کیٹ مورگن
مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) نے جہاں دنیا بھر میں اس وقت کئی جگہوں پر انسان کی جگہ لے لی ہے وہیں ماہرین نے چند ایسے شعبوں کی نشاندہی کی ہے جن میں کام کرنے والوں کے روزگار کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔
پاور لومز کی صورت میں صنعتی انقلاب کے آغاز سے لے کر ننھی مائیکرو چپ کے سامنے آنے تک یہ خطرہ ہمیشہ موجود رہا کہ مشینیں انسانوں کی جگہ نہ لے لیں۔اس خدشے نے رفتہ رفتہ حقیقت کا روپ دھار لیا اور مشینوں کا غلبہ ہمیں ہر سمت دکھائی دینے لگا اور یوں اب دنیا کے طول و ارض میں ہمیں روبوٹس انسانوں کی جگہ کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
گولڈ مین سیکس کی مارچ 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق مصنوعی ذہانت اس وقت انسانی ہاتھوں سے ہونے والے کاموں میں سے ایک چوتھائی حصہ کرنے کے قابل ہو چکی ہے۔رپورٹ میں یہ اندازہ بھی لگایا گیا ہے کہ یورپی یونین اور امریکہ بھر میں مصنوعی ذہانت کے باعث 30 کروڑ افراد اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
’رول آف روبوٹ: مصنوعی ذہانت کیسے ہر چیز بدل دے گی
Rule of the Robots: How Artificial intelligence will transform everythin)
کے مصنف مارٹن فورڈ کے مطابق یہ صورت حال مزید خراب بھی ہو سکتی ہے۔’ایسا نہیں ہے کہ یہ صورت حال ہر ایک کو متاثر کرے گی لیکن یہ بہت منظّم طریقے سے ہوسکتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’یہ بہت سے لوگوں کے ساتھ ہو سکتا ہے، ممکنہ طور پر اچانک یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ممکنہ طور پر سب ایک ہی وقت میں ہوں اور اس کے اثرات صرف ان افراد پر نہیں بلکہ پوری معیشت پر پڑیں گے۔‘تاہم ان سب بری خبروں کے دوران ایک اچھی بات بھی سامنے آئی ہے۔ ماہرین نے عندیہ دیا ہے کہ اب بھی بعض ایسے شعبے ہیں جن میں مصنوعی ذہانت جگہ نہیں لے سکتی۔مارٹن فورڈ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں تین ایسے شعبے ہیں جن میں کام کرنے والوں کو مستقبل قریب میں مصنوعی ذہانت کے غلبے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘
’ان میں سے پہلی ملازمتیں وہ ہیں جو حقیقی طور پر تخلیقی ہوں یعنی آپ فارمولا یا بھیڑ چال والا کام نہیں کر رہے ہیں یا صرف چیزوں کو دوبارہ ترتیب نہیں دے رہے ہیں، بلکہ آپ حقیقی طور پر نئے خیالات کے ساتھ آ رہے ہیں اور کچھ نیا بنا رہے ہیں۔‘یہ وہ کام ہیں جن میں واضح طور پر انسانی خصوصیات اور صلاحیت کا ہونا لازم ہے۔ یعنی جن کاموں کے لیے جذباتی ذہانت اور تخلیقی مہارت کا ہونا لازم ہو، وہاں انسان کے متبادل کے طور پر روبورٹ یا اے آئی کا کام کرنا دشوار ہے۔تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ تمام ملازمتیں جن میں تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال ہوتا ہو وہ سب کی سب محفوظ ہیں۔
درحقیقت، گرافک ڈیزائننگ اور بصری آرٹ سے متعلقہ ملازمتیں پہلے ختم ہو جانے والوں میں شامل ہو سکتی ہیں۔
بنیادی الگورتھم میں ایک بوٹ کو ہدایت دے کر لاکھوں تصویروں کا تجزیہ کر کے مصنوعی ذہانت کے ذریعے فوری طور پر ایک شاہکار تیار کیا جا سکتا ہے تاہم دوسری قسم کی تخلیقی صلاحیتوں سے متعلق ملازمتیں کچھ محفوظ ضرور ہو سکتی ہیں۔
فورڈ کہتے ہیں ’سائنس، طب اور قانون کے شعبوں میں، جہاں لوگ ایک نئی قانونی یا کاروباری حکمت عملی کے ساتھ کام کرتے ہیں، وہاں انسانوں کے لیے کچھ جگہ برقرار رہنے کی توقعات موجود ہیں۔‘وہ مزید کہتے ہیں ’دوسری کیٹیگری ان ملازمتوں کی ہے جن میں نفیس اور خوشگوار باہمی تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے نرسیں، کاروباری مشیر اور تحقیقاتی صحافی۔‘یہ وہ ملازمتیں ہیں جہاں بہت گہری سمجھ کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اے آئی کو تعلقات استوار کرنے والی بات چیت کی صلاحیت حاصل کرنے میں کافی وقت لگے گا۔‘
فورڈ کے مطابق ’تیسری محفوظ ملازمتیں ہیں وہ جن کے لیے بہت زیادہ نقل و حرکت، مہارت اور غیر متوقع صورت حال میں مسائل فوری حل کرنے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں الیکٹریشن، پلمبر، ویلڈر اور اس طرح کی دیگر خدمات شامل ہیں۔ یہ اس قسم کی ملازمتیں ہیں جہاں آپ ہر وقت ایک نئی صورتحال سے نمٹتے ہیں۔‘وہ مزید کہتے ہیں ’خود کار طریقوں سے کسی بھی چیز میں شاید یہ سب سے مشکل کام ہیں۔ اس طرح کی ملازمتوں کو خودکار کرنے کے لیے سائنس فکشن روبوٹس کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے آپ کو سٹار وارز فلم کے سی تھری پی او (C-3PO ) روبوٹ کی ضرورت ہوگی۔‘
اگرچہ انسان ممکنہ طور پر ایسی ملازمتوں میں موجود رہیں گے جو ان زمروں میں آتی ہیں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پیشے مکمل طور پر اے آئی کے عروج سے محفوظ ہیں۔
یونیورسٹی آف بفیلو امریکہ میں لیبر اکنامکس کی ایسوسی ایٹ پروفیسر جوآن سونگ مک لافلین کہتی ہیں کہ درحقیقت زیادہ تر ملازمتوں میں ٹیکنالوجی کے ذریعے خودکار ہونے کا امکان موجود ہے۔اگرچہ ایک روبوٹ بظاہر تو کینسر کی تشخیص میں بہتر طور پر کام کر سکتا ہےتاہم زیادہ تر لوگ اب بھی ڈاکٹر کی صورت میں ایک حقیقی شخص سے رابطہ چاہتے ہیں جو انھیں اس کے بارے میں بتائے۔وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ تقریباً تمام ملازمتوں کے بارے میں سچ ہے، اور اس طرح ان واضح انسانی مہارتوں کو تیار کرنے سے لوگوں کو اے آئی کے ساتھ ساتھ اپنی ملازمتیں کرنا سیکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
’مجھے لگتا ہے کہ یہ سوچنا واقعی عقل مندی ہے کہ میری ملازمت کے اندر کس قسم کے کاموں کو تبدیل کیا جائے گا، یا کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت کے ذریعہ بہتر طریقے سے انجام دیا جائے گا؟ اور میری دیگرمہارتیں کیا ہیں؟‘
انھوں نے بینک میں رقم کا لین دین کرنے والوں کے کام کی مثال دی جنھیں کبھی بہت درست رقم کا حساب کتاب دینا ہوتا تھا اب اس کام کو خودکار کر دیا گیا ہے لیکن اس ملازمت میں اب بھی ان کے لیے ایک جگہ ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’رقم گننے کا کام ایک مشین کی وجہ سے تو ختم ہو گیاہے لیکن اب وہ لوگ صارفین کے ساتھ جڑنے اور نئی مصنوعات متعارف کرانے پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں اور ان کے لیے سماجی رابطوں کی مہارت زیادہ اہم ہو گئی ہے.‘
فورڈ کہتی ہیں کہ یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیم یا اعلیٰ تنخواہ والی پوزیشن اس بات کا دفاع نہیں کہ مصنوعی ذہانت ان کی جگہ نہیں لے سکے گی۔’ہم سوچ سکتے ہیں کہ وائٹ کالر نوکری کرنے والا شخص نوکری کے لحاظ سے اس شخص سے زیادہ بہتر ہے جو روزی کے لیے کار چلاتا ہے لیکن ان حالات میں وائٹ کالر ملازم کا مستقبل اوبر چلانے والے ڈرائیور سے زیادہ خطرے میں ہے۔‘’ہمارے پاس کیونکہ ابھی تک خود چلنے والی کاریں نہیں ہیں لیکن اے آئی یقینی طور پر رپورٹس لکھنے کا کام بخوبی کر سکتا ہے۔ بہت سے معاملات میں، زیادہ تعلیم یافتہ کارکنوں کو کم تعلیم یافتہ کارکنوں سےزیادہ خطرات ہیں لیکن اس شخص کے بارے میں سوچیں جو ہوٹل کے کمروں کی صفائی کا کام کرتا ہے اور اس کے کام کو خودکار بنانا واقعی مشکل ہے۔‘
مختصراً یہ کہ اس متحرک اور بدلتے ہوئے ماحول میں غیرمتوقع حالات میں کام کرنے والے افراد ملازمت کے نقصان سے بچنے والوں کی صف میں موجود ہیں ،چاہے کچھ عرصے کے لیے ہی سہی۔ll
کیا آپ کے پاس وہ جاب ہے جس کو فی الحال مصنوعی ذہانت سے کوئی خطرہ نہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS