سفارتی بدزبانی‘نسل کشی اور جمہوری وقار کی پامالی

0

نئی دہلی میں تعینات اسرائیلی سفیرریوین آذرنے تمام سفارتی نزاکتوں اور بین الاقوامی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘گزشتہ12کواگست کو ایک منتخب رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی واڈرا کو براہ راست مخاطب کرکے جو زبان استعمال کی ہے ‘وہ محض سفارتی بدکلامی نہیں‘بلکہ ہندوستان کی جمہوری روح‘ پارلیمانی وقار اور قومی خودمختاری پر ایک ڈھٹائی بھرا حملہ ہے۔ انہوں نے کانگریس رہنما کے غزہ میں جاری انسانی المیے پر اظہار خیال کو شرمناک فریب قرار دیتے ہوئے‘اپنی بدزبانی سے یہ ثابت کیا کہ انہیں نہ تو سفارتی آداب کاپاس ہے اور نہ ہی انہیں ہندوستانی پارلیمنٹ کے ارکان کے احترام کا کوئی لحاظ۔پرینکا گاندھی واڈرا نے غزہ میں اسرائیلی ریا ست کی نسل کشی کا ذکر کیا تھا، جہاں 60 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے،جن میں 18,430 معصوم بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار بھی ان دعوئوں کی تائید کرتے ہیں‘جن کے مطابق اگست 2025 تک ہلاکتوں کی تعداد 61,158 تک پہنچ چکی تھی۔پرینکا گاندھی نے اس قتل عام پر مودی سرکار کی مجرمانہ خا مو شی کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اسے بھی اس جرم میں برابر کا شریک ٹھہرایا۔ یہ ایک ہندو ستانی رہنماکا اپنی حکومت پرایک جائزاو جمہوری حق تنقید تھا،جو ملک کی روایتی خارجہ پالیسی کی ترجمانی بھی کرتا تھا۔

لیکن شاید انہیں یہ گمان بھی نہ تھا کہ ان کی آواز کو دبانے کی جسارت خود ہندوستان کے قلب میں بیٹھا ایک غیر ملکی سفیر کرے گا۔ ریوین آذر کا جواب’’شرمناک تو آپ کا فریب ہے‘‘صرف ایک بدکلامی نہیںبلکہ ہندوستان کے داخلی مباحثے میں ایک ناقابل قبو ل مداخلت ہے۔ سفیر نے اپنے روایتی ریاستی بیانیے کو دہراتے ہوئے 25,000 حماس جنگجوئوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ،یہ فراموش کرتے ہوئے کہ خون میں لت پت ہزاروں بچو ں کے چہرے اور بھوک سے بلکتے لاکھوں انسانوں کی سسکیاں کسی بھی جھوٹے پرو پیگنڈ ے کے پردے میں نہیں چھپ سکتیں۔ یہ بیانیہ اس وقت اور زیادہ مشکوک ہو جاتاہے جب غزہ میں الجزیرہ کے پانچ صحافی قتل کر دیئے جاتے ہیں اورپرینکا گاندھی اس پر بھی کھل کر آواز بلند کرتی ہیں۔سفیر کی یہ بدزبانی محض ایک ذاتی ردعمل نہیں تھی بلکہ ایک منتخب عوامی نمائندے کی توہین اورہندوستانی جمہوریت کے استحقاق پر براہ راست حملہ تھا۔ کانگریس کے ترجمانوں نے ’ سپریا شرینتے،پون کھیرا، گورو گوگوئی اور شیو سینا کی پرینکا چترویدی‘ شدید ردعمل دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی سفیر کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان سے باضابطہ معافی لی جائے۔ پون کھیرا نے تو وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا اب ہندوستان میں آزادی اظہار کی حدود اسرائیل طے کرے گا؟ گورو گوگوئی نے اسے پارلیمانی استحقاق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ اگر مرکزی حکومت خاموش رہی تو پارلیمنٹ کو خود اس معاملے میں مداخلت کرنی ہوگی۔
یہ معاملہ محض الفاظ کی تلخی تک محدود نہیںہے۔ اس کے پیچھے وہ خونچکاں داستان ہے جو غزہ کی گلیوں میں روز لکھی جا رہی ہے۔ 60 ہزار انسانی جانیں ’جن میں ہزاروں بچے شامل ہیں‘مٹی میں ملا دی گئیں۔ 18 ہزار سے زیادہ معصوم زندگیاں ایک بے رحم جنگ کی نذر ہوئیں۔ سینکڑوں بھوک سے مر گئے اور لاکھوں اس خوفناک انجام کے قریب ہیں۔ یہ اعداد و شمار محض سیاسی پروپیگنڈا نہیں‘بلکہ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس سے ثابت شدہ حقائق ہیں۔

تاہم‘اس پورے قضیے کا سب سے زیادہ تشویشناک اور معنی خیز پہلو مودی سرکار کی برفانی خاموشی ہے۔ ایک غیر ملکی سفیر ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی رہنما اور رکن پارلیمنٹ کی سرعام تذلیل کرتا ہے اور حکومت کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔ یہ خاموشی محض سفارتی مصلحت نہیں‘بلکہ ایک گہری اور خطرناک نظریاتی قربت کا پتا دیتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت کے نزدیک ایک غیر ملکی ریاست کے مفادات کا تحفظ اپنے ہی ملک کے منتخب نمائندوں کے وقار سے زیادہ اہم ہے۔ یہ خاموشی اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا ہندوستان کی خارجہ پالیسی اب قومی مفاد کے بجائے ذاتی دوستیوں اور عالمی طاقتوں کی خوشنودی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے؟ اگر آج ایک سفیر کو ایک رکن پارلیمنٹ کو دھمکانے کی جرأت ہوئی ہے‘تو کل کوئی بھی ملک ہندوستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کو اپنا حق سمجھے گا۔ یہ معاملہ اب صرف پرینکا گاندھی یا کانگریس کا نہیں رہا‘ یہ 1.4 ارب عوام کے ملک کی عزت نفس اور اس کی جمہوری روح کا امتحان ہے۔ اگر حکومت نے اس سفارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب نہ دیا اور اس سفیر کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی‘تو تاریخ اسے قومی وقار کا سودا کرنے والی حکومت کے طور پر یاد رکھے گی۔تاریخ نے ہمیشہ یہ سبق دیا ہے کہ ظالم کے ساتھ خاموشی دراصل ظلم کا حصہ بن جانا ہے۔ جب ایک ریاست اپنے ہی نمائندوں کے حق میں آواز بلند نہیں کرتی تو وہ اپنی جمہوری روح کو کمزور کرتی ہے۔ اب فیصلہ ہندوستان کے ہاتھ میں ہے یا تو وہ اپنے جمہوری وقار کا دفاع کرے یا مصلحت کا لبادہ اوڑھ کر اس فہرست میں شامل ہو جائے جسے تاریخ شرمندگی کے باب میں محفوظ رکھتی ہے۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS