ذو الحجہ : فضیلت اورعظمت والامہینہ

0

مولانا ندیم احمد انصاری

ذو الحجہ کے مہینے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر متعدد مخصوص اعمال عائد کیے ہیں، جن میں سب سے اہم ’حج ‘ہے، جس کی مناسبت سے اس مہینے کا نام ہی ذی الحجہ یا ذوالحجہ پڑ گیا یعنی حج والامہینہ۔ اس کے علاوہ اس ماہ میں ایک خاص حکم جانوروں کی’قربانی‘کاہے، جو ’عیدالاضحی‘کے موقع پر کی جاتی ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورہ الفجر میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے، وہ راتیں جمہور کے قول کے مطابق عشرۂ ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں (معارف القرآن)۔ایک حدیث میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ اعمال ذی الحجہ کے (شروع) دس دنوں کی نیکیاں ہیں۔ کسی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر کوئی (ان دونوں کے علاوہ میں) جہاد کرے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: دوسرے دنوں کا جہاد بھی اس کی برابری نہیں کرسکتا،البتہ کوئی شخص اپنی جان ومال دونوں جہاد میں خرچ کردے، تو وہ بے شک اس عشرے کے اعمال سے بہتر ہوسکتا ہے(بخاری)۔یہ حدیث عشرۂ ذی الحجہ کے احترام، برکت، فضیلت اور عظمت کی بیّن دلیل ہے۔ چوں کہ یہ دن برکت والے ہیں، اس لیے ان میں ذکرِ الٰہی وانابت الی اللہ بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے۔رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، ان دنوں (یعنی یکم ذی الحجہ سے ۹ذی الحجہ) میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے نفلی روزوں کے برابر اور ایک رات میں قیام کا ثواب شبِ قدر کے قیام کے برابر ہے (ترمذی)۔
بیت اللہ کا حج:اسلام کے جو پانچ ارکان ہیں، ان میں ایک اہم رکن’حج‘ ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں مخصوص زمانے میں، مخصوص فعل سے، مخصوص مکان کی زیارت کرنے کو’حج‘ کہتے ہیں۔(عمدۃ الفقہ)حج کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔قرآنِ کریم میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا’’لوگوں پر اللہ کا حق (فرض) ہے کہ جو اس گھر (کعبے) تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اللہ بھی اہلِ عالَم سے بے نیاز ہے‘‘ (آل عمران)۔جس طرح حج کرنے پر فضیلت وارد ہوئی ہے، اسی طرح استطاعت کے باوجود اس میں غفلت برتنے پر بھی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ کا ارشادِ گرامی ہے’’جو شخص باوجود استطاعت کے حج نہ کرے، اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے، چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہو کر‘‘ (ترمذی)۔

 رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ اعمال ذی الحجہ کے (شروع) دس دنوں کی نیکیاں ہیں۔ کسی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر کوئی (ان دونوں کے علاوہ میں) جہاد کرے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: دوسرے دنوں کا جہاد بھی اس کی برابری نہیں کرسکتا،البتہ کوئی شخص اپنی جان ومال دونوں جہاد میں خرچ کردے، تو وہ بے شک اس عشرے کے اعمال سے بہتر ہوسکتا ہے(بخاری)۔۔

بال وناخن:رسول اللہ نے ارشاد فرمایا’’ جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربانی کا ارادہ ہو تو تم اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رکے رہو (مسلم)۔ لیکن یہ حکم استحبابی ہے اور صرف قربانی کرنے والوں کے ساتھ خاص ہے، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ زیرِ ناف اور بغلوں کی صفائی اور ناخن کاٹے ہوئے ۴۰ روز نہ گزر گئے ہوں، اگر چالیس روز گزر گئے ہوں تو امورِ مذکورہ کی صفائی واجب ہے ( احسن الفتاوی) اور حدیث میں مذکور ’نہی‘ خلافِ اولیٰ پر محمول ہے (اعلاء السنن)۔
تکبیرِ تشریق: ۹ ذی الحجہ کی نمازِ فجر سے۱۳ ذی الحجہ کی نمازِ عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ تکبیرِ تشریق ہر مسلمان پر واجب ہے، خواہ وہ مسافر ہو یا مقیم، مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، آزاد ہو یا غلام، جماعت سے نماز پڑھنے والاہو یا منفرد، البتہ ان دنوں کی کوئی نماز چھوٹ جائے تو بعد میں اس کی قضا کے وقت تکبیرِ تشریق پڑھنے کی ضرورت نہیں، اسی طرح پہلے کی کوئی قضا نماز جو کہ واجب الادا تھی، ان دنوں میں اس کی قضا کرے، تو بھی تکبیرِ تشریق نہیں کہی جائے گی۔یہ تکبیر مرد متوسط بلند آواز سے اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں۔ (خلاص الفتاویٰ)علما نے لکھا ہے کہ نمازِ عید کے بعد بھی تکبیرِ تشریق کا وجوب معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ یہ نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، اگرچہ فی نفسہ فرض نہیں، اسی پر مسلمانوں کا توارث ہے(بحرالرائق)۔
عیدین کی رات میں عبادت:رسول اللہ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص عیدین(عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں میں شب بیداری اور عبادت کا اہتمام کرے، اس کا دل قیامت کے دن اس وقت بھی زندہ رہے گا، جس دن سب کے دل مردہ ہوجائیں گے‘‘(ابن ماجہ)۔اس لیے اس کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ رسول اللہ جب ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے، اس وقت اہلِ مدینہ (جن کی اکثریت اب ایمان لاچکی تھی) کے لوگوں کے دو دن کھیل کود (تفریح وغیرہ) کے لیے مقرر تھے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: یہ دونوں دن کس بات کے لیے ہیں؟ ان لوگوں نے بتایا کہ ایامِ جاہلیت میں ہم لوگ کھیل کود کرتے تھے، تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو ان دو دنوں کے بدلے دوسرے دو دن عنایت فرمائے ہیں اور یہ ان سے بہتر ہیں؛ ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی ( ابو داؤد)۔
قربانی کے معنی:’القربان‘کے معنی ہیں وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ کی قْرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان ’ذبیح‘ کے آتے ہیں (مفردات القرآن)۔ قربانی کرنے کا مطلب ہے؛ عیدِ اضحی کو اونٹ یا دْنبہ وغیرہ قربان کرنا، ذبح کرنا۔ اس لفظ میں یائے تمنائی زائد ہے، کیوں کہ فارسی والوں کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات عربی مصدر کے آگے یائے مصدر ’ی‘ یا زائدہ اکثر بڑھا دیا کرتے ہیں، جیسے: خلاص سے خلاصی وغیرہ (فرہنگِ آصفیہ)۔رسول اللہ کا ارشاد ہے’’ عید الاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل جانور کی قربانی کرنا ہے، یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کردیا جاتا ہے، اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘ (ترمذی)۔حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں’’ اللہ تعالیٰ کے رسول سے صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: یہ تمھارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اس میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اور فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے (بھی) ایک نیکی(ابن ماجہ) ۔اس لیے ہر صاحبِ نصاب کو قربانی ضرور کرنی چاہیے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ کا ارشاد وارد ہوا ہے: جو صاحبِ نصاب باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے (ابن ماجہ)۔ q qq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS