ڈاکٹرجاوید عالم خان
2011 کے مردم شماری کے مطابق ملک میں معذور لوگوں کی کل آبادی 2.68 کروڑ ہے معذوروں کی کل آبادی میں 1.5 کروڑ مرد ہیں اور 1.18 کروڑ عورتیں ہیں۔ معذور لوگ زندگی کے مختلف میدان میں کافی پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے معذوروں کے تحفظ اور ترقی کے لئے ایک قانون پاس کیا، جسے آر پی ڈی ایکٹ 2.16 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق معذوروں کو شناخت کرنے کے لئے بہت ساری کمیوں کی پہچان کی گئی ہے جیسے کہ کسی بھی شخص کے اگر جسمانی ، دماغی ، دانشمندی و احساس کرنے والے اعضا خراب ہیں اور وہ شخص سماج کے دوسرے لوگوں کے مقابلے اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کر پا رہا ہے تو اس کو معذور سمجھا جائے گا۔ آر پی ڈی ایکٹ میں معذوروں کے تمام خرابیوں کو دور کرنے کے لئے یہ وعدہ کیا گیاہے کہ ان کے لئے تمام برابری کے مواقع مہیا کرائے جائیں گے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ ان کے ساتھ سماجی اور اقتصادی انصاف ہو۔
معذوروں کے خراب صورتِ حال کو دور کرنے کے لئے ایک شعبہ کا قیام بھی کیا ہے جو مرکزی وزارت برائے سماجی انصاف اور امپاورمنٹ کے تحت کام کرتا ہے۔ اس شعبہ کو 2012 میں شروع کیا گیا تھا۔ معذوروں کا یہ شعبہ مختلف طرح کے فلاح و بہبود کی پالیسی بناتا ہے اس شعبہ کا مقصد یہ بھی ہے کہ معذوروں کی پالیسی سازی کے علاوہ تمام پروگراموں کا نفاذ اور نگرانی کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ انکا جائزہ بھی لیا جائے۔ معذوروں کی ترقی سے متعلق شعبے کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ تمام مرکزی وزارتوں ، صوبائی حکومتوں ، مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حکومتوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ معذوروں سے متعلق تمام اسکیم اور پروگرام کے نفاذ اور دیکھ ریکھ کے سلسلے میں کوآرڈینیشن کا کام کرے۔ اس شعبے کا کام یہ بھی ہے کہ معذوروں کے امپاورمنٹ کے لئے تعلیم معاشی اور سماجی ترقی اور ان کی بعض آبادکاری سے متعلق حکمتِ عملی بنائیں اور نئی اسکیم کی شروعات کریں۔ آر پی ڈبلیو ایکٹ کے تحت اس شعبے کو معذوروں کے لئے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔ حقوق کو تحفظ دینا اور سماج میں معذوروں کی شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔
معذوروں کے لئے بنائے گئے اس شعبے کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ مختلف قوانین اور ایکٹ کا نفاذ کرے (1) معذوروں کی باز آبادکاری کے لئے کونسل آف انڈیا ایکٹ ، 1992 (2) نیشنل ٹرسٹ فار ویلفیئر آف پرسنس ود آٹزم ، سیلیبرل کلاسی دماغی کمزوری اور متعدد معذوری کا ایکٹ، 1999(3) معذوروں کے حقوق سے متعلق ایکٹ ، 2016 معذوروں سے متعلق اسکیم اور پروگرام مختلف اداروں کے ذریعہ نافذ کیا جا رہا ہے اور زیادہ تر اسکیمیں مرکزی حکومت کے ذریعہ چلائی جا رہی ہیں، جن کا بجٹ مکمل طور سے مرکزی حکومت کے ذریعہ مختص کیا جا رہا ہے۔ ان اسکیموں کو عام طور سے ہم سینٹرل سیکٹر اسکیم کے نام سے جانتے ہیں، اس سلسلے میں کچھ اہم اسکیمیں قابل ذکر ہیں جیسے کہ معذوروں کے لئے آلات کو خریدنے کے لئے امداد دینے والا قومی ادارہ ، معذوروں کی باز آبادکاری کے لئے دین دیال اسکیم ، معذوروں کی باز آبادکاری کے لئے قومی کونسل آف انڈیا ، معذوروں سے متعلق اسکیم کے نفاذ کا ایکٹ ، 2016 ، قومی ادارہ برائے فائننس اینڈ ڈیولپمنٹ ، مصنوعی اعضا کی تیاری کے لئے کارپوریشن ، انڈین اسپائنل انجوری سینٹر ، قومی ادارہ برائے شمولیت اور عالمگیر ڈیزائن ، اشاروں کی زبان کے لئے قومی ادارہ ، ریسرچ اور ٹریننگ سینٹر ، بریل پریس کے جدید کاری کے لئے ادارہ ، بہروں کے لئے پانچ علاقائی کالجوں کا قیام ، معذوروں کے کھیل کود سے متعلق سینٹر کا قیام ، معذور طلبا کے لئے اسکالرشپ پروگرام ، بڑے پیمانے پر تعلیم اور اطلاعات کے لئے سینٹر اور معذوروں کی تعلیم اور سائنس سے متعلق قومی یونیورسٹی کے قیام کے لئے امداد۔
وزیر خزانہ کی پچھلے بجٹ تقریر میں معذور افراد کو ایک پسماندہ گروہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جنہیں جامع ترقی کے حصول میں ترجیح دی جانی چاہیے۔ تقریر میں 2047 تک خون کے سرخ خلیات کو متاثر کرنے والی بیماری سیکل سیل انیمیا کو ختم کرنے کے ہدف کا بھی ذکر کیا گیا۔ تاہم نہ تو تقریر کے بعد کے متن اور نہ ہی بجٹ دستاویزات میں معذور افراد کی طرف سے پائی جانے والی پسماندگی کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔-24 2023 کے مقابلے معذور افراد کو بااختیار بنانے کے محکمے کے لیے مختص بجٹ میں تقریباً 1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تمام وزارتوں میں معذور افراد کے لیے قابل شناخت مخصوص مختص بجٹ مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا 0.008 فیصد ہے۔
معذوروں کے لئے مختص بجٹ اور اخراجات کے تجزیے سے یہ پتا چلتا ہے کہ 2019-20 کی شروعات سے لے کر2022-23 تک نفاذ کی صورتحال کافی خراب رہی ہے۔ مالی سال 2019-20 میں معذوروں کیلئے 12.5 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے، وہیں سال 2020-21 میں مختص کئے گئے بجٹ میں اضافہ ہوا اور کل رقم 1325 کروڑ روپے ہوگئی۔ سال 2021-22 میں کل مختص بجٹ میں کمی کردی گئی اور کل رقم 1171 کروڑ روپے ہوگئی تھی، وہیں 2022-23میں معذوروں کے لئے 1212 کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ 2019-20 کے بجٹ اخراجات کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ کل مختص بجٹ کا صرف 83 فیصد ہی حقیقی خرچہ تھا۔2020-21 میں حقیقی خرچہ اور بھی گھٹ گیا جو کہ صرف 65 فیصد تھا اسی طرح سے جنوری 2022 تک صرف 46 فیصد ہی کل مختص بجٹ کا خرچ ہو پایا تھا۔ کم بجٹ خرچ ہونے کے پیچھے حکومت کی یہ دلیل تھی کہ مالی سال 2020-21 اور21-22 میں کورونا وبا کی وجہ سے حکومت مختص کئے گئے بجٹ کو جاری نہیں کر سکی۔ عام طور پر حکومت مختص کئے گئے بجٹ کو خرچ کرنے کے لئے غیر سرکاری تنظیموں ، اسپیشل اسکول اور ضلع کے سطح پر معذوروں کے لئے باز آبادکاری سینٹر کو جاری کرتی ہے۔
معذوروں کے لئے چلائی جا رہی بڑی اسکیموں جیسے اے ڈی آئی پی ، ایس آئی پی ڈی اے اور این ایچ ایف ڈی سی کو نافذ کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے بجٹ کو جاری کرنے میں کافی تاخیر ہوئی ہے۔ بجٹ کے دیر سے جاری کرنے کے وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنے اخراجات سے متعلق سرٹیفکیٹ مرکزی حکومت کو دیر سے بھیجتی ہیں نتیجتاً مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری کیا گیا بجٹ صوبائی حکومتوں کو تاخیر سے موصول ہوتا ہے لہٰذا معذوروں کے امپاورمنٹ اور باز آبادکاری سے متعلق اسکیموں کا نفاذ بری طرح سے متاثر ہوا ہے،جس کی وجہ سے معذور لوگ ان اسکیموں کا پوری طرح سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبران کے ذریعہ تشکیل شدہ اسٹینڈنگ کمیٹی نے حکومت سے یہ درخواست کی ہے کہ معذوروں سے متعلق اسکیموں کی پہنچ کو بہتر کرنے کے لئے نفاذ کرنے والی ایجنسیوں کی تربیت نہایت ضروری ہے۔ اس کمیٹی نے اس بات کی بھی سفارش کی ہے کہ اسکیموں کے خراب نفاذ کو لے کر تمام ایجنسیوں کو جوابدہ بنانا چاہئے، ساتھ ہی اسکیموں کو نافذ کرنے کے لئے ذمّہ داران افسران کی کافی کمی ہے۔ اس لئے حکومت کو یہ چاہئے کہ جلد از جلد ضرورت کے مطابق افسران کو تعینات کیا جائے اور ان کیلئے تربیتی ورکشاپ منعقد کیا جانا چاہئے۔ اسکیموں کے نفاذ کی دیکھ ریکھ کے لئے ایک بہتر نظام کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ جاری کرنے میں جو تاخیر کی جا رہی ہے اس کو معینہ مدت کے مطابق جاری کیا جانا چاہئے۔
مضمون نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی سے وابستہ ہیں۔
[email protected]