فرانس میں سفارتی بغاوت کی دستک؟

0

غزہ اسرائیلی جارحیت کے 43دن ہوچکے ہیں اور لگاتار صیہونی ریاست اسپتالوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ اسرائیلی بربریت کو امریکہ کی سرپرستی مل رہی ہے۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی کھلم اسرائیل کے تمام وحشیانہ کرتوتوں کی حمایت کررہے ہیں اگرچہ ان ملکوں میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاج ہورہے ہیں مگر فرانس میں مسئلہ فلسطین پر شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہاہے۔ فرانس کے اندر اس معاملہ میں شدید صف بندی ہوگئی ہے۔فرانسیسی سفارت کاروں نے میکروں کی اسرائیل نواز پالیسیوں کی نکتہ چینی کی ہے۔ اس بابت کئی فرانسیسی سفارت کاروں نے ایک مشترکہ قرارداد حکومت فرانس کے سپرد کی ہے جس میں صدر فرانس ایمنوئل میکروں پر الزام لگایا جارہاہے کہ وہ اسرائیل کی حمایت میں تعصب کا مظاہرہ کررہے ہیں جن سفیروں میں اس بابت مکتوب لکھاہے وہ عرب مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں تعینات ہیں۔ اردن میں تعینات فرانس کے سابق سفیر ڈینس بوچرڈ (Denis Bauchrd)کا کہناہے کہ مذکورہ نوٹ اندرونی اور داخلی سطح پر لکھاجانے والا اورپیشہ وارانہ نوعیت کارقعہ ہے اور اس سے پہلے کبھی بھی اس طرح ناراضگی والا نوٹ اجتماعی طورپر لیک نہیں کیاگیا۔ یعنی یہ غیرمعمولی سفارتی پیش قدمی ہے اور جس طرح یہ کیاگیا ہے، اس لیک کے پس پشت کوئی نہ کوئی وجہ رہی ہوگی۔ ورنہ اس طرح کے خالص خفیہ مکتوبات لیک نہیں کیے جاتے ہیں۔ یہ لیک کوئی حادثاتی لیک نہیں تھی۔ بوچرڈ فرانسیسی وزارت خارجہ شمالی افریقہ اور میڈل ایسٹ کے امور کے محکمہ کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ بوچرڈ کا کہناہے کہ اس مکتوب یا قرارداد میں تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ کسی طرح اسرائیل کو مسلسل غیرمناسب حمایت کی وجہ سے اس خطے کے ملکوں میں فرانس کے تعلقات پیچیدہ تر ہورہے ہیں۔ خاص طورپر عرب ومسلم ممالک کے ساتھ تعلقات متاثرہورہے ہیں جہاں فرانس کا بہت اچھا اثر ورسوخ رہاہے اور ان ملکوں مثلاًاردن، لبنان اور مصر کے ساتھ ہمیشہ سے اچھے روابط رہے ہیں۔
خیال رہے کہ لبنان میںفرانس کے زبردست اثرات ہیں اور وہ لبنان میںاقتصادی اور سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے غیرمعمولی کوششیں کررہاہے ۔ اردن اور عراق کے ساتھ تعاون کرکے فرانس، عراق میں خانہ جنگی اور اقتصادی عدم استحکام کوختم کرنے کے لیے غیرمعمولی سرگرم رہاہے۔ پچھلے دنوں اردن نے عراق کے اندر تعمیر نو شروع کرانے اور سیاسی تصادم ختم کرنے کے لیے مصالحتی کوشش کی تھی اور ایک کانفرنس عمان میں ہوئی تھی اس کانفرنس میں مصر اور فرانس کی قیادت نے عراق میں صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب بھی فرانس کے ساتھ تعاون کررہاہے۔ بحرروم میں لبنان اور اسرائیل کے ساتھ قدرتی گیس نکالنے کا جو سمجھوتہ ہوا تھا اس میں فرانس نے کلیدی رول ادا کیاتھا۔ فرانس کی ایک قدرتی گیس نکالنے والی ایک پرائیویٹ کمپنی کو ٹھیکہ ملا تھا۔ یہ سمجھوتہ ان معنی میں غیرمعمولی نوعیت کا حامل تھا کہ لبنان اور اسرائیل حالت جنگ میں ہیں اور دونوں میں سرحدی تنازع ہونے کے باوجود فرانس قدرتی گیس نکالنے کا سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہوگیاتھا۔ خیال رہے اس غزہ بحران میں لبنان کافی اہمیت کاحامل ہے۔ لبنان کی ایک مضبوط سیاسی اور عسکری قوت حزب اللہ اسرائیل کوچیلنج کررہی ہے اور دونوں فریقوں میں لگاتار فوجی جھڑپیں ہورہی ہیں۔ فرانس، لبنان کی کالونی تھا اور ایک طویل عرصہ تک فرانس کی افواج لبنان رہی ہیں۔ لبنان کی خانہ جنگی میں فرانس کی خود کی اپنی فوجوں کے علاوہ فرانس کئی مسلح گروپوں کی مدد کرتارہاہے اور طائف سمجھوتے کولاگوکرنے میں اس نے اہم رول ادا کیا تھا۔ظاہر ہے کہ عالمی سیاست میں میکروں کی پالیسیوں کا اثرپڑے گا۔
فرانس کے صدر میکروں جن کو افریقہ میں کئی ممالک میں مخالفتوں کا سامنا کرناپڑرہاہے۔ کئی ممالک جن میں گیبن، مالے برکینافاسو، نائیجیریا شامل ہیں، فرانس کی حمایت والی حکومت کو معزول کردیاگیا ہے۔ وہاں فرانسیسی فوج کو واپس جانے سے کہہ دیاگیا ہے جبکہ فرانس کا دعویٰ ہے کہ افریقہ کے ساحل ممالک میں آئی ایس آئی ایس کے خلاف برسرپیکار ہے۔ حماس کے حملے کے بعد بھی فرانس نے آئی ایس آئی ایس کے خلاف اتحاد میں حماس کو بھی شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ بوچرڈ نے کہا تھا کہ حماس کے خلاف بین الاقوامی اتحاد بنانے کی تجویز بے سود اور غیرموثر تھی۔کئی عربوں کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔سفارتی امور کے ماہرین کا کہناہے کہ میکروں کی تجاویز حالات کو پیچیدہ بنانے والی ہے۔ عراق اور تیونس میں فرانس کے سفارت کار رہے یوئیس آین ڈی لامیسوریزی کا کہناہے کہ فلسطین اسرائیل کے ایشو پر میکروں کی پالیسی ناقابل فہم ہے، سمجھ سے بالاترہے۔
فرانس کے تجربہ کار سفارت کار کا کہناہے کہ سابق صدر فرانس چیک شراک نے اپنی پالیسی غیرجانبدارانہ رکھی تھی۔ وہ اپنی غیرجانبدارانہ پالیسی کی وجہ سے فریقوں میں صلح صفائی کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ غیر جانبداری موجودہ صدر برقرارنہیں رکھ پائے ہیں۔ میکروں کی وجہ سے مغربی ایشیا اور افریقہ میں فرانس کا اثرورسوخ کم ہورہاہے۔
7اکتوبر کے حماس کے حملہ کے بعد جب میکروں اسرائیل گئے تو انھوںنے جس طرح کا بیان دیاتھا اس کو عرب دنیا میں ناگواری کااظہار کیاتھا اور عراق کے صدر نے محمدشیعہ السوڈانی کے مشیرنے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس کے صدر نے عرب دنیا میں اپنامقام کھودیا ہے۔
پچھلے دنوں خلیجی عرب ملکوں اور امریکی صدر جوبائیڈن کے درمیان کئی امور پر اختلاف رائے سامنے آچکے ہیں۔ صدارتی الیکشن سے قبل جوبائیڈن سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان (ایم بی ایس) کے درمیان تلخی محسوس کی گئی تھی۔ بائیڈن کئی مرتبہ ایم بی ایس پرنکتہ چینی کرچکے تھے۔ صدرمنتخب ہونے کے بعدبائیڈن نے غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے ایم ایس سی اور جدہ میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس میں شرکت کرکے تعلقات کومعمول پرلانے کی کوشش کی تھی۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اس وقت بھی تلخی دیکھی گی تھی جبکہ امریکہ پیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار کے معاملے میں اوپیک اور سعودی عرب سے اپنی کی پالیسی پر عمل درامد کرانے پر مصرتھا۔ اس پالیسی کا مقصد سوویت یونین کو الگ تھلگ کرکے اقتصادی طوپر کمزور کرناتھا۔ جبکہ سعودی عرب نے اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق اپنی راہ الگ نکالی تھی۔ اس دوران سعودی عرب اورفرانس کے درمیان قربت بڑھی تھی۔ ایم بی ایس اور میکروں کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی دیکھنے میں آئی تھی۔ اس وقت مبصرین کو لگ رہا تھا کہ دونوں ملک امریکہ کو کنارے لگاکر آپسی تعلقات کو نئی سطح پر لے جائیں گے مگر غزہ بحران پر مغربی ملکوں خصوصاً فرانس کے موجودہ رویہ سے اس تاثر کی نفی ہورہی ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS