سراج الدین فلاحی
پچھلے دنوں ایک خبرآئی تھی کہ ہندوستان ڈیجیٹل کرنسی سے متعلق ایک بل (The Cryptocurrency and Regulation of Official Digital Currency Bill, 2021) لا رہاہے جس کے تحت نہ صرف بٹ کوائن جیسی دیگر کرپٹو کرنسیوں پر روک لگائی جائے گی بلکہ ہندوستان اپنی آفیشیل ڈیجیٹل کرنسی لانچ کرئے گا۔ کرپٹو کرنسی کوئی نیا خیال نہیں ہے، البتہ گزرے وقت کے ساتھ اس کی شہرت میں لگاتار اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کرپٹو ایک امبریلا ٹرم ہے۔ اس میں بہت ساری ڈیجیٹل کرنسیوں جیسے بٹ کوائن، ڈوز کوائن، ایتھیرئم (Ethereum) اور لبرا وغیرہ کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ بنیادی طور پر یہ ایک زر مبادلہ ہے جس طرح روپیہ، ریال، دینار اور ڈالر وغیرہ ہوتے ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسے کسی کاغذ یا دھات وغیرہ سے نہیں بنایا جاتا بلکہ اس کی تخلیق میں جو ٹیکنالوجی کارفرما ہے، اسے بلاک چین کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ ٹیکنالوجی ہر طرح کے ہیکنگ کے خطرات سے محفوظ ہوتی ہے۔ آپ کو تصویروں میں بٹ کوائن سے متعلق جو خوبصورت سکے نظر آرہے ہیں، بٹ کوائن یا کرپٹو کرنسی ایسی نہیں ہوتی۔ یہ ایک علامتی یا خیالی سکہ ہے۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ یہ کرنسی مکمل طور پر ڈی سینٹرلائزڈ ہوتی ہے یعنی اسے کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں ہوتا بلکہ یہ خود اپنے آپ کو کنٹرول کرتی ہے۔ ان کرنسیوں کو الیکٹرانک والیٹ میں اسٹور کیا جاتا ہے۔ الیکٹرانک والیٹ میں پرسنل اور پبلک دو طرح کے پاس وَرڈ ہوتے ہیں جن کی مدد سے کمپیوٹر، موبائل اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے اشیااور خدمات کی خریدوفروخت کی جاتی ہے۔ آپ یوں سمجھیں جیسے ہم اور آپ کیش کا لین دین کرتے ہیں یا کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح یہ بھی ایک کرنسی ہے جو ڈیجیٹل فارمیٹ میں ہوتی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ڈی سینٹرلائز ہوتی ہے اور اس کو فیزیکل یا کیش کی شکل میں لایا نہیں جا سکتا۔
ایلون مسک نے فروری میں اعلان کیا کہ انہوں نے 1.5 بلین قیمت کا بٹ کوائن خریدا ہے اور اب ان کی کمپنی ٹیسلا کی گاڑیاں بٹ کوائن میں بھی خریدی جا سکتی ہیں تو بٹ کوائن کی قدر بڑھ گئی۔ پچھلے ماہ انہوں نے یو ٹرن لے لیا تو اس کی قدر گر گئی یعنی کسی ملک کی حمایت سے اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور کسی کمپنی کے پابندی لگانے سے اس کی قدر زمین پر آجاتی ہے۔ ایسی غیر مستحکم اور غیر پائیدار کرنسی کو ابھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے ایک سال میں کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ تقریباً 1.9 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے، چنانچہ کرپٹو کرنسی کی بڑھتی شہرت نے اس وقت پوری دنیا کے مرکزی بینکوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب انہیں اپنی آفیشیل کرپٹو کرنسی لانی چاہیے۔ ملکوں کو اس بات کا خوف ستا رہا ہے کہ جب پرائیویٹ کمپنیاں سرکار اور مرکزی بینک کے متوازی اپنی اپنی کرنسیاں لائیں گی تو ایسے میں سرکاروں کا کیا رول رہ جائے گا؟ اگر وہ معیشت کوکنٹرول کرنا چاہیں گی تو کس طرح کنٹرول کریں گی؟ اس لیے دنیا کی بڑی معیشتوں کے سینٹرل بینک اپنی کرپٹو کرنسی لانے کے اشارے کر رہے ہیں۔ اس سمت میں چین نے پہل بھی کر دی ہے۔ اس کے مرکزی بینک رِی پبلک بینک آف چائنا نے پچھلے سال ہی پائلٹ پروجیکٹ شروع کر دیا تھا اور بٹ کوائن پر لگام لگا کر اپنی آفیشیل ڈیجیٹل کرنسی جاری کر دی تھی۔ امریکہ جو اس وقت پوری دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، چین کے اس عمل سے خوفزدہ ہے کہ ڈالر جو عالمی لین دین میں دنیا کی کسی بھی کرنسی سے زیادہ یعنی 62 فیصداستعمال ہوتا ہے اور دنیا کے تقریباً سبھی ممالک کے مرکزی بینک میں بطور ریزرو رکھا جاتا ہے، کہیں اس کی پوزیشن میں کمی نہ آجائے، اس لیے امریکہ نے اشارہ دیا ہے کہ اس کا مرکزی بینک فیڈرل ریزرو بھی اپنی ڈیجیٹل کرنسی لا رہا ہے۔ کرنسی کس روپ میں ہو گی، اس کے لیے مستقبل قریب میں وہ ایک ریسرچ پیپر جاری کرنے والا ہے۔
کرپٹو کرنسی پر دنیا اس وقت دو حصوں میں منقسم ہے۔ ٹیکنالوجی اور ایجادات کی دنیا میں بہت دنوں کے بعد ایسا پولرائزیشن دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہیں انٹر نیٹ کے بعد کرپٹو کرنسی موجودہ دنیا کی سب سے بڑی ایجاد لگتی ہے، ان کے نزدیک یہ کرنسی معیشت، سیاست اور بازار کو ہلا کر رکھ دے گی، کیونکہ یہ بینکنگ اور مالیاتی انتظامات کو از سر نو ڈیفائن کرے گی تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک یہ نہ صرف ایک فیشن ہے بلکہ ایک بہت بڑا فراڈبھی ہے۔ بل گیٹس سے لے کر سابق آر بی آئی گورنر رگھورام راجن نے کرپٹو کرنسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا استعمال غلط کاموں میں ہو سکتا ہے۔ اینڈریو بیلی گورنر بینک آف انگلینڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کسی کو اپناپیسہ ڈبونا ہے تو کرپٹو کرنسی خرید لے۔
سرکاروں کے لیے سر درد یہ بات ہے کہ اسے ریگولیٹ کیسے کیا جائے؟ کیونکہ ٹیکس سے بچنے کے لیے اس کی شکل میں پیسے چھپائے جا سکتے ہیں، غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی اس کا استعمال ہو سکتا ہے۔ گویا انڈیا سمیت دنیا بھر میں اس کرنسی کے تعلق سے ملے جلے اشارے آرہے ہیں۔جن کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے، وہ اس پر تذبذب کا شکار ہیں اور جو معاشی امور کے بڑے کھلاڑی ہیں، وہ اس کے لیے کوشاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے بعد جس طرح یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا انقلاب بتایا جا رہا ہے اور جس طرح بڑے بڑے ممالک اس میں ماتھا پچی کر رہے ہیں، اس سے ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دور میں اس سے مفر ممکن نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عوام کیا کریں؟ ہم اور آپ جیسے عام لوگوں کو اس کرنسی میں سرمایہ کاری کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا، کیونکہ گزشتہ ماہ جس طرح بٹ کوائن میں ایک بڑی گراوٹ درج کی گئی، اس سے ایسا لگتا ہے کہ اس کرنسی کی سب سے بڑی خامی اس کا بہت زیادہ غیر مستحکم ہونا ہے۔ ایک بٹ کوائن جس کی قیمت تقریباً 65 ہزار ڈالر تھی، وہ چند روز میں گھٹ کر 30 ہزار ڈالر پر آگئی۔ گراوٹ کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ چین نے اپنے عوام کے اثاثوں کی حفاظت کے پیش نظر کرپٹو کرنسی میں لین دین پر روک لگا دی۔ چین کا کہنا ہے کہ کرپٹو کرنسی سے فیئٹ (Fiat) کرنسی یعنی نوٹ وغیرہ کو خطرہ لاحق ہے۔ حالانکہ چین گزشتہ سال خود اپنی ڈیجیٹل کرنسی لانچ کر چکا ہے۔ گراوٹ کی دوسری وجہ ٹیسلا (Tesla) کمپنی کے مالک ایلون مسک کا وہ اعلان تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اب ان کی کمپنی بٹ کوائن میں ادائیگی نہیں لے گی۔ انہوں نے بٹ کوائن میں ادائیگی نہ لینے کی پیچھے جو وجہ بتائی تھی، وہ ماحولیات کا تحفظ تھی۔
ایلون مسک کا کہنا تھا کہ بٹ کوائن کی تخلیق میں توانائی کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا، جس کرپٹو کرنسی میں توانائی کی کھپت کم ہو گی، ہم اس میں ادائیگیوں کو قبول کریں گے۔ گویا کرپٹو کرنسیوں کی قدر میں اتار چڑھاؤ کی ایسی کوئی بنیاد نہیں ہے جس پر بھروسہ کیا جا سکے۔ ایلون مسک نے فروری میں اعلان کیا کہ انہوں نے 1.5 بلین قیمت کا بٹ کوائن خریدا ہے اور اب ان کی کمپنی ٹیسلا کی گاڑیاں بٹ کوائن میں بھی خریدی جا سکتی ہیں تو بٹ کوائن کی قدر بڑھ گئی۔ پچھلے ماہ انہوں نے یو ٹرن لے لیا تو اس کی قدر گر گئی یعنی کسی ملک کی حمایت سے اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور کسی کمپنی کے پابندی لگانے سے اس کی قدر زمین پر آجاتی ہے۔ ایسی غیر مستحکم اور غیر پائیدار کرنسی کو ابھی سمجھنے کی ضرورت ہے اور جب تک اسے اچھی طرح نہ سمجھ لیں، اس سے دور رہنا بہتر ہے، کیونکہ کرپٹو سے متعلق بے شمار ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات آنے ابھی باقی ہیں۔ ٭٭٭