کیا مقتولہ ڈاکٹر ابھیاکو انصاف ملا؟

0

9 اگست 2024 کا دن ہندوستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر رقم ہوا۔ کولکاتا کے آر جی کر میڈیکل کالج و اسپتال کے سمینار ہال میں ایک 31 سالہ خاتون ڈاکٹر ابھیا(مفروضہ نام) کی نیم عریاں لاش برآمد ہوئی۔ جس کے جسم پر تشدد کے واضح نشان تھے اور آنکھوں،منہ اور جنسی اعضا سے خون بہہ رہا تھا۔ ابتدا میں پولیس نے اسے خودکشی قرار دینے کی کوشش کی،مگر پوسٹ مارٹم کے بعد حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ وہ محض ایک افسوسناک حادثہ نہیں بلکہ ایک بھیانک قتل تھا جس میں درندگی کا عنصر بھی شامل تھا۔ اس کے بعد ایک شہری رضاکارسنجے رائے کو گرفتار کر لیا گیا اور سی بی آئی نے تحقیقات شروع کی۔ کل20جنوری 2025کو عدالت نے اس ایک ملزم کو مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی،لیکن اس فیصلے کے ساتھ ہی کئی ایک سوال سامنے آئے ہیں کہ کیا اس سنگین جرم میں صرف ایک ہی مجرم تھا؟ اور کیا ابھیاکو انصاف مل سکا؟

ابھیاکا قتل نہ صرف ایک درندہ صفت عمل تھا بلکہ یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس نے پورے عدلیہ،پولیس اور تفتیشی نظام کی ساکھ کو چیلنج کیا۔ اس کیس میں شواہد کا چھپایا جانا،تفتیش کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا اور شفافیت کی کمی نے عوام میں ایک شدید بے چینی پیدا کر دی۔ سب سے پہلے کولکاتا پولیس نے اس واردات کو خودکشی قرار دے کر معاملہ ٹالنے کی کوشش کی،لیکن جب پوسٹ مارٹم رپورٹ نے اس کے برخلاف بیان دیا تو تفتیش کا آغاز ہوا۔ لیکن پھر جو کچھ سامنے آیا،وہ نہ صرف قانون کی حکمرانی بلکہ اخلاقی اصولوں پر بھی سوالات اٹھانے کیلئے کافی تھا۔

سی بی آئی کی تحقیقات میں متعدد پیچیدگیاں سامنے آئیں۔ جن دنوں میں سنجے رائے کو گرفتار کیا گیا،اس دوران پولیس اور تفتیشی اداروں کی جانب سے اس بات کی کوشش کی گئی کہ اہم شواہد کو نظرانداز کر دیا جائے یا ان میں تحریف کی جائے۔ ان تمام معاملات میں سب سے زیادہ قابل غور پہلو یہ تھا کہ اس افسوسناک واردات کے فوراً بعد معلومات کو چھپانے اور تلف کرنے کا عمل اس قدر مرتب اور چالاکی سے کیا گیا کہ کسی کو اس پر شبہ تک نہیں ہوا۔ اس بات کی کھوج لگانے کے باوجود کہ کس نے ان اقدامات کو ترتیب دیا،کبھی کسی ادارے یا ذمہ دار شخص کی جانب سے شفاف تحقیقات نہیں کی گئیں۔

پولیس کی غفلت اور تفتیشی اداروں کی بے بسی اس واقعہ کو ایک المیہ میں بدل دیتی ہے۔ جب ابھیاکے والدین کو کئی گھنٹے تک اپنی بیٹی کی لاش سے دور رکھا گیا،جب انہیں اجازت نہ دی گئی کہ وہ اپنی بیٹی کی آخری رسومات میں شریک ہو سکیںاور جب شواہد کی تباہی کے باوجود تحقیقات میں کوئی سنجیدگی دکھائی نہ دی،تو یہ سوالات اٹھنا فطری تھا کہ آیا کوئی حقیقتاً اس قتل کے پیچھے ملوث دیگر افراد کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا؟ کیا اس بے گناہ ڈاکٹر کی موت کے پیچھے کسی سیاسی،سماجی یا انتظامی ہاتھ کا ملوث ہونا ممکن تھا؟

سی بی آئی نے جب اس کیس کی تحقیقات کی،تو بہت ساری اہم باتوں کو نظرانداز کر دیا گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں اس رات کے دوران اسپتال کے مختلف افراد کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی،لیکن ان افراد کو تفتیش میں شامل نہیں کیا گیا۔ مزید یہ کہ متعدد ڈی این اے شواہد ملنے کے باوجود ان افراد کا تجزیہ نہیں کیا گیااور ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ سنجے رائے کے خلاف چارج شیٹ میں ان شواہد کا ذکر تک نہیں کیا گیا جو اس کی گواہی کے خلاف موجود تھے۔ ان تمام خامیوں کے باوجود،سی بی آئی کی تحقیقات میں تسلسل کی کمی اور شفافیت کی شدید کمی سامنے آئی۔ یہ سب اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شاید کوئی بہت بڑی قوت اس تفتیش کو برباد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

ابھیاکا قتل ایک ایسے نظام کی ناکامی کی علامت بن چکا ہے جہاں نہ صرف عدلیہ،بلکہ تفتیشی اداروں کی بھی مکمل عدم کارکردگی دیکھنے کو ملی۔ کیا عدالت کا ایک فرد کو سزا دینا اس بات کا ثبوت بن سکتا ہے کہ اس پورے معاملے میں انصاف کا دروازہ کھلا؟ کیا ابھیاکی مظلومیت اور اس کا قتل اتنی آسانی سے محض ایک مجرم کے احتساب سے حل ہو سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انصاف تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ اس واقعہ میں ملوث ہر شخص کو بے نقاب اور سزا نہ دی جائے۔ اگر چارج شیٹ میں کسی ایک فرد کے خلاف شواہد ہیں تو دوسرے مشتبہ افراد کو تفتیش میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ اور کیا ان تمام شواہد کو دھیان میں لاتے ہوئے سی بی آئی نے جان بوجھ کر ایک مخصوص شخص کو ہی ملوث قرار دیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ابھیاکے والدین اور عوام کے ذہنوں میں اب بھی گردش کر رہے ہیں۔

ابھیاکی عصمت دری اور قتل کے اس سنگین واقعہ نے نہ صرف ہندوستان کے تفتیشی نظام کی قلعی کھول دی بلکہ اس نے عدلیہ کی حیثیت اور اس کے نظام پر بھی سوالات اٹھا دیے۔ اس قتل کا جو منظر سامنے آیا،وہ ایک نظام کی ناکامی کا غماز تھا جس میں نہ صرف مجرموں کو چھپایا گیا بلکہ مقتولہ کی آخری رسومات تک میں غیر قانونی طریقے اپنائے گئے۔ ابھیاکو انصاف ملنے کا سوال اس بات پر منحصر ہے کہ ہم انصاف کے پورے عمل کو کتنی ایمانداری اور دیانتداری سے پورا کرتے ہیں۔ کیا ہم صرف ایک شخص کی سزا سے دل کو تسلی دے کر اس کیس کو بند کر دیں گے؟ یا ہمیں حقیقت کی گہرائی میں جا کر اس مجرمانہ سازش کے اصل عوامل کو بے نقاب کرنا ہو گا؟

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS