محمدمدثرحسین اشرفی پورنوی
دور حاضرمیں مال ودولت کے حصول میں چنددنیاداراس قدرمحوہیں کہ فکرآخرت کادوردورتک پتہ نہیں ۔بس ایک جنون ہے کہ دیگرافراد کے مقابل ہمارابینک بیلنس زیادہ سے زیادہ ہو خواہ اس کی خاطرشریعت کے احکام کی خلاف ورزی ہو (معاذاللّٰہ)۔ یعنی مال ودولت کی حرص اس قدرزیادہ ہوگئی ہے کہ حلال وحرام کی تمیز بھی نہ رہی۔حدودشرع کی کامل پابندی کرتے ہوئے جائزآمدنی کی بنیادپرمالداری معیوب نہیں ہے۔ہاں شرط ہے کہ ہرایک کے حقوق کا کماحقہ لحاظ کیا جائے۔ ایسی مالداری معیوب ہے جس کو ناجائزوحرام کی آمدنی کے بل بوتے حاصل کیا جائے۔ اسی طرح وہ آمدنی بھی جس کے حصول میں دوسروں کے حقوق کا خیال نہ رکھا گیا ہو۔ ایسی مالداری نہ صرف یہ کہ دنیوی خسارہ ہے بلکہ آخرت میں یہ مال ودولت صاحب مال کے لئے وبال جان اورقہرالٰہی کاباعث ہے ۔ہمارے لئے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اوراولیائے کاملین کاکردارنمونہ عمل ہے ۔
امیرالمؤمنین سیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ، اورامیرالمؤمنین سیدناحضرت عثمان غنیؓان شخصیات میں سے تھے جن کے پاس مال ودولت کی کثرت تھی، مگرانہوں نے سارامال، ساری دولت رسول کریمؐ کی محبت میں راہ خدامیں صرف کردی۔تاریخ شاہدہے جب بھی دولت کسی نادان کے ہاتھ آئی ہے، تکبراورگھمنڈاس کے ساتھ آیا ہے۔ پھراس (دولت) نے مالدارکاایسابْراحال کیاہے جودنیاوعقبیٰ دونوں میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔آپ دیکھیں! دولت نے نمرود، فرعون، ہامان، شداد، قارون کابراحشرکیاہے ۔قرآن کریم میں اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے مال اوراولادکے تعلق سے ارشادفرمایا’’ بلاشبہ تمہارے مال اوراولادتمہارے لئے آزمائش ہیں‘‘ (الانفال28-) ۔مزیدارشادمقدس ہے’’ اے ایمان والوتمہیں تمہارامال واولاداللّٰہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اورجس نے ایساکیاوہ نقصان پانے والے ہیں‘‘(المنافقون9-)۔رب تبارک وتعالیٰ کی یہ مشیت ہے کہ وہ کسی کودولت عطاکرکے امتحان لیتاہے، توکسی کوغریب بناکرامتحان لیتاہے۔اب یہ انسان پرہے کہ اگراسے دولت ملے تواس کااستعمال فضول خرچی میں نہ کرے اورجسے غریب بناکرآزمائش لے وہ صبروتحمل سے کام لے۔
انسان کوحرص اورلالچ سے اجتناب کرناچاہئے۔ حضرت شعبیؒ کہتے ہیں کہ’’ ایک آدمی نے چنڈول (چڑیا) کاشکارکیا، چڑیانے کہا: تم میراکیاکروگے؟ اس آدمی نے کہا: ذبح کرکے کھاؤں گا۔ چڑیانے کہا: بخدا! میرے کھانے سے تمہاراپیٹ نہیں بھریگا، میں تمہیں تین ایسی باتیں بتاؤں گی جومیرے کھانے سے کہیں بہترہیں۔ ایک تومیں تم کواس قیدکی حالت میں ہی بتاؤںگی، دوسری درخت پربیٹھ کراورتیسری پہاڑپربیٹھ کربتاؤں گی۔آدمی نے کہا: چلوٹھیک ہے پہلی بات بتاؤ! چڑیانے کہا: یادرکھوگزری بات پر افسوس نہ کرنا۔ آدمی نے اسے چھوڑدیا، جب وہ درخت پرجاکربیٹھ گئی توآدمی نے کہا: دوسری بات بتاؤ! چڑیانے کہا: ناممکن بات کوممکن نہ سمجھنا۔پھروہ اڑکرپہاڑپرجابیٹھی اورکہنے لگی: اے شخص! اگرتومجھے ذبح کردیتاتومیرے پوٹے سے بیس مثقال کے دوموتی نکلتے، یہ سن کروہ شخص افسوس سے اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہنے لگا کہ اب تیسری بات بتادے! چڑیابولی: تم نے توپہلی دوکوبھلادیا ہے، اب تیسری بات کس لئے پوچھتے ہو؟ میں نے تم سے کہاتھاکہ گزشتہ بات پرافسوس نہ کرنااورناممکن چیزکوممکن نہ سمجھنا، میں تواپنے گوشت، خون اورپروں سمیت بھی بیس مثقال کی نہیں ہوں چہ جائیکہ میرے پوٹے میں بیس بیس مثقال کے دوموتی ہوں، یہ کہااوروہ اڑگئی۔یہ انسان کے انتہائی حریص ہونے کی مثال ہے کیونکہ وہ بھی لالچ میں ناممکن کوممکن سمجھتے ہوئے راہِ حق سے بھٹک جاتاہے‘‘ (مکاشفتہ القلوب صفحہ نمبر 247)۔حضورؐنے ارشادفرمایا: اس امت کے سب سے بہترین لوگ فقراء ہیں اورسب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے کمزورلوگ ہیں۔مزیدمیرے آقاؐارشادفرماتے ہیں: میں نے جنت کودیکھا اس میں فقراء تھے، میں نے جہنم کودیکھا اس میں اکثرمالداراورعورتیں تھیں ۔حضرت عیسٰیؑ کاقول ہے کہ مالداربہت دشواری کے ساتھ جنت میں داخل ہوگا۔فرمان مصطفٰےؐ ہے کہ انسان ’میرامال میرامال‘کرتاہے مگرتمہارے مال سے وہ ہے جوتونے کھالیاوہ ختم ہوگیااورجوپہن لیاوہ پراناہوگیا، جوراہ خدامیں خرچ کیاوہی باقی رہا۔
حاصل کلام یہ کہ انسان خواہ کتنی ہی دولت حاصل کرلے مگراس دنیاسے جب کوچ کرے گا اسے خالی ہاتھ ہی جاناپڑے گا۔سکندرجوآدھی دنیاکابادشاہ تھا، وقت مرگ اس نے وصیت کی تھی کہ جب میراجنازہ تیارہوجائے توکفن سے دونوں ہاتھوں کوباہررکھ دینا تاکہ اہل دنیادرس حاصل کریں کہ آدھی دنیاکابادشاہ خالی ہاتھ جارہاہے۔آج کے اس پْرفتن دورمیں لوگوں کاعجیب مزاج بن گیاہے، دولت مندبننے کے لئے ساری حدودپارکرجاتے ہیں اورجب دولت ہاتھ آجاتی ہے توغریبوں کوحقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں، اوردولت کے نشے میں اپنوں کوبھی خاطرمیں نہیں لاتے۔ہاں یہ ضرورہے کہ اپنے اہل وعیال کی اچھی پرورش کی خاطرجائزطریقے سے آمدنی حاصل کرنے والاعنداللّٰہ محبوب بندہ ہے۔ دولت مند وہی اچھا ہے جس میں سیدنا حضرت ابوبکرصدیق ؓوسیدناحضرت عثمان غنی ؓ کی سخاوت ہو۔qq