پنکج چترویدی
مدراس ڈائبیٹیز ریسرچ فاؤنڈیشن اور آئی سی ایم آر کے کلینیکل ٹرائل میں انکشاف ہوا ہے کہ چپس، کوکیز، کیک، فرائڈفوڈس اور مایونیز جیسی چیزوں کے استعمال سے ذیابیطس کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ الٹراپروسیسڈ فوڈ کی وجہ سے ہندوستان پوری دنیا میں ذیابیطس کی راجدھانی بنتا جارہا ہے۔ ہندوستان کی تقریباً 8.29کروڑ کاروباری آبادی کا 8.8فیصد حصہ ذیابیطس کا شکار ہے۔ اندازہ ہے کہ 2045تک یہ تعداد 13کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ واضح ہو کہ یہ وہ دور ہوگا جب ملک میں معمرافراد کی تعداد بھی بڑھے گی۔ ذیابیطس ویسے تو خود میں ایک بیماری ہے لیکن اس کی وجہ سے جسم کے کھوکھلا ہونے کا جو عمل شروع ہوتا ہے اس سے مریضوں کی جیب بھی کھوکھلی ہورہی ہے اور ملک کے انسانی وسائل کی کام کرنے کی صلاحیت پر برعکس اثر پڑرہا ہے۔
جان کر حیرت ہوگی کہ گزشتہ ایک سال میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ہندوستان کے لوگوں نے ذیابیطس یا اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر سوا 2لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے جو کہ ہمارے کل سالانہ بجٹ کا 10فیصد ہے۔ گزشتہ دو دہائی کے دوران اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی تعداد میں 65فیصد اضافہ ہونا بھی کم تشویشناک نہیں ہے۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ عام لوگوں کے صحت خرچ کے ساتھ ساتھ لوگوں کی کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرنے والا یہ مرض فی الحال میڈیکل ورلڈکے لیے محض کمائی کا ذریعہ ہے۔ درجنوں قسم کے ڈائبیٹیز مانیٹر، ہزاروں قسم کی آیورویدک ادویات اور نسخے ہر روز فروخت ہورہے ہیں۔ لندن میں اگر کسی کنبہ کے ممبر کو ذیابیطس ہے تو پوری فیملی کا علاج حکومت کی طرف سے مفت ہے، بلڈسیمپل لینے والا اور دوا گھر پہنچتی ہے، ڈاکٹر آن لائن رپورٹ دیکھتا ہے۔ نہ کسی لائن میں کھڑے ہونا اور نہ پیسے کی پروا۔ اس کے برعکس ہندوستان میں ذیابیطس کے مریضوں کے حوالہ سے کوئی حساس نظریہ ہی نہیں ہے۔ مریض کو زیادہ سے زیادہ دوا دینا اور پھر آگے چل کر اور زیادہ دوا دینے کی پالیسی پر پورا نظام منحصر ہے۔
ایک اندازہ کے مطابق ایک ذیابیطس کے مریض کو اوسطاً 4200سے 5000روپے دوا پر خرچ کرنے ہوتے ہیں۔ پہلے ذیابیطس، عارضہ قلب وغیرہ کھاتے پیتے یا امیر لوگوں کی بیماری سمجھے جاتے تھے لیکن اب یہ مرض گاؤں والوں، غریب بستیوں اور تیس سال تک کے نوجوانوں کو شکار بنارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ذیابیطس طرززندگی کے بگڑنے سے پیدا ہونے والا مرض ہے، تبھی بے روزگاری، بہتر مادّی خوشی(Better physical well-being)شامل کرنے کے لیے اندھی دوڑ تو خون میں شکر کی مقدار بڑھا ہی رہی ہے، غذائیت کی کمی، ناقص معیار والا سڑک چھاپ اور پیکڈ فوڈ بھی اس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا بڑا فیکٹر ہے۔
بدلتا طرززندگی کیسے ذیابیطس کو دعوت دیتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال لیہہ-لداخ ہے۔ زبردست پہاڑی علاقہ، لوگ خوب پیدل تھے، روزی کمانے کے لیے خوب محنت کرنی پڑتی تھی لہٰذا لوگ کبھی بیمار نہیں ہوتے تھے۔ گزشتہ کچھ دہائی میں وہاں باہری اثر اور سیاح بڑھے۔ ان کے لیے گھر میں پانی کی سپلائی کے نظام والے پکے مکان بنے۔ باہری دخل کے سبب یہاں اب چینی یعنی شوگر کا استعمال ہونے لگا اور اسی کا برااثر ہے کہ مقامی معاشرہ میں اب ذیابیطس جیسے مرض گھر کررہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح اپنے کھانے کے وقت، مقدار، سامان میں ماحول و جسم کی ڈیمانڈ کے مطابق تال میل نہ بیٹھا پانے کی وجہ سے ہی امیر اور سب سہولیات سے ممیز خوشحال طبقہ کے لوگ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔
دوا کمپنی سنوفی انڈیا کے ایک سروے میں یہ خوفزدہ کرنے والے حقائق سامنے آئے ہیں کہ ذیابیطس کی زد میں آئے لوگوں میں سے 14.4فیصد کو کڈنی اور 13.1کو آنکھوں کی روشنی جانے کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ اس بیماری کے شکار لوگوں میں 14.4فیصد مریضوں کے پیروں کی شریانیں جواب دے جاتی ہیں جس سے ان کے پیر خراب ہوجاتے ہیں۔ وہیں تقریباً 20فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح کی دل کی بیماری کی زد میں آجاتے ہیں۔ ذیابیطس والوں کے 6.9فیصد لوگوں کو نیورو سے متعلق دقتیں بھی ہوتی ہیں۔
یہ حقائق مثال ہیں کہ ہندوستان کو خون کی مٹھاس بری طرح کھوکھلا کررہی ہے۔ ایک تو امریکن اسٹینڈرس آرگنائزیشنز نے ہندوستان میں خون میں شوگر کی مقدار کو کچھ زیادہ درج کروایا ہے جس سے پری-ڈائیبیٹیز والے بھی اس کی دوائیں لینا شروع کردیے ہیں۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ایک بار ذیابیطس ہوجانے پر مریض کو زندگی بھر دوائیں کھانی پڑتی ہیں۔ شوگر کنٹرول کے ساتھ ساتھ بلڈپریشر اور کولیسٹرول کی دواؤں کو لینا عام بات ہے۔ کڈنی کو بچانے کی دوا بھی لینی پڑتی ہے۔ جب اتنی دوائیں لیں گے تو پیٹ میں بننے والی تیزابیت کو ختم کرنے کے لیے بھی ایک دوا ضروری ہے۔ جب تیزابیت کو ختم کرنا ہے تو اسے کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ملٹی وٹامن ضروری ہے۔ ایک ساتھ اتنی دواؤں کے بعد لیور پر تو اثر پڑے گا ہی۔ اس میں شوگر ناپنے والی مشینوں اور دیگر پیتھلوجیکل ٹیسٹ کو تو جوڑا ہی نہیں گیا ہے۔
المیہ ہے کہ ملک کے دوردراز علاقوں کی بات تو جانے دیں، دارالحکومت یا میٹروپولیٹن سٹیز میں ہی ہزاروں ایسے لیب ہیں جن کی جانچ کی رپورٹ مشتبہ رہتی ہے۔ پھر سنگین بیماریوں کے لیے پردھان منتری آروگیہ یوجنا کے تحت 5لاکھ تک کے علاج کے مفت نظام میں ذیابیطس جیسے امراض کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ صحت خدمات کی خستہ حالی کی مثال حکومت کی سب سے پریمیم ہیلتھ اسکیم سی جی ایچ ایس یعنی سینٹرل ایمپلائز ہیلتھ سروسز ہے، جس کے تحت صحافی، سابق ممبران پارلیمنٹ وغیرہ بھی آتے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت رجسٹرڈ لوگوں میں چالیس فیصد ذیابیطس کے مریض ہیں اور وہ ہر ماہ صرف مستقل دوا لینے جاتے ہیں۔ ایک مریض کی اوسطاً ہر دن کی پچاس روپے کی دوا۔ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور اسے کسی اسپیشلسٹ کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ اسپیشلسٹ یعنی کسی اسپتال میں پھر قطار میں لگنا۔ اسپیشلسٹ کوئی جانچ لکھتا ہے اور مریض کو پھر سے اپنی ڈسپنسری میں آکر جانچ کو انڈورس کروانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کے اگلے دن خالی پیٹ جانچ کروانی ہوتی ہے۔ اگلے دن رپورٹ ملتی ہے اور وہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس اسے لے کر جاتا ہے۔ اب اسے جو دوائیں لکھی جاتی ہیں اسے لینے اسے پھر ڈسپنسری آنا ہوگا۔ اگر ان میں کچھ دوائیں دستیاب نہیں ہوں تو دو دن بعد پھر انڈینٹ میڈیسن لینے ڈسپنسری جانا ہوگا۔ ایمانداری سے تو ذیابیطس کے مریض کو ہر ماہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ مذکورہ عمل میں کم سے کم پانچ دن، لمبی قطاریں جھیلنی ہوتی ہیں۔ جو کہ مریض کی نوکری سے رخصت یا دیر سے پہنچنے کے تناؤ میں اضافہ کرتی ہیں۔ بہت سے مریض اس سے گھبرا کر مستقل جانچ بھی نہیں کرواتے۔ ضلع سطح کے سرکاری اسپتالوںمیں تو جانچ سے لے کر دوا تک کے سب اخراجات مریض کو خود ہی برداشت کرنے ہوتے ہیں۔
آج ہندوستان ذیابیطس کے حوالہ سے بے حد خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس پر حکومت الگ سے کوئی پالیسی بنائے، جس میں جانچ، دواؤں کے لیے کچھ کم تناؤ والا نظم ہو۔ وہیں اسٹیم سیل سے ذیابیطس کے مستقل علاج کا خرچ محض سوا سے 2لاکھ ہے لیکن سی جی ایچ ایس میں یہ علاج شامل نہیں ہے۔ واضح رہے اسٹیم سیل تھیریپی میں بون میرو یا ایڈی پیس سے اسٹیم سیل لے کر علاج کیا جاتا ہے۔ اس علاج کے طریقہ کو زیادہ مقبولیت اور حکومت کی مختلف اسکیموں میں شامل کیا جائے تو بیماری سے نبردآزما لوگوں کے لیے بڑا قدم ہوگا۔ بازار میں ملنے والے پیکڈ اور حلوائی کی دکانوں کے سامان کی سخت جانچ، ملک میں یوگ یا ورزش کو بڑھاوا دینے کی اور زیادہ کوششیں نوجوان آبادی کی کام کرنے کی صلاحیت اور اس بیماری سے بڑھتی غربت کے حل میں مثبت قدم ہوسکتے ہیں۔
[email protected]