کیا موہن بھاگوت واقعی متحد ہندوستان چاہتے ہیں؟: عبدالماجد نظامی

0
کیا موہن بھاگوت واقعی متحد ہندوستان چاہتے ہیں؟: عبدالماجد نظامی

عبدالماجد نظامی

ریشم باغ میں واقع ڈاکٹر ہیڈگوار سمرتی بھون میں منعقد ہونے والے ’’کاریہ کرتا وکاس ورگ-دیوتیہ‘‘ کے اختتامی پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے چند ایسی باتیں کہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ قائدین جن میں نریندر مودی سر فہرست ہیں، ان سے بھاگوت خوش نہیں ہیں۔ وہ اس بات سے بھی ناخوش نظر آ رہے ہیں کہ نریندر مودی نے الیکشن کو جنگ کے میدان میں تبدیل کرکے اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف حقائق اور تہذیب سے عاری باتیں کہیں جن سے سماجی افتراق و انتشار کی فضاء ہموار ہوتی ہے۔ موہن بھاگوت نے اپنے بیان میں کہا کہ سماج کے اندر مختلف جگہوں پر نزاعات جاری ہیں جو کہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے منی پور میں ایک سال سے زائد مدت سے جاری تشدد و بے چینی کے ماحول کا خاص طور سے حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ منی پور گزشتہ ایک سال سے امن کے انتظار میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ منی پور میں دس سال قبل امن کا ماحول تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بندوق کا کلچر وہاں ختم ہوچکا ہے۔ لیکن ریاست میں اچانک سے تشدد دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کے بعد وہ حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ منی پور کی صورتحال کو ترجیحی طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ انتخابات کی جملہ بازی سے باہر آیا جائے اور ان مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے جو ملک کو درپیش ہیں۔ اسی طرح حالیہ انتخابات کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نتائج سامنے آ چکے ہیں اور ایک سرکار بھی تشکیل پا چکی ہے، اس لیے ’’کیا ہوا، کیسے ہوا‘‘ جیسی غیر ضروری باتوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ پر زور دے کر کہا کہ سرکار اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ عوام کا کام کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کا مقصد اکثریت کا حصول ہوتا ہے، اس اعتبار سے الیکشن کی حیثیت محض ایک مقابلہ کی ہے۔ یہ کوئی جنگ نہیں ہے۔ بھاگوت نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈران ایک دوسرے کے خلاف زبان درازیاں کرتے وقت اس بات کو ذہن میں نہیں رکھتے ہیں کہ ایسی باتوں سے الگ الگ کمیونٹیوں کے درمیان تفرقہ پیدا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی ناراضگی اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کئی بار سنگھ کو بھی ان جھگڑوں میں غیر ضروری طور پر گھسیٹ لیا جاتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کسی بھی الیکشن میں ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں، اس لیے وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جیت کی خاطر جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ لیکن ان تمام باتوں سے زیادہ جو چیز بھاگوت کی تقریر میں چونکانے والی تھی، وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سیوکوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اور عیسائیت میں جو اچھائی اور انسانیت کی تعلیمات ہیں، ان کو گلے لگانا چاہیے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو اپنے بھائی اور بہن کی طرح احترام کی نظر سے دیکھیں۔

قارئین میں سے جو حضرات بھاگوت کے ذہن کو اور ان کی تقریر کے مدلولات اور رموز کو مزید گہرائی سے سمجھنا چاہتے ہیں، وہ ان کی پوری تقریر سن سکتے ہیں اور آزادانہ طور اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ اس کالم میں جستہ جستہ ان کی تقریر کے جو الگ الگ حصوں کو پیش کیا گیا ہے، ان کے ذریعہ چند باتوں پر روشنی ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس تقریر کا بنیادی پہلو تو یہ ہے کہ آر ایس ایس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ انتخابی جیت کی بنیاد پر خود کو سنگھ کے دائرہ سے بلند بنانے کی کوشش ہرگز نہ کرے۔ اس میں ظاہر ہے کہ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کو صاف طور پر پھٹکار لگائی گئی ہے کیونکہ انہوں نے الیکشن کے دوران اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ نظریاتی طور پر گرچہ سنگھ کے دائرہ میں گردش کرتے ہیں لیکن پارٹی اپنے طرز عمل اور فیصلہ سازی میں خود مختار ہے۔ بھاگوت نے اپنے بیان کے ذریعہ یہ بتادیا ہے کہ خواہ نریندر مودی ہوں یا نڈا دونوں خود کو سنگھ سے بلند کرنے کی غلطی نہ کریں کیونکہ انجام کار وہ بھی ایک عام ’’کاریہ کرتا‘‘ ہی ہیں۔ اس تقریر کے ذریعہ بھاگوت نے نڈا سے بھی زیادہ نریندر مودی کا قد چھوٹا کیا ہے جنہوں نے ’’وقار‘‘ و ’’تہذیب‘‘ اور سچائی و صداقت کی تمام حدود کو انتخابی ریلیوں کے دوران پھلانگ دیا تھا اور الیکشن کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر دیا تھا۔ سنگھ پریوار کو نریندر مودی کا یہ انداز بالکل پسند نہیں آیا اور اسی لیے بھاگوت نے اعلانیہ طور پر اپنی ناخوشی کا اظہار کیا ہے۔ بھاگوت اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ سنگھ کے لیے اقتدار کا حصول بس ایک ذریعہ ہے، کوئی مقصود بالذات شئے نہیں ہے۔ اس کے برعکس نریندر مودی نے اپنے دس سالہ دورِ اقتدارمیں ہر لمحہ یہ ظاہر کیا ہے کہ اقتدار ہی ان کی منتہا اور مقصد حیات ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ہر چیز کو اپنی ذات اور شخصیت کے ارد گرد مرکوز کر لیا تھا۔ نریندر مودی کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ وہ خود کو اتنا بلند بنالیں کہ ہر فرد اور ہر تنظیم و ادارہ ان کے سامنے کوتاہ قد معلوم ہو۔ ایسا کرنا مودی کی ذات اور ان سے وابستہ افراد کے لیے تو مفید ہوسکتا ہے لیکن سنگھ پریوار کے نزدیک ملک کو ہندوتو کے نظریہ کے تحت متحد رکھنا اہم ہے یا یوں کہا جائے کہ کم سے کم اس بات کا دعویٰ سنگھ کرتا ہے۔ اب ایسے مقصد کے حصول کے لیے ظاہر ہے انہیں سماج کے الگ الگ طبقوں کو قریب کرنے اور تاریخی تنازعات سے باہر نکل کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرنی ہوگی جس میں تاریخ ایک بوجھ بننے کے بجائے سمجھوتہ کی راہ ہموار کرسکے مگر نریندر مودی اپوزیشن پارٹیوں اور ملک کی اقلیتوں کے خلاف تہذیب سے گری ہوئی ایسی باتیں مستقل کرتے نظر آئے جن سے سماج میں اتحاد کے بجائے انتشار کا ماحول گرم ہوتا ہے اور ملک کی سالمیت خطرہ میں پڑتی ہے۔ بھاگوت دراصل اسی نقطہ پر زور دیتے نظر آرہے ہیں کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آپسی محبت و اخوت کے رشتہ کو پروان چڑھایا جائے اور تمام مذاہب و ادیان کے لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ خود سنگھ پریوار کس حد تک ان باتوں پر عمل پیرا ہوتا نظر آتا ہے۔ اگر بھاگوت اپنی باتوں میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ مسلم اور عیسائی اقلیتوں کے دین و مذہب اور طریقہ عبادت و طرز معاش و لباس کے خلاف زہر افشانی کے سلسلہ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سنگھ کی الگ الگ ذیلی تنظیمیں جو شب و روز انہیں نشانہ بناتی رہتی ہیں، ان پر قدغن لگانے کا انتظام کریں اور ان کے مقدس مقامات کے خلاف جاری معاندانہ رویہ میں بنیادی تبدیلی پیدا کریں۔ جہاں تک نریندر مودی اور ان کے سیاسی ہمنواؤں کا تعلق ہے تو اس ملک کے عوام نے انہیں یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ ان کی سیاست سے اس ملک کے لوگ اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ اب نریندر مودی پر ہے کہ وہ اس الیکشن کے نتائج کو مثبت ڈھنگ سے استعمال کرکے اپنی شخصیت کے منفی پہلوؤں کو بدل کر ملک کی سالمیت اور اتحاد کا ذریعہ بنتے ہیں یا اس کو منفی ڈھنگ سے استعمال کرکے اپنے خلاف تاریخ میں وہ باب رقم کرتے ہیں جو کسی بھی طرح سے روشن نہیں کہا جا سکتا۔ اتحادی حکومت کو چلانے کا ان کا یہ پہلا تجربہ ہے اور اسی لیے اس وقت کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS