الیکٹرک گاڑیوں کی مشکل ڈگر

0

سنجے ورما

گاڑیوں میں پٹرول-ڈیژل کے استعمال سے بڑھتی آلودگی کی تشویش نے دنیا کو جن متبادل کی طرف بڑھنے کے لیے راغب کیا ہے، ان میں بجلی سے چلنے والی کاروں اور بسوں نے سب سے زیادہ توجہ مبذول کرائی ہے۔ خاص طور سے کہا جارہا ہے کہ اگر پرائیویٹ طور پر کاریں استعمال کرنے والے کسٹمرس کو ہی الیکٹرک کاروں کی جانب موڑا جاسکا، تو اس سے عالمی درجہ حرارت اور آب و ہوا تبدیلی جیسے مسائل کے حل کی راہ بھی کھل سکتی ہے۔ ابھی تک بجلی سے چلنے والی کاروں کا مطالبہ ایک ماحولیاتی مسئلہ تھا، لیکن پٹرول-ڈیژل کی بڑھتی قیمتوں نے کاروں کے عام کسٹمرس کو اس متبادل پر سنجیدگی سے سوچنے کے لیے مجبور کردیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ تقریباً پوری دنیا میں صارف بجلی یا ہائیڈروجن سے چلنے والی کاروں کے بارے میں پوچھ گچھ کررہے ہیں۔ ادھر، حکومتیں بھی گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں اور کسٹمرس کو بطور گرانٹ کئی طرح کی رعایتیں دے کر انہیں یہ متبادل آزمانے کے لیے حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا بجلی سے چلنے والی کاروں کو لے کر پیدا ہوئی دیوانگی کی کوئی ٹھوس زمین بھی ہے یا یہاں بھی سارا معاملہ اڑن کاروں جیسا ہوا ہوائی ہی ہے؟
گزشتہ کچھ وقت میں پرائیویٹ طور پر کار خریدنے والے کسٹمرس میں بجلی سے چلنے والی کاروں کے تئیں دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ اسی سال جولائی میں کرائے گئے موبیلیٹی کنزیومر انڈیکس(ایم سی آئی) سروے میں 13ممالک کے 9ہزار امیدواروں میں سے 40فیصد نے کہا تھا کہ اگر انہیں بجلی سے چلنے والی گاڑی خریدنے کا متبادل ملتا ہے تو پٹرول-ڈیژل سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلہ میں وہ 20فیصد زیادہ رقم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان 9ہزار امیدواروں میں سے ایک ہزار ہندوستانی تھے۔ سروے کے مطابق ہندوستان میں 10میں سے 3کار خریداروں کی رائے یہ ہے کہ وہ بجلی سے چلنے والی کار خریدنا پسند کریں گے، بشرطیکہ انہیں اس سے متعلق مضبوط بنیادی ڈھانچہ ملے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کاریں ایک مرتبہ چارج کرنے کے بعد 100سے 200میل تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلنے کی گارنٹی دے سکیں، تو انہیں اس کے لیے کچھ زیادہ رقم ادا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کم ہوتی قیمت اور مضبوط بنیادی ڈھانچہ- یہ دو ایسی یقین دہانیاں ہیں جو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے تعلق سے صارفین کے نظریہ اور رویہ میں تبدیلی لارہی ہیں۔ حالاں کہ اس میں بھی زیادہ بڑا کردار معاشی ہے۔ پٹرول-ڈیژل کی مہنگائی سے بے حال کسٹمرس چاہتے ہیں کہ انہیں ایسی گاڑیاں ایک متبادل کے طور پر ملیں، جن میں کہیں آنے جانے کا ان کا خرچ تقریباً اتنا ہی ہو، جتنا انہیں اسکوٹر یا موٹرسائیکل پر خرچ کرنا پڑتا رہا ہے۔ خاص طور سے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے صارفین کا طبقہ پٹرول کی روزانہ بڑھتی قیمتوں کی فکر سے آزاد ہونا چاہتا ہے، بھلے ہی اسے ایک مرتبہ بجلی سے چلنے والی کار پر زیادہ رقم کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔
بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی جانب بڑھنے کے لیے دی جانے والی دلیلیں بہت ہی سیدھی اور واضح ہیں، جن میں بڑھتی فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنا اور توانائی کی حفاظت کے چیلنجز(معدنی تیل کی درآمد پر انحصار) وغیرہ فیکٹر شامل ہیں۔ حالاں کہ الیکٹرک گاڑیوں کو وسیع پیمانہ پر اپنائے جانے کے راستہ میں ابھی بھی کئی رکاوٹیں ہیں۔ ایسے میں ٹرانسپورٹ سیکٹر کی اس بڑی تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر حکومت کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ ہندوستان میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو جن چیلنجز کو پورا کرنا ہے، وہ بہت جانے پہچانے ہیں۔ جیسے پہلا مسئلہ بیٹری چارج کرنے کا ہے۔ گھروں پر تو انہیں آسانی سے چارج کیا جاسکتا ہے، لیکن سڑکوں پر انہیں چارج کرنے کی سہولتیں ابھی برائے نام کی ہیں۔ ایسے چارجنگ اسٹیشن گنتی کے ہی ہیں اور پٹرول پمپ کے مقابلہ میں یہ نہ کے برابر ہی ہیں۔ اس کے بعد دقت یہ ہے کہ ابھی لوگوں کو الیکٹرک کاروں پر اس بات سے متعلق زیادہ یقین نہیں ہے کہ ایک مرتبہ چارج کیے جانے کے بعد جتنے کلومیٹر کے سفر کا دعویٰ کمپنیاں کرتی ہیں، یہ کاریں حقیقت میں اتنی دوری طے کربھی سکتی ہیں یا نہیں۔
ان دقتوں کے باوجود بجلی سے چلنے والی کاروں کے لیے کچھ صارفین زیادہ قیمت دے سکتے ہیں، لیکن زیادہ تر کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کاروں کی قیمت پٹرول-ڈیژل کاروں کے مقابلہ ڈیڑھ سے دو گنا تک زیادہ ہے۔ اس کا سبب ان میں استعمال ہونے والی لیتھیم بیٹری ہے، جس کی قیمت کار کی حقیقی قیمت کا چالیس فیصد تک ہوتی ہے۔ مسائل کی فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ پڑوسی ملک چین کے ساتھ ہمارے تعلقات میں اُتارچڑھاؤ بھی ان دقتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ اصل میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے جس لیتھیم بیٹری اور کل پرزوں کی ضرورت ہے، اس کے لیے ہندوستان بڑے پیمانہ پر چین سے ہورہی درآمد پر منحصر ہے۔ ایسے میں اگر چین اس درآمد پر پابندی عائد کرتا ہے تو ان کاروں کی مینوفیکچرنگ اور سپلائی فوراً متاثر ہوسکتی ہے۔ ایک اور بڑا رخنہ ملک میں بجلی کی بڑھتی ڈیمانڈ کے مقابلہ سپلائی میں آنے والی ممکنہ کمی کا ہے۔ ایسے میں اگر کسی وجہ سے کوئلہ کی پیداوار میں کمی آئی اور الیکٹرک کاروں وغیرہ کے سبب بجلی کی ڈیمانڈ میں تیزی سے اضافہ ہوا تو بجلی کی پیداوار اور ڈیمانڈ-سپلائی کا توازن گڑبڑا سکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے بجلی کٹوتی ہوتی ہے تو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو سڑک پر دوڑانا ممکن نہیں ہوپائے گا۔ ملک کے زیادہ تر دیہی اور قصبائی علاقوں میں ابھی بھی بجلی کا بحران دور نہیں ہوا ہے۔ ایسے میں دیہی اور قصبائی علاقوں میں الیکٹرک کاروں کا بازار بن پانا آسان نہیں ہے۔
ویسے حکومت بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو بڑھاوا دینے کی مسلسل کوششیں کررہی ہے۔ ماحولیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے علاوہ پٹرول-ڈیژل کی درآمد پر انحصار کم کرنے کے مقصد سے کئی سطحوں پر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو بڑھاوا دینے کی پالیسی پر عمل بھی شروع کردیا ہے۔ حال میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر جی ایس ٹی کی شرح 12سے کم کرکے 5فیصد کردی ہے۔ اس معاملہ میں حکومت کی دو دیگر پالیسیاں بھی قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے ایک فیم انڈیا اسکیم ہے جسے موجودہ برس سے نافذ کیا گیا ہے۔ فاسٹر ایڈاپشن اینڈ مینوفیکچرنگ آف ہائی برڈ اینڈ الیکٹرک وہیکل اِن انڈیا(فیم انڈیا) کے تحت مقصد پٹرول اور ڈیژل سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد کو کم کرنا ہے۔ دوسری اسکیم پیداوار سے وابستہ حوصلہ افزائی(پی آئی ایل) کی ہے، جس میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو تیزی سے اپنانے کے راستہ میں آرہی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن اس منظرنامہ میں جس ایک محاذ پر ہماری نظر جانی چاہیے، وہ ایشو اوجھل ہوتا جارہا ہے۔ اصل میں اس پوری بحث میں پبلک ٹرانسپورٹ کا متبادل چرچا سے باہر ہوگیا ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ اسے جان بوجھ کر باہر کیا جارہا ہے تاکہ لوگ ذاتی کاروں کی جانب جائیں۔ اس سے گاڑی بنانے والی کمپنیوں کو مدد ملے گی، حکومت کے ریونیو میں اضافہ ہوگا اور خریداری میں اضافہ سے روزگار پیدا ہونے میں مدد ملنے پر حکومت کا سردرد بھی کم ہوگا۔ سرکار اعدادوشمار میں یہ دِکھا سکے گی کہ اس کی کوششوں کے دم پر ملک میں نوجوانوں کے لیے کتنے فیصد نوکریاں پیدا ہوئیں۔ اس لیے قابل غور یہ ہے کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو بڑھاوا دینے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ کیا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو درست کرنے کی کوششیں نہیں ہونی چاہئیں؟
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS