پنکج چترویدی
دہلی میں جب ہوا زہریلی ہوئی تو گریپ-4 کے قوانین کے مطابق یہاں تعمیراتی کام بند کر دیے گئے۔ اس قدم سے تقریباً 10 لاکھ لوگوں کے سامنے پیٹ بھرنے کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ یہ لوگ ہر دن تعمیراتی کاموں میں مزدوری کرتے ہیں اور روزی کماتے ہیں۔ اب دہلی حکومت ایسے لوگوں کی مالی مدد کرنا چاہتی ہے۔ گزشتہ ماہ بنگال اور حال ہی میں تمل ناڈو میں آنے والے طوفان کے بعد لاکھوں روپے کی فصلیں برباد ہوگئیں اور کسانوں کو ریلیف فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ ہندوستان میں ویسے بھی جغرافیائی تنوع ہے۔ اسی لیے یہاں موسم کا اچانک بدل جانا کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ اس کی وجہ سے کاشت کاری اور دیگر روزگار سے وابستہ لوگوں کو مالی نقصان توہو ہی رہا ہے، طرح طرح کی بیماریوں کی وجہ سے ان کی جیبوں میں سوراخ بھی ہو رہا ہے۔ ہندوستان اس وقت ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک بننے کے دور میں ہے اور اس دور میں کچھ قدرتی بے ضابطگیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنی ترقی کی رفتار کو بھی تیز کرنا ہے، عام لوگوں کے روزگار اور روزی روٹی کی پروا بھی کرنی ہے۔ ترقی کی رفتار میں کاربن کے اخراج کو کم کرنا تقریباً برعکس عمل ہے۔ یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے بچانے کے لیے غریب ممالک کو زیادہ مالی امداد کی ضرورت ہے۔ اس ایشو پر گزشتہ دنوں منعقدہ موسمیاتی تبدیلی کے عالمی اجلاس (کوپ) میں اختلاف رائے پایا گیا، تاہم اقوام متحدہ کے اس سالانہ اجلاس کے مقاصد کی کامیابی پر اسی وقت سوالیہ نشان لگ گیا تھا جب اجلاس سے عین قبل امریکی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی واپسی ہوئی اور ٹرمپ کی اپنی آنے والی کابینہ میں اسکاٹ پریٹ،رائن زنک، رک پیری جیسے نام ہیں، جو موسمیاتی تبدیلی کو مانتے ہی نہیں اور ان کے لیے اس مد میں فنڈس کی فراہمی بھی بے معنی ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا پورا نظام ہی امریکہ اور اس کے جیسے معاشی طور پر مضبوط ممالک کے اردگرد گھومتا ہے اور یہ وہ ممالک ہیں جو فیکٹریوں سے لے کر جنگ تک میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک اس کا خمیازہ بھگتیں۔
دنیا کے 200 ممالک کے لوگ 15 روز تک آذربائیجان کے شہر باکو میں اقوام متحدہ کے 29 ویں سالانہ ماحولیاتی اجلاس، کوپ-29 میں موسمیاتی بحران کے مختلف مسئلوں پر بات چیت کرتے رہے اور اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ 2035 تک غریب ترین ممالک کو 300 ارب ڈالر دیے جائیں گے،تاہم یہ رقم جمع شدہ رقم کا چوتھائی حصہ بھی نہیں ہے۔
یہ ترقی پذیر ممالک کی طرف سے مانگی گئی رقم کے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ یہی نہیں، یہ رقم بغیر کسی شرط کے گرانٹ کے طور پر نہیں ہوگی۔ موسمیاتی تبدیلی پر یونائیٹڈ نیشنس فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی)گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے سسٹم کے تحت تجویز کردہ ’’آب و ہوا کی مالیات‘‘کی نوعیت پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ ترقی یافتہ ممالک چاہتے ہیں کہ یہ فنڈنگ پبلک اور پرائیویٹ فنڈنگ کی ملی جلی شکل ہو جس میں قرض اور ’’قرض کی تبدیلی‘‘ شامل رہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کا کہنا ہے کہ اگر وہ موسمیاتی تبدیلی کے عوامل کو کنٹرول کرنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی، گرم آب و ہوا کے اثرات کے مطابق ہونے اور موجودہ آفات (جسے عام طور پر نقصان اور تباہی کی شکل میں دکھایا ہے) سے نبردآزما ہوتے ہیں تو انہیں ان کی خوشحالی کے مطابق امداد ملے۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو یو این ایف سی سی سی کا اندازہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو2030 تک اپنے قومی آب و ہوا کے منصوبوں کو نافذ کرنے کے لیے 5 ٹریلین سے 6.9 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ ویسے تو کلائمیٹ فنانس کا ہدف 2010 کے اجلاس میں طے کیا گیا تھا کہ امیر ممالک 2025 تک غریب ممالک کو 100 ارب ڈالر دیں گے لیکن یہ پہلی بار 2022 میں ہی ملا۔ غریب ممالک کے مذاکرات کاروں کا مایوس ہونا درست ہے۔ وہ تصوراتی عالمی گورننس کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ 2022 میں دنیا کے غریب ترین اور سب سے زیادہ آب و ہوا کے خطرے سے دوچار ممالک میں سے 58 نے کلائمیٹ فنانس سے حاصل 28 ارب ڈالر کے مقابلے قرض کی ادائیگی میں 59 ارب ڈالر خرچ کیے۔
اگر کوئی ترقی پذیر ملک قرض لیتا ہے تو اسے امریکہ اور یوروپ کے مقابلے سات گنا زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ ایسے ممالک میں سیاسی عدم استحکام یا کم کریڈٹ ریٹنگ ہوتی ہے، اس لیے قرض دہندگان کی نظر میں غریب ممالک سرمایہ کاری کے لیے خطرناک جگہ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ نظام دنیا کے ممالک میں عدم مساوات کو بڑھا رہا ہے۔
کتنی افسوسناک بات ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے سب سے کم ذمہ دار ممالک کو اس کے سب سے بڑے سانحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بات یو این ایف سی سی سی بھی تسلیم کرتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کی اقتصادی اور سماجی صلاحیتیں الگ الگ ہوتی ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی کے برے اثرات کا سبھی کو یکساں طور پر سامنا کرنا ہے۔ اسی طرح غریب کمزور ممالک پر پہلے سے ہی اس بحران کی قیمت چکانے کا بہت بڑا بوجھ ہے جو انہوں نے پیدا نہیں کیا تھا۔ خالصتاً اخراج کے تناظر میں، اس ’’آب و ہوا کے قرض‘‘ کا حساب 5 ٹریلین ڈالر سالانہ، یا 2050 تک 192 ٹریلین ڈالر کیا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے بغیر بھی تحقیق میں پایا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک پر ترقی پذیر ممالک کی اراضی، مزدوری اور وسائل کے لیے سالانہ 10 ٹریلین ڈالر کا بقایا ہے۔
مؤثر طور پر یہ عمل موسمیاتی مالیات کے خطرات کے لیے عوام کو ذمہ دار بناتا ہے جبکہ مالی فوائد پوری طرح پرائیویٹ کمپنیوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ قرضوں اور نجی مالیات کا استعمال کرنے سے امیر حکومتوں کے اخراجات کم ہوتے ہیں اور فنانسنگ انہیں اس بات پر زیادہ کنٹرول فراہم کرتی ہے کہ رقم کیسے خرچ کی جاتی ہے، تاہم ترقی پذیر ممالک کے لیے گرانٹ پر مبنی فنانس آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے میں مددگار ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ بوجھ ایسے ممالک پر جبراً ڈالا گیا ہے کیونکہ یہ بحران انہوں نے پیدا نہیں کیا۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے عوامل پر نہ صرف مزید پابندیاں عائد کرنی ہوں گی بلکہ غریب ممالک کو قرض کے بجائے امداد کی صورت میں مزید رقم دینی ہوگی۔