکلا، اور سماجی خدمتگاروں کو ہندوستان میں مسلم کمیونٹی سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بورڈ کی مرکزی تشکیل میں شامل کیا گیا۔ بورڈ میں 15 خواتین نمائندے بھی شامل ہیں۔
اے آئی ایم پی ایل بی کا انتخاب اس کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے متفقہ طور پر 1972 میں ہوا تھا جب دنیا کے سب سے بڑے مسلم مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے ریکٹر، مولانا قاری طیب کو اس کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ 1983 میں ان کے انتقال کے بعد مولانا ابوالحسن علی ندوی کو اتفاق رائے سے اس کا سربراہ منتخب کیا گیااور وہ 25 دسمبر 1999 کو اپنی وفات تک اس عہدے پر فائز رہے۔
سید ابوالحسن علی ندوی کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اور سب سے زیادہ تسلیم کیے جانے والے علماء میں ہوتا تھا۔ انہیں مسلمانوں کے مختلف طبقوں، فرقوں اور خاص طور پر وہ جو سنّی نہیں تھے، کے درمیان پل بنانا تھا۔ اتفاق سے بورڈ کے 80 فیصد سے زیادہ لوگ روایتی طور پر حنفی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت بورڈ کے نائب سربراہ ایک ممتاز شیعہ عالم مولانا کلب صادق ہیں، اور بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی میں مسلم گروپوں کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی ہے۔ مولانا ندوی کے بعد ایک ممتاز عالم مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کا اپریل 2000 میں انتخاب کیا گیا۔ اپنی اعلیٰ علمی صلاحیتوں اور وسیع عوامی احترام کے باوجود مولانا قاسمی اپنی خراب صحت کی وجہ سے موثر قیادت پیش نہ کر سکے۔ ندوۃ العلوم کے مولانا رابع ندوی ان کے جانشین ہوئے۔ ممتاز اسلامی اسکالر اور مفکرین میں سے ایک مولانا ولی رحمانی نے بھی مسلم پرسنل لا بورڈ کی سرگرمیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس طرح اے آئی ایم پی ایل بی کے نئے سربراہ نے اس وقت عہدہ سنبھالا جب ایسا لگتا ہے کہ مسلم کمیونٹی آزادی کے بعد اپنے انتہائی نازک دور کا سامنا کر رہی ہے۔ مسلم کمیونٹی ابھی گجرات کے قتل و غارت گری سے بھی نہیں ابھری تھی کہ اسے کھلی اور ڈھکی چھپی دھمکیاں دی جانے لگیں کہ ”گجرات” کو پورے ملک میں دہرایا جائے گا، مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں، یہاں تک کہ انہیں دوسرے درجے کے شہریوں میں تبدیل کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ ایسے میں اے آئی ایم پی ایل بی نے شریعت میں مداخلت یا متوازی قانون سازی کے ذریعے ظاہری اور خفیہ کوششوں کا مقابلہ کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
بورڈ کا پہلا بڑا امتحان 1973 میں اس کے قیام کے ٹھیک ایک سال بعد سامنے آیا، جب سول پروسیجر کوڈ (Civil Procedure Code)کے نفاذ کے لیے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا گیا۔ اس بل میں طلاق یافتہ خواتین کو اس کے سابقہ شوہر کی طرف سے تاحیات یا اس کی دوبارہ شادی ہونے تک کفالت دینے کی تجویز تھی۔ بورڈ کے ارکان نے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملاقات کی اور انہیں اس قانون اور شریعت کی دفعات کے درمیان فرق اور تفاوت کے بارے میں بتایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس بل کی حتمی پیش کش ملتوی کر دی گئی اور آخرکار اسے کچھ ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔پروسیجر کوڈ میں سیکشن 127 میں ایک آئٹم کا اضافہ کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اگر طلاق دینے والے شوہر نے ضروری شرعی واجبات ادا کر دیے ہیں یا اگر بیوی نے ان واجبات (مہر) کو معاف کر دیا ہے، تو پرانے بل کے تحت حاصل ہونے والا حکم نامہ کالعدم تصور کیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کو اس قانون کی گرفت سے مبریٰ قرار دے دیا گیا۔
اس کے بعد بورڈ کے لیے حقیقی چیلنج 1986 میں شاہ بانو کیس کی شکل میں سامنے آیا۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے محمد احمد خان بمقابلہ شاہ بانو مقدمے میں سابقہ شوہر کو اپنی طلاق یافتہ بیوی کو تاحیات یا اس کی دوبارہ شادی تک نان نفقہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ جس چیز نے بورڈ کے مذہبی اسکالرز کے علاوہ عام مسلمانوں میں بھی اشتعال پیدا کر دیا، وہ عدالت کے ذریعہ من مانی طریقے سے قرآن کی تشریح اور حکومت کو یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی سفارش تھی۔ چیف جسٹس وی این کھرے، جسٹس ایس بی سنہا اور جسٹس آر لکشمنن پر مشتمل عدالت عظمیٰ کی بنچ کے سامنے عدلیہ کی طرف سے یو سی سی کے لیے یہ مطالبات دوبارہ سامنے آئے۔ یہ ہندوستانی جانشینی ایکٹ، 1925 کی ایک شق (سیکشن 118) کو ختم کرنے کی صورت میں ایک اور معاملے میں بھی سامنے آیا، جو مذہبی یا خیراتی استعمال کے لیے جائیداد کی وصیت کرنے کے حق پر پابندیاں لگا کر عیسائیوں کے خلاف امتیازی سلوک کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ پرسنل لاء بورڈ(اے آئی ایم پی ایل بی) نے شاہ بانو کے معاملے کو بڑے پیمانے پر اٹھایا اور ملک میں ایک تحریک شروع کی۔ یہ وہ وقت تھا جب بورڈ صحیح معنوں میں ہندوستان میں مسلمانوں اور ان کے مسائل کی نمائندگی کرنے والی ایک اعلیٰ تنظیم کے طور پر نظر آ رہا تھا۔ مولانا ندوی کی سربراہی میں بورڈ کے ایک وفد نے 1985 میں فیصلے کے فوراً بعد وزیر اعظم راجیو گاندھی سے ملاقات کی۔ 1986 میں بورڈ کے اراکین نے راجیو گاندھی سے پے درپے تین بار ملاقات کی اور انہیں مسلم علماء کے موقف کے بارے میں قائل کرنے کی کوشش کی۔ آخر کار، حکومت نے 6 مئی 1986 کو حقوق نسواں ایکٹ پاس کیا، جس نے عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور نان نفقہ سے متعلق اسلامی قانون کو بحال کر دیا۔
ایک اہم اور حالیہ مسئلہ جسے بورڈ نے اٹھایا ہے وہ اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ کا مسئلہ ہے۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے اس نے اس معاملے کو ہر سطح پر اٹھانے کی ذمہ داری قبول کی اور سیاسی و قانونی دونوں شعبوں میں اس کیس کی پیروی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اجودھیا مسئلہ، جو گذشتہ چند مہینوں میں دوبارہ سامنے آیا ہے، بورڈ کے لیے ابھی بھی ایک اہم ایجنڈا آئٹم ہے اور بی جے پی، آر ایس ایس اور ہندوستانی حکومت سمیت اس میں شامل تمام جماعتیں اس سلسلے میں بنیادی طور پر صرف اور صرف اے آئی ایم پی ایل بی کے ساتھ گفت و شنید کر رہی ہیں۔ اس طرح یہ بورڈ ہندوستان میں مسلمانوں کا اہم نمائندہ ادارہ ہے اور ہندوستانی حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتیں بھی بورڈ کو قومی سیاست میں ایک اہم فریق کے طور پر دیکھتی آئی ہیں۔ یہ بات اس حقیقت کے پیش نظر اطمینان بخش ہے کہ بورڈ پوری طرح سے خود مختار رہا ہے۔ اس طرح یہ ادارہ سماجی، سیاسی اور مذہبی میدانوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے جس کی جڑیں مسلم پرسنل لا کے تحفظ پر استوار ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، پرسنل لا کو دیگر گروہوں اور اداروں، زیادہ تر غیر مسلموں کے ذریعہ تنقید کاہدف بنایا جاتا رہا ہے اور بہت لوگ، بالخصوص جج حضرات ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ ہندو، مسلم، عیسائی، سکھ، پارسی سمیت مختلف کمیونٹیز کا نظم کرنے والے تمام پرسنل لاز کو ختم کر کے ایک مشترکہ سول کوڈ بنایا جائے جسے یکساں طور پر نافذ کیا جائے۔ یو سی سی کے حق میں کئی دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں چند اہم مسائل پر نظر ڈالنا اس بات کو سمجھنے میں معاون ہوگا کہ یونیفارم سوِل کوڈ مختلف کمیونٹیز اور معاشرتوں کے مسائل کے درمیان فرق نہیں کرے گا جو اس وقت نسلی گروہوں کو درپیش ہیں۔
اول یہ کہ اشرافیہ کے درمیان ایک بڑا سیکولر طبقہ اس کے حق میں ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پرسنل قوانین کا خاتمہ ہندوستان کی اقتصادی اور سیاسی ترقی کے لیے ضروری ہے جیسا کہ دستور ساز اسمبلی میں بحث کے دوران یکساں سول کوڈ کے تصور کے کٹر حامی، کے ایم منشی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ”مذہب کو لازمی طور پر ان معاملات تک محدود رکھا جائے جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور باقی معاملات کو اس طرح مشترک اور تبدیل کیا جائے کہ ہم جلد از جلد ایک مضبوط اور مستحکم قوم بن سکیں۔ ہمارا پہلا مسئلہ اور سب سے اہم مسئلہ اس ملک میں قومی اتحاد پیدا کرنا ہے”۔
ایک حقیقی ہندوستان کے فروغ کے لیے یو سی سی کے اس تصور کو زمینی سطح پر اسی طرح واضح کیا گیا ہے گویا مسلمانوں کو صحیح معنوں میں ہندوستانی سماج کے مرکزی دھارے میں ضم کرنے کا یہی واحد طریقہ ہوسکتا ہے۔ یکساں سول کوڈ کے حامیوں کے درمیان ایک اور اہم مفروضہ یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کے تحت مسلم خواتین کے ساتھ ظلم اور امتیاز برتا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ صرف پرسنل لا کے وجود پر حملہ نہیں ہے، بلکہ خاص طور پر مسلم پرسنل لاز پر حملہ ہے۔ تعداد ازدواج اور طلاق کے بعد نان ونفقہ جیسے مسائل بحث کے متنازع فیہ موضوع بن چکے ہیں۔
اس مقالے کا مقصد مسلم پرسنل لا کے اندر موجود نقائص اور ان سے پیدا شدہ مسائل پر بحث کرنا نہیں ہے، بلکہ اس قانون کے وجود کے بڑے سیاسی اور سماجی مضمرات کو پرکھنا ہے۔ اس کے باوجود یو سی سی کے حامیوں کی دلیل ہے کہ مسلم خواتین کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو بنیادی طور پر مسلم پرسنل لاز کی وجہ سے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا استدلال ہے کہ اسلامی قانون میں تعداد ازدواج اور تین طلاق کی شقیں خواتین کے ساتھ واضح طور پر امتیازی سلوک کو راستہ دیتی ہیں۔ ان مسائل نے یو سی سی کے حامی کیمپ کو کافی حوصلہ بخشا ہے کہ یہ عورت کے بنیادی اور انسانی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی کی بنیادیں ہیں۔ اس طرح یو سی سی انڈیا کے حق میں دیے جانے والے دلائل سیاسی اور قوم پرستوں کے ایجنڈے میں ضم ہو گئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے اس مسئلے پر جھکنے سے انکار کی ایک بڑی وجہ ہے۔ بی جے پی جو اپنی پالیسیوں اور بیانات میں کھلم کھلا مسلم مخالف رہی ہے، اس نے یو سی سی کے نفاذ کو ایک اہم مقصد بنالیا ہے۔ مسلمان جو پہلے ہی ہندوستان میں اپنے وجود اور اپنی سلامتی کو لے کر شبہات کا شکار ہیں، ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اصلاح کے مطالبات کا مثبت جواب دیں گے جب وہ ایسی جماعتوں کی جانب سے پیش کیے جارہے ہوں۔
اب ہم ان وجوہات پر غور کریں گے کہ کیوں مسلم پرسنل لا کا خاتمہ اس کے حامیوں کے مجوزہ مقاصد کو پورا نہیں کرے گا۔ سب سے پہلے ایک تاریخی نقطہ نظر سے یہ سمجھنا ہوگا کہ مسلم پرسنل لا کا خاتمہ آسان نہیں ہوگا، یا ہندوستان میں مسلمانوں کے اتحاد کے مقصد کو آگے بڑھانا بھی آسان نہیں ہوگا، کیوں کہ ہندوستان میں مسلمان 1949 میں ہندوستانی آئین کا مسودہ تیار ہونے سے بہت پہلے سے اپنے پرسنل لاز سے نظم ہو رہے ہیں۔ شادی، طلاق، مہر، نان و نفقہ، جانشینی، وراثت، وصیت، میراث، گود لینے اور سرپرستی سے متعلق مسلم عائلی قوانین 13ویں صدی کے بعد سے شروع ہونے والے جنوبی ایشیا میں اسلامی حکومت کے بعد سے موجود تھے۔ یہ قوانین برطانوی حکومت میں اور خاص طور سے 20ویں صدی کی پہلی تین دہائیوں میںبھی اسی طرح جاری و ساری رہے۔ مسلم پرسنل لا اور اس پر آئینی تحفظات کے اطلاق سے متعلق تشویش آزادی کی جدوجہد کے دوران بار بار ظاہر ہوئی۔ گاندھی اور نہرو سمیت انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈروں نے اس معاملے پر مسلم کمیونٹی کو بار بار یقین دہانیاں کروائیں۔
مسلمان جدید ہندوستانی قوم کا اٹوٹ حصہ رہے ہیں۔ درحقیقت 1939 سے 1946 تک انڈین نیشنل کانگریس کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد تھے، جو سب سے زیادہ شہرت کے حامل مسلم مذہبی اسکالر تھے۔ بہت سے دوسرے مسلم کارکنان اور سماجی مفکرین، مثلاً محمد اسماعیل اور مولانا حسین احمد مدنی بھی اس دور کی بڑی شخصیتیں تھیں۔ ہندوستانی مسلم علما کی اکثریت نے پاکستان کے نظریہ کو ”بہت زیادہ علیحدگی پسند” ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیا اور ایک متحدہ ہندوستان کی حمایت کا انتخاب کیا، جو اس کی ثقافتی اور مذہبی تنوع پسندی کا ثبوت ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں ہندوستانیت کے احساس کے فقدان کی بات کرنا اور پرسنل لا کو ’’علیحدگی پسند‘‘ قرار دینا نہ صرف بے بنیاد ہے، بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔
قومیت کے تصور کے لحاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مشترکہ قومیت کا جذبہ ایک مشترکہ ثقافت کے تصور سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یونیفارم سوِل کوڈ ایک ایسے ملک میں تجویز کیا جا رہا ہے جس میں سب سے زیادہ متضاد لسانی، مذہبی اور ثقافتی اجزا موجود ہیں۔ مزید برآں ایک قوم کے تصور کا کمیونٹیز کے ذاتی قوانین کے قانون سازی کے طریقے سے زیادہ تعلق نہیں ہوسکتا۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی اس کی بہتر مثال ہے۔ اس صورت میں، دو جنوبی ایشیائی مسلم ممالک ، جو عام طور پر ایک جیسے پرسنل قوانین کے پابند تھے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکے۔ اس لحاظ سے پرسنل لا کو کبھی بھی اتحادی قوت نہیں سمجھا جا سکتا۔ اسی تصورکو جدید ہندوستانی معاشرے پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ پرسنل لا میں قانون سازی کے دائرے سے باہر بہت سی ایسی باتیں ہیں جو مسلمانوں کو ان کے ہندو پڑوسیوں سے ممتاز کرتی ہیں، جو حقیقت میں پرسنل قوانین سے زیادہ ”سماجی و ثقافتی علیحدگی پسندی” کو جنم دے سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر پرسنل قوانین کے ساتھ یا اس کے بغیر، کیا مسلمانوں کے پاس اپنی اجتماعی نمازوں کے لیے ایک علیحدہ جگہ برقرار رہے گی، جو دوسروں کے مذہبی رسومات سے بالکل الگ ہے۔ وہ رمضان کے پورے مہینے میں صبح سے شام تک اجتماعی طور پر روزہ رکھیں گے۔ ان کے مرنے والوں کو جلانے کے بجائے دفنایا جاتا رہے گا۔ زعفرانی اور ترشول کے برعکس سبز رنگ اور ہلال جیسی عام ثقافتی علامتیں بھی مسلمانوں کے لیے ایک الگ شناخت کے طور پر برقرار رہیں گی۔ یہ ممکنہ طور پر اس مسئلے کے معروضی اور مفصل سماجی مطالعہ کی کمی ہے جس کی وجہ سے یو سی سی کے حامیوں نے کمیونٹی کی شناخت کی وضاحت میں مسلم پرسنل لا کو اہم موضوع بنایا ہے۔
اس ضمن میں مختلف برادریوں کے درمیان تعداد ازدواج اور طلاق کی طرح امتیازی سلوک کے سیاق و سباق میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ۔ دیگر مسائل کے علاوہ جو نہ صرف مسلم خواتین بلکہ عام ہندوستانی خواتین کو بھی متاثر کرتے ہیں، مذکورہ مسائل کی بنیاد پر یو سی سی کے حامی مسلم پرسنل لاز کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، حالانکہ ہندو اور سکھ خواتین کو بھی ان بنیادوں پر برعکس اصول کے تحت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یو سی سی کے حق میں ہمیشہ یہ نکتہ اٹھایا جاتا ہے کہ ہندو پرسنل لا میں کئی بار ترمیم کی گئی ہے اور یہ کہ مسلم پرسنل لا کو کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا۔ تاہم اگرچہ ہندو قانون میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والے قوانین کو ہٹا دیا گیا تھا، گہرے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ ہندو خواتین کی سماجی و اقتصادی حیثیت بھی ان خواتین سے بہتر نہیں ہے جو اب بھی مسلم پرسنل لا کے دائرہ اختیار میں رہ رہی ہیں۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ بامعنی سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے لیے خواتین کے حقوق کے طور پر ترجیحات موجود ہونی چاہئے، نہ کہ مذہبی پرسنل لاز کا خاتمہ۔ مثال کے طور پر جس بنیاد پر آر ایس ایس نے یو سی سی کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے، وہ تعدد ازدواج اور خواتین پر اس کے جابرانہ اثرات ہیں۔ درحقیقت اس کی کچھ کتابوں میں، اس نے چن چن کر ایسے حالات کی ہی مثالیں پیش کی ہیں جہاں مسلم خواتین نے تعداد ازدواج سے بچنے کے لیے ہندوؤں سے شادی کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ تعداد ازدواج پر آر ایس ایس کی ہرزہ سرائی اور مسلم معاشرے میں اس کے وسیع پیمانے پر رواج کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔ کیونکہ کمیٹی آن دی ا سٹیٹس آف ویمن ان انڈیا (1975) کی رپورٹ کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوؤں میں تعدد ازدواج کے فیصد میں بہت کم فرق ہے۔ درحقیقت ایک موقع پر جب تعدد ازدواج کے حوالے سے اس میں سے کچھ لٹریچر سامنے آیا تو اس کا فی صد مسلمانوں کے مقابلے ہندوؤں میں زیادہ تھا۔
متعصب ہندوئوں کی طرف سے مسلم پرسنل لا پر بڑھتا ہوا حملہ پریشان کن ہے اور اسی وجہ سے میترائی مکوپادھیائے اس کی مثال انگریزوں کی اس حکمت عملی سے دیتے ہیں جس کے تحت انہوں نے ہندوستان کے ’وحشی‘ لوگوں کی مدد کے لیے ’تہذیب کاری کامشن‘ بھیجا تھا۔ تاہم مکوپادھیائے کے مطابق ’تہذیب کاری کے مشن‘ کے تحت اس بار ہندو اکثریت مسلم خواتین کی قسمت پر آنسو بہا رہی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو مسلمان مردوں اور عورتوں، دونوں کے لیے اسلام کی سالمیت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اس سے مسلمانوں کے لیے ایک دفاعی طریقہ کار کے طور پر اپنے پرسنل لا کو برقرار رکھنے کا رجحان مزید بڑھ جاتا ہے۔
پرسنل لاز کے معاملے میں ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہندوستانی جوڑے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کبھی بھی 1954 میں منظور کیے گئے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس قانون میں ایک ہی شادی پر سختی سے زور دیا گیا ہے اور قانون سے باہر طلاق کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ہے اور مردوں و عورتوں دونوں کے لیے طلاق کے یکساں حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس طرح جو شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ مسلم پرسنل لا میں ان امور پر مناسب سطح پر تحفظ یا انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا، وہ اس قانون کے تحت اپنی شادی رجسٹر کروا سکتا ہے۔ اس طرح شادی اور طلاق سے متعلق ان کی زندگی ان کے پرسنل لا کے اطلاق سے باہر رہے گی۔ اس کے علاوہ ایسی شادی جو اصل میں پرسنل لا کے تحت ہوئی ہو، بعد میں اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت بھی رجسٹر کی جاسکتی ہے۔ یہ قانون سازی ان لوگوں کے لیے متبادل کے طور پر کام کرتا ہے جو مذہب پر مبنی قوانین سے متفق نہیں ہیں یا ان سے راضی نہیں ہیں۔ جمہوری نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تویہ آپشن جو اس میں شامل جوڑے کی مکمل صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے، اس حد تک گنجائش فراہم کرتا ہے جو یو سی سی کی حمایت کرنے والوں میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
پرسنل لاز اور یکساں سول کوڈ کے مسائل اگرچہ انتہائی متنازع فیہ مسائل ہیں، لیکن ہمارا یقین ہے کہ مذہبی پرسنل لاز کے خاتمے اور یو سی سی کو اپنانے سے اس کے مقاصد اور اہداف، بالخصوص اتحاد پیدا کرنے کے معاملے میں، کبھی بھی حاصل نہیں ہوں گے۔ بلکہ خدشہ یہ ہے کہ پرسنل لاز کی انتہائی سیاست کاری اور ہندوستانی مسلمانوں کے ایک بڑے ادارے کے طور پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ابھرنے کے درمیان، اس طرح کی تبدیلی درحقیقت عصری ہندوستانی معاشرے میں مذہبی خطوط پر مزید تصادم کا باعث بنے گی۔ مزید برآں، جب تک یونیفارم سول کوڈ کی پیروی صرف بی جے پی اور اس کے ساتھیوں کے ذریعہ کی جائے گی، اقلیتیں اسے ہندو قانون کو اپنے گلے میں ڈالنے کی کوشش کے طور پر دیکھیں گی۔ سیاسی، سماجی اور ممکنہ طور پر فرقہ وارانہ تنازعات کی روشنی میں یو سی سی کا نفاذ یقینی طور پر ہندوستانی سماج کے مفاد میں بہتر نہیں ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS