خدا کے وجود و عدم وجود کی مناظرانہ گفتگو اور اس کے اثرات: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

اس کائنات کا مالک خدا ہے۔ جو لوگ انیبا و رسل کے طویل سلسلہ پر یقین رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک خدا کا وجود نہ ہو تو اس کائنات کا بے مطلب ہونا اس قدر واضح ہوگا کہ شتر بے مہار کا محاورہ بھی اس کے بے ڈھنگے پن کو بیان کرنے کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ اس دنیا کا سارا نظام الٹ پلٹ جائے گا۔ نہ سورج اپنا کام وقت پر کرے گا اور نہ سیارے اپنے اپنے محور پر پورے اتقان کے ساتھ گردش کریں گے، نہ گرمی و سردی کا توازن باقی رہے گا اور نہ صبح و شام ایک خاص اندازے اور منطقی ترتیب کے ساتھ صدیوں سے کام کرتے نظر آئیں گے۔ اہل ایمان کے نزدیک یہ مسئلہ کبھی رہا ہی نہیں کیونکہ خدا کا عدم وجود ان کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ محال جتنا کہ ارباب عقل و منطق کے نزدیک خدا کا وجود محال ہے۔ دنیا کی اکثر آبادی خواہ وہ کسی بھی طرز فکر و عمل کی عادی ہو خدا کے وجود پر یقین رکھتی ہے۔ خود ہمارا ملک ہندوستان ایمان و یقین اور خدا بلکہ خداں کی کثرت کے لئے مشہور ہے۔ لیکن اس ملک میں بھی ایسی مٹھی بھر جماعت ضرور موجود ہے جو اس بات کا دعوی کرتی ہے کہ ان کے مطابق خدا کا وجود نہیں ہے۔ بالی ووڈ کی معروف شخصیت، نغمہ نگار اور شاعر، فلم اسکرپٹ رائٹر جاوید اختر ان چہروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنے کیریئر میں دانشوری کا سارا اثاثہ ہی اس بنیاد پر اکٹھاکیا تھا کہ وہ لبرل فکر کے آزاد منش انسان ہیں اور وہ انسانیت کے علمبردار ہیں کیونکہ وہ کسی بھی خدا کے وجود کے قائل نہیں ہیں بلکہ صرف انسان اور انسانی نظام کی بہتری کے قائل ہیں۔ اسی وجہ سے جاوید اختر کی زبان ہمیشہ خدا کے تعلق سے اچھی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اس میں بھی دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان کی زبان درازی کا شکار عموما اسلام، مسلمان اور علما ہوا کرتے تھے۔ ہندوستان کے بے ضمیر اور غیر پیشہ ورانہ طرز عمل کے حامل ان صحافی حضرات کی آنکھوں کا تارا بھی جاوید اختر اسی لئے بنے ہوئے تھے کیونکہ ان کا اسلاموفوبیا اور جاوید اختر کی دانشورانہ بے ایمانی میں ایک قسم کا میل اور تطابق پایا جاتا تھا۔ جاوید اختر کی بے ایمانی کی اس سے زیادہ واضح مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے نشانہ پر ہمیشہ مسلمان ہی ہوتے تھے۔ شاید انہیں اندازہ تھا کہ اسلام مخالف موقف اختیار کرنے سے ان کو زیادہ مقبولیت مل جائے گی اور ہر جگہ ان کا استقبال ہوگا۔ ان کا یہ اندازہ درست بھی ثوبت ہوا۔ ان کی دانشوری کا چرچہ سر چڑھ کر بولتا رہا۔ علما کا طبقہ ان کی نظر میں اس قدر بے علم اور بے حیثیت سمجھا جاتا تھا کہ ان کے بارے میں مہذب زبان تک استعمال کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کو خود فریبی کا مرض لاحق ہو گیا تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ اپنی خود فریبی کی اسی دنیا میں مگن تھے کہ ان کے پاس مفتی شمائل ندوی اور یاسر ندیم الواجدی جیسے نوجوان علما کی دعوت آئی کہ وہ خدا کے وجود اور عدم وجود پر ایک مناظرہ کرلیں تاکہ عام انسانوں کے لئے کم سے کم یہ مسئلہ واضح ہوجائے اور خود جاوید اختر کا موقف ہر خاص و عام فرد تک پہونچ جائے۔ ماضی میں بھی ایسی دعوتیں جاوید اختر کو پہونچی تھیں لیکن انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ وہ علما کو قابل اعتنا نہ سمجھتے ہوئے اس دعوت کو قبول نہیں کر رہے تھے یا پھر اپنے دل کی گہرائی میں وہ اپنی اس حقیقت سے واقف تھے کہ ان کے پاس علمی دلائل اتنے مضبوط اور منطقی نہیں ہیں کہ وہ خدا کے عدم وجود کو واضح طور پر ثابت کر سکیں۔
معاملہ جو بھی ہو اس کا صحیح علم تو جاوید اختر کے پاس ہی ہو سکتا ہے۔ البتہ اچھی بات یہ رہی کہ جاوید اختر نے اس بار مناظرہ کی دعوت کو قبول کر لیا۔ یہ مناظرہ خالص علمی ماحول میں مہذب طریقہ سے انجام پایا اور ایک بات صاف ہوگئی کہ جاوید اختر یا ان جیسے لوگ خدا کے عدم وجود کے قائل تو ضرور ہیں لیکن ان کے پاس اس دعوی کی کوئی علمی اور منطقی دلیل نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ جذباتی دلائل کے سہارے کسی موہوم مثالی دنیا کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور خدا سے بغاوت کرکے اینگری ینگ مین کا کردار نبھا رہے ہیں۔ کیونکہ اس پورے مناظرہ کے دوران ایک بات تو صاف ہوگئی کہ جاوید اختر کا علم گہرا اور دلائل سے مزین قطعا نہیں ہے۔ وہ عوام یا نیم خواندہ لوگوں کے جذبات کو اپیل تو کر سکتے ہیں لیکن علم و منطق کی کسوٹی پر اگر ان کے دلائل کو ناپا جائے تو وہ اتنے بے وزن ثابت ہوتے ہیں کہ ان کو سرے سے دلیل تصور کرنا بھی علم کے شایان شان نہیں ہے۔ اس مناظرہ سے ایک فائدہ مزید یہ ہوا کہ میڈیا نے علما اور مدارس کی امیج کو برسوں کی محنت سے جو خراب کیا تھا اس کی قلعی کھل گئی۔ دنیا کو یہ اندازہ ہوا کہ مدارس میں سنجیدہ تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام موجود ہے۔ وہاں کے اساتذہ اپنے شاگردوں میں علم و شعور اور فکری اعتدال کے ساتھ ساتھ یہ ہنر بھی سکھاتے ہیں کہ اپنے فکری حریف تک سے سلیقہ و ادب کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔ ہندوستان کے غیر پیشہ ور میڈیا اسٹوڈیوز میں علما کی جو شبیہ زر خرید مولوی نما اوباشوں کے ساتھ ڈیبیٹ کرکے بنائی گئی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس مناظرہ کے بعد خود مسلمانوں کی آنکھیں کھلی ہیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ اس کا پورا امکان ہے کہ عام مسلمان اپنے بچوں کو علم دین سے آراستہ کرنے کی طرف متوجہ ہوں گے اور ان اسلام پر جاری یلغاروں سے پریشان ہونے کے بجائے پوری ایمانی قوت اور صبر و ضبط کے ساتھ ان کے علمی جواب دینے کے لئے تیاری کریں گے۔ اس کی بھی توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ جاوید اختر کا کھوٹا سکہ خدا بیزاری کے بازار میں اپنی قیمت بحال نہیں کر پائے گا اور نہ ہی اب وہ میڈیا کی نظر میں چہیتے رہیں گے۔ انصاف و اعتدال کے اصول پر جس موقف کی بنیاد قائم نہ ہوئی ہو اس کا آخری انجام اسی قسم کی منزل ہوتی ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS