نیکی کر دریا میں ڈال

0

محمد اسد اللّٰہ
اردو گرلزہائی اسکول میں ایک دن یہ خبرعا م ہو گئی کہ جلد ہی وہاں کوئی نئی ٹیچر آ نے والی ہیں اور ہوا بھی وہی، چند دنوں بعد فرزانہ میڈم کا وہاں تبادلہ ہوگیا۔ان کے بارے میں مشہور تھاکہ وہ اصولوں کی بڑی پابند ہیں،سخت ہیں اور اتنی ہی محنتی بھی۔ اچھے ٹیچرس میں ان کا شمار کیا جاتا تھا۔ ان کے آ تے ہی اسکول کا ماحول بدل گیا۔چند ہی دنوں میں سب نے محسوس کیا ہے کہ اسکول میں دھیرے دھیرے بہت کچھ بدل رہا ہے۔ سب سے پہلے اسکول میں دعا کے وقت جہاں اسٹیج پر تین چار مخصوص لڑکیاں موجود ہوتی تھیں،اب ہر دن نئے نئے چہرے دکھائی دینے لگے۔ہر کلاس سے قابل طالبات کو جانچ پرکھ کر موقع دیا جانے لگا۔ پیش درس میں اب نئے نئے گیت، نظمیں، اقوال اور سبق آ موز واقعات وغیرہ سنائے جاتے تھے،ان سب سے طالبات میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا تھا۔
دو ماہ بعد فرزانہ باجی کی ترقی ہوگئی اور انہیں اسی اسکول میں نائب صدر معلمہ بنا دیا گیا۔اس کے بعد جیسے اسکول میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔
فرزانہ باجی نے ایک دن پیش درس کے دوران یہ اعلان کیا کہ ہر ماہ اسکول کی کسی کلاس کو بہترین کلاس کا اور ہر کلاس سے ایک طالبہ کو بہترین طالبہ کا اعزاز دیا جائے گا۔ جو کلاس صاف ستھری اورنظم و ضبط کی پابند ہوگی، اسے ایک اسٹار ملے گا، طلبا کی زیادہ حاضری کے لیے الگ اسٹار اور کلاس کی سجاوٹ کے لیے الگ اسٹار ہوگا۔ یہ اسٹارس اس کلاس کے دروازے پر سجا ئے جائیں گے۔ بہترین طالبات کو سوشل گیدرنگ میں سرٹیفکیٹ اور انعام دیا جائے گا۔
اس سے پہلے اسکول کی لا ئبریری میں کوئی جھانکتا نہ تھا۔ لائبریرین ہمیشہ اسکول کے دیگر کاموں میں مصروف رہتے۔وہ بہت کم لائبریری میں پائے جاتے تھے۔ جب وہاں موجود ہوتے تو اپنی کر سی پر بیٹھے اونگھتے ہوئے نظر آتے تھے۔ ٹیبل کرسیوں پر ہر وقت گرد جمی رہتی تھی۔ بچے اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرنے وہاں جاتے توانہیں الماریوں کے شیشیوں کے اندر کتابیں بے بس قیدیوں کی طرح نظر آ تیں،الماریوں پر بڑے بڑے تالے جو پڑے تھے۔بچوں کو محسوس ہوتا جیسے کتابیں بہت دیر سے ان کا انتظار کر رہی ہیں، ان کے ہاتھوں میں آنے کے لیے بے چین ہیں اور انہیں دیکھتے ہی مچلنے لگی ہیں۔ ارشد سر اسکول کے کاموں پر اکثر کچھ نہ کچھ کہا کرتے تھے۔لڑکیاں ان سے کتابیں مانگتیں تو وہ کہتے،’’بچو! تمہارے اسکول کی لائبریری ہاتھی دانت کی بنی ہے۔بس اسے دور سے دیکھ کر اپنا کلیجا ٹھنڈا کر لیا کرو‘‘جب فرزانہ باجی کی ترقی ہوئی تو لائبریری کی بھی قسمت جاگ اٹھی۔اب وہاں طالبات کی قطاریں نظر آ نے لگیں۔لائبریرین کے ٹیبل پر اور الماریوں میں طلبا کے لیے رنگ برنگی نئی نئی کتابیں اور بچوں کے رسائل نظر آ نے لگے۔
فرزانہ باجی کی کلاس میں بھی لڑکیاں نئے نئے کاموں میں مصروف ہو گئی تھیں۔ایک د ن انہوں نے طالبات کو ایک عجیب قسم کا پروجیکٹ دیا۔ اس کے تحت تمام لڑکیوںکو سات کام بتائے گئے جو دن بھر میںکرنے تھے اوران کیے گئے کاموں کے لیے ایک خاص بیاض میں اتنے ہی نشانات لگانے تھے۔صحیح کا ہر نشان بتائے گا کہ انہوں نے ایک کام کیا ہے او ر ان نشانات کو گن کر طے کیا جائے گا کہ انہوں نے دن بھر میں کتنے کام کیے ہیں۔وہ کام یہ تھے۔ .1 صبح جلدی اٹھنا،.2 دن بھرپانچوںنمازوں کا اہتمام کرنا، .3وقت پر اسکول آ نا اور پیریڈ شروع ہونے سے پہلے کلاس میں حاضر رہنا، .4 دن بھر میں کم از کم دس لوگوں کو خود سلام کرنا، .5 اپنی ساری کتابیں،کپڑے،جوتے اور سامان خود احتیاط سے ترتیب وار رکھنا، .6اسکول یا گھر میں کسی کی مدد کرنا اور.7 جھوٹ نہیںبولنا۔
ہفتے کے آ خر میںکلاس کی چند طالبات وہ بیاضیں جمع کرکے باجی کے روم میں رکھ آ تیں، ان کی ٹیبل پر بیاضوں کا پہاڑ سا بن جاتا اور دو تین دن میںچیک ہونے کے بعد واپس لاکر طالبات میںتقسیم کر دیتیں۔ہر بیاض پر سرخ سیاہی میں باجی کے خوبصورت دستخط ہوتے جنہیں دیکھ کر لڑکیاں باغ باغ ہو جاتیں۔کبھی کبھی کسی بیاض پر کوئی ریمارک بھی نظر آتا۔ بیاض پر کور چڑھائو، اچھا پین استعمال کرو،صفائی کا خیال رکھووغیرہ۔
ایک دن باجی کلاس میں آ ئیں تو ان کے ہاتھ میں ثریا کی بیاض تھی۔ثریا کلاس کی سب سے زیادہ ملنسار، ذہین، محنتی اورنیک طالبہ تھی۔وہ سبھی کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آ تی تھی، کبھی کسی نے اس کی کوئی شکایت نہیں کی۔وہ پڑھائی میں بہت تیز تھی، اس کا خط بھی بہت اچھا تھا۔ثریا کی ان ہی خوبیوںکو دیکھ کر اسے کلاس مانیٹر بنایا گیا تھا۔ باجی نے سبق ختم کر نے کے بعداسے اپنے پاس بلایا اور اس کی بیا ض کھول کر ٹیبل پر رکھی اور ذرا تیز آ واز میں پوچھا: ’’ یہ کیاہے؟‘‘
ثریا خاموش کھڑی رہی۔فرزانہ باجی نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھااور نرم لہجے میں کہا: ’’اچھا،یہاں آئو،اب بتائو، تم نے اس پر صحیح کے نشانات لگانے کے بجائے غلط کے نشانات کیوں لگائے۔ ہر صفحے پر کہیں ایک کہیں دو نشانات ہیں۔ یہ کراس کس لیے ہے ؟
’’میں نے اتنے کام نہیں کیے ہیں۔‘‘ثریا نے دھیرے سے کہا۔
’’اچھا! یعنی باقی سارے کام کیے ہیں۔‘‘
’’جی ‘‘
’’تم نے جواچھے کام کیے ہیں، ان کے لیے صحیح کا نشان کیوں نہیں لگایا؟‘‘
’’جو کیا وہ بتانا مجھے اچھا نہیں لگا باجی!‘‘
ویری گڈ!تمہاری اس بات میں بھی ایک بات ہے، یعنی نیکی کر دریا میں ڈال،ٹھیک ہے، جائو!
اس ماہ ثریا کو اس کلاس کی سب سے بہترین طالبہ قرار دیا گیا۔ r
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS