ڈالر کیلئے فکرمند ٹرمپ!

0

امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ سیدھی بات کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ اس وقت بھی سیدھی بات کر رہے ہیں جب دنیا ان کے اپنے ملک کی پالیسیوں کی وجہ سے بھی الجھ گئی ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ ان کا انتباہ صرف انتباہ بن کر رہ جائے گا یا اس کے اثرات برکس ممالک پر پڑیں گے مگر انہوں نے سیدھے لفظوں میں یہ بات کہہ دی ہے کہ ’ڈالر سے دور ہونے کی کوشش کو ہم خاموش تماشائی بن کر نہیں دیکھیں گے، یہ دور اب ختم ہو گیا ہے۔‘ ٹرمپ کے مطابق، ’ ہمیں (برکس کے) ان ملکوں سے اس عزم کی ضرورت ہے کہ وہ نہ تو برکس کی کوئی کرنسی بنائیں گے، نہ ہی طاقتور امریکی ڈالر کی جگہ لینے کے لیے کسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے، کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں انہیں 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘ سوال یہ ہے کہ ڈونالڈٹرمپ کے اس انتباہ کو برکس کے وہ ممالک سنجیدگی سے لیں گے جوامریکہ کی پابندیوں کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے عالمی تجارت میں ڈالر کا تسلط ختم کر ڈالنا چاہتے ہیں؟ ٹرمپ کے انتباہ پر غور کرتے ہوئے یہ سمجھنا ہوگا کہ حالات پہلے جیسے نہیں رہ گئے ہیں، یوکرین اور غزہ جنگ میں اپنے رول کی وجہ سے امریکہ نے کوئی نام نہیں کمایا ہے بلکہ اس کی ساکھ گری ہے، اس کا دوہرا معیار سامنے آیا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے ایک مقبول لیڈر ہیں، ایک بار شکست کے باوجود دوسری بار صدر بن جانا ان کی مقبولیت کا ہی ثبوت ہے، وہ جنگوں میں الجھائے بغیر امریکہ کو زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے پہلی مدت صدارت میں یہ اشارہ دے دیا تھا کہ ان کی پالیسی تذبذب کی شکار نہیں ہے۔ان کی مدت صدارت میں امریکہ نے چین کے خلاف ٹریڈ وار چھیڑی، ووہان سے کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے پر یہ کوشش کی کہ اس وائرس کو چین سے جوڑا جائے مگر یوروپی لیڈروں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ کورونا وائرس کو ’چائنا وائرس‘ یا ’ووہان وائرس‘ کہنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ یوروپی ممالک پر امریکہ کی پہلے جیسی گرفت نہیںرہ گئی ہے،البتہ یوروپ میں چین کا دائرۂ اثر بڑھا ہے۔ کواڈ کی تشکیل کے وقت امریکہ نے آسٹریلیا اور فرانس کے معاہدے کا خیال نہیں رکھا تو یہ فرانس کے لیے بڑی بات تھی۔ فرانس کے صدر ایمینوئل میکرو ں نے یہ اشارہ دے دیا کہ تائیوان پر ان کے ملک اور یوروپی یونین کی پالیسی وہی نہیں ہوگی جو امریکہ کی پالیسی ہے۔

ادھر فروری 2022 میں یوکرین جنگ کے شروع ہونے کے بعد حالات اور بدل گئے۔ اس جنگ نے یوروپی ممالک کو خدشات میں مبتلا کر دیا۔ روس کے قریب سمجھے جانے والے یوروپی ممالک بھی یوکرین کے ساتھ کھڑے ہو گئے، روس کے خلاف یوکرین کی مدد کرنے لگے۔ اس سے امریکہ کے لیے یوکرین کو مضبوط کرنا آسان ہوا۔ اس کا اثرروس پر پڑا۔ جنگ میں روس کا کافی جانی نقصان ہوا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ممالک نے پابندیاں عائد کر کے روس کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ وقت تھا جب روسی صدر پوتن کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ امریکہ کی طاقت ڈالر میں ہے۔ اس کی پابندیوں کا اثر اسی لیے ہوتا ہے کہ دنیا کی 50 فیصد سے زیادہ تجارت ڈالر میں ہوتی ہے، لین دین کے نظام پر بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا تسلط ہے۔ اسی لیے روس نے لین دین کا نیا نظام قائم کرنے کی کوشش شروع کی۔ ڈالر کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے اس نے دیگر ملکوں سے اپنی اپنی کرنسی میں بزنس کرنے میں دلچسپی دکھائی۔ اس سلسلے میں اسے چین کا ساتھ ملا، کیونکہ شی جن پنگ کی یہ کوشش ہے کہ چین،امریکہ کی جگہ لے لے اور اس کے لیے ڈالر کا کمزور اور یوآن کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ چین اور روس کے مابین 2022 کے مقابلے 2023 میں 26.3 فیصد اضافے کے ساتھ 240.1 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ اس میں سے 92 فیصد کی ادائیگی دونوں نے روسی روبل اورچینی یوآن میں کی۔ اس کے بعد ہی برکس کرنسی کا ذکر چھڑا ہے۔ ویسے ڈالر کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں امریکی لیڈروں کو اسی وقت سے سوچنا شروع کر دینا چاہیے تھا جب یورو متعارف کرائی گئی تھی۔ یوروپی یونین کے 20 ملکوں کی سرکاری کرنسی یورو یکم جنوری، 1999 کو متعارف کرائی گئی تھی۔ اس سے پہلے ڈالر کی جو قدر تھی، آج ویسی نہیں رہ گئی ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ ٹرمپ کے انتباہ کا کیا اثر پڑتا ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS