بغیر اجازت اشتہار شائع نہ کریں، میڈیا پر طالبان کی نئی پابندی

0

کابل (ایجنسیاں) : افغانستان کی طالبان حکومت نے میڈیا کو حکم دیا ہے کہ وہ سیاسی، سکیورٹی یا سماجی مواد والے اشتہارات ان کی منظوری کے بغیر شائع نہ کریں۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کا یہ اقدام میڈیا کی آزادی کے لیے ایک اور دھچکہ ہے۔ طالبان نے میڈیا کو ایک باضابطہ خط بھیجا ہے، جس کی ایک کاپی بی بی سی کے پاس بھی ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ ’اب سے تمام میڈیا آؤٹ لیٹس، کسی بھی قسم کے سیاسی، سکیورٹی یا سماجی مواد والے اشتہارات شائع کرنے سے قبل وزارت اطلاعات و ثقافت کے میڈیا مانیٹرنگ شعبے سے رابطہ کریں۔‘ طالبان کے اس خط پر ان کے ترجمان اور نائب وزیر اطلاعات و ثقافت ذبیح اللہ مجاہد کے دستخط ہیں اور تمام صوبوں میں اطلاعات و ثقافت کے محکموں سے کہا گیا ہے کہ وہ صحافیوں کو اس فیصلے سے آگاہ کریں۔ افغانستان میں ایک مقامی میڈیا آؤٹ لیٹ کے مالک (جو سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے) نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے انھیں خطوط بھیجے گئے ہیں جس میں ان سے نئے اشتہارات جاری کرنے سے قبل ہدایات کی پیروی کرنے کو کہا گیا ہے۔
مقامی صحافی کے مطابق ’طالبان ہماری راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں، میڈیا کے چلنے کے تمام راستے بند کر رہے ہیں، اس سے پہلے انھوں نے موسیقی اور خواتین کی آوازوں پر پابندی عائد کی، پھر انھوں نے اشتہارات میں موسیقی پر پابندی لگا دی، پھر عوامی سطح پر موسیقی پر پابندی ?عائد کر دی۔ صحت کے شعبے میں اشتہارات بند کر دیے ہیں اور اب یہ ہر چیز کو روکنا چاہتے ہیں اور ہمیں میڈیا کو بند کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔‘ طالبان کی وزارت اطلاعات و ثقافت میں میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے کے سربراہ عبدالحق حماد نے بی بی سی پشتو سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ انھوں نے یہ خط تمام میڈیا اداروں کو بھیجا لیکن ان کا اصرار ہے کہ اس کا مقصد میڈیا کو محدود کرنا نہیں لیکن ان کی اس دلیل کو وہاں کی صحافی برادری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ عبدالحق حماد نے کہا کہ ’سیاسی پروپیگنڈے اور سرگرمیوں سے باخبر رہنا ہر حکومت کا حق ہے۔‘ واضح رہے کہ طالبان کے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول کے بعد سے میڈیا اور صحافیوں پر کچھ پابندیاں عائد ہیں۔ افغانستان میں صحافیوں کی فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ملک کے 50 فیصد سے زیادہ میڈیا آؤٹ لیٹس کام کی پابندیوں اور معاشی مشکلات کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔
جرنلسٹس سپورٹ ایسوسی ایشن کے مطابق پچھلے آٹھ ماہ میں تقریباً نو صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو گرفتار کیا گیا اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ چھ ہزار سے زائد افغان صحافی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سینکڑوں میڈیا آؤٹ لیٹس بند ہو چکے ہیں۔ صحافیوں کی حمایت کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے ان واقعات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ افغانستان کی جمہوریت میں پچھلے 20 سال میں میڈیا کی آزادی اور وسیع پیمانے پر اس کا پھیلاؤ خطے میں بڑی کامیابیوں میں سے ایک رہا ہے لیکن مختلف گروہوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا اور صحافی اب اتنے محفوظ نہیں رہے جتنے پہلے تھے، اب وہ طالبان کی جانب سے شدید دباؤ میں ہیں۔
میڈیا کے ساتھ طالبان کے برتاؤ نے اندرون اور بیرون ملک بین الاقوامی تنقید کو بھی ہوا دی ہے اور طالبان سے بارہا میڈیا پر پابندیاں اٹھانے اور تحمل سے کام لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ طالبان نے ایک بار پھر میڈیا پر دباؤ کی تردید کی ہے لیکن اب تک ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS