نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھن کھڑ نے استعفیٰ دے دیا،یہ خبرجیسے ہی آئی پورے سیاسی منظرنامے پر جیسے ایک غیر متوقع سکوت چھا گیا۔ دھن کھڑ کے اس اچانک استعفیٰ نے آئینی اداروں کی فعالیت، اقتدار کے توازن اور سیاسی اخلاقیات پر کئی سوالات کھڑے کر دیے۔ پیر، 21 جولائی 2025 کو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے آغاز سے چند گھنٹے قبل،جب سیاسی صف بندیاں تیز ہو رہی ہوں اور عدلیہ و مقننہ کے درمیان تنائو کھل کر سامنے آ رہا ہوتب ایک فعال اور متنازع نائب صدر کا اچانک رخصت ہو جانا معمولی واقعہ نہیںہوسکتا۔ سوال یہ نہیں کہ دھن کھڑ نے استعفیٰ کیوں دیا؟ سوال یہ ہے کہ اس استعفیٰ نے کس کس چیز پر پردہ ڈال دیا؟
ظاہر میں انہوں نے ’’صحت کی وجوہات‘‘ کو بنیاد بنایا، لیکن جو شخص چند گھنٹے پہلے تک اراکین پارلیمان سے ملاقاتیں کر رہا ہو، اگلے دن بزنس ایڈوائزری کمیٹی کی صدارت کرنے والا ہو اور جو حالیہ دنوں میں عدلیہ پر کھلے بیانات دے رہا ہو، اس کا یوں خاموشی سے ہٹ جانا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس سے لے کر آئینی ماہرین تک، سب اس واقعے کو محض طبی فیصلہ ماننے پر آمادہ نہیں۔
جگدیپ دھن کھڑ نے راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طور پر جو طرز عمل اختیار کیا، وہ ان کے پیش روئوں سے بالکل مختلف تھا۔ وہ روایتی آئینی خاموشی کے بجائے ایک فعال، بولنے والا، تنقید کرنے والا اور کبھی کبھار حد سے بڑھ جانے والا کردار بن گئے۔ انہوں نے بارہا عدلیہ پر براہ راست تنقید کی، خاص طور پر کالجیئم نظام کو غیر شفاف اورجمہوری بالادستی کے منافی قرار دیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ مقننہ کو فیصلہ سازی میں برتری حاصل ہونی چاہیے اور عدالتوں کو قانون کی تشریح کے دائرے سے آگے نہیں جانا چاہیے۔ یہ ایک اہم مگر خطرناک بیانیہ تھا جس نے مقننہ اور عدلیہ کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کو بڑھایا۔
ان کے نقادوں کا ماننا ہے کہ وہ اکثر راجیہ سبھا میں اپنی غیر جانبداری کو قربان کرکے حکومت کے موقف کو تحفظ دیتے نظر آئے۔ کئی مواقع پر اپوزیشن اراکین کی آواز کو محدود کرنے یا بحث کو اچانک موڑ دینے کے رویے پر ان پر شدید تنقید ہوئی۔ ایک آئینی عہدے پر ہوتے ہوئے بھی وہ عدلیہ اور اپوزیشن پر اتنے کھلے تبصرے کرتے تھے کہ کئی بار یہ سوال اٹھاکہ کیا دھن کھڑ اس منصب کے اخلاقی اور غیرجانبدارانہ تقاضے نبھا رہے ہیں یا پھر وہ کسی نظریاتی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں؟
ان کا یہ رویہ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب انہوں نے حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر راجیہ سبھا میں تنقید کی اور اپوزیشن کے مطالبے پر ایک اعلیٰ جج کے خلاف مواخذے کی تحریک کو باقاعدہ کارروائی میں شامل کیا،ایسا پہلی بار ہوا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہی لمحہ ان کے استعفیٰ کی بنیاد بنا، کیونکہ اس نے طاقت کے حلقوں میں بے چینی پیدا کردی۔
دھن کھڑ نے صدر جمہوریہ کو جو خط لکھاہے اس میں طبی مشوروں کا ذکر تو ہے، لیکن وقت اور انداز ایسا ہے جیسے کوئی جلدی میں، خاموشی سے، بغیر واپسی کا امکان دیے اسٹیج سے اتر گیا ہو۔ اور یہ اسٹیج ملک کا آئینی مرکز تھا۔ کانگریس لیڈرجے رام رمیش نے برمحل اور حقیقت پسندانہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ استعفیٰ اتنا ہی چونکا دینے والا ہے جتنا ناقابل بیان ہے۔ اس سے زیادہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ دھن کھڑ کے استعفیٰ کے فوراً بعد نتیش کمار اور راج ناتھ سنگھ جیسے ناموں کا تذکرہ شروع ہوگیا،یہ اس امکان کی طرف اشارہ ہے کہ استعفیٰ کوئی انفرادی اقدام نہیں، بلکہ ایک طے شدہ سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
اپوزیشن کے سینئر لیڈر کپل سبل نے ان کے استعفیٰ پر اپنے ذاتی تعلقات اور احترام کا اظہار کیا، انہیں قوم پرست اورمحب وطن کہا۔ یہ اعتراف بتاتا ہے کہ دھن کھڑ کی شخصیت محض ایک سیاسی کارندے کی نہیں، بلکہ ایک پیچیدہ اور تضاد سے بھرپور آئینی کردار کی تھی جہاں وہ کبھی آئینی بالادستی کا دفاع کرتے اور کبھی اسی آئین کی روح سے ٹکراتے نظر آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ جگدیپ دھن کھڑ کا استعفیٰ ایک فرد کا نجی فیصلہ نہیں، یہ ہندوستانی جمہوریت کے اس داخلی تصادم کی علامت ہے جہاں ادارے باہم دست و گریباں ہیں اور نظریات منصبوں پر حاوی ہوچکے ہیں۔ ان کی رخصتی نے یہ سوال چھوڑ دیا ہے کہ کیا اس نظام میں آئینی عہدے محض رسمی نشستیں بن چکی ہیںیا ان کی کوئی اہمیت یاافادیت بھی ہے؟
جگدیپ دھن کھڑ کا استعفیٰ محض ایک صفحے کا خط نہیں یہ تاریخ کی حاشیہ نویسی میں وہ سطر ہے جو یاد دلاتی ہے کہ آئینی وقار، جمہوری اختلاف اور ادارہ جاتی خودمختاری کی لڑائی کوابھی مدتوں جاری رہناہے۔