پنکج چترویدی
مدھیہ پردیش کے چنبل علاقہ کی سندھ ندی ابھی کچھ دہائیوں تک ہمیشہ بہتی رہتی تھی۔ اب اس میں بمشکل 6ماہ ہی پانی رہتا ہے۔ ابھی اس میں اتنا پانی ہے کہ کنارے کے علاقوں میں سیلاب آگیا ہے لیکن یہ پانی کی سطح بمشکل 20دن رہے گی۔اس سے ریت نکالنے کے لیے راستہ بند کردیا جائے گا، بڑی بڑی مشینیں اُتار دی جائیں گے۔ خشک ہونے سے پہلے ہی مشینیں ریت نکالنے میں لگ جاتی ہیں۔ جب پانی برستا ہے، ندی میں لہر آنے کے دن ہوتے ہیں تو ریت سے محروم ندی میں پانی کی دھارا گرتے ہی گہرائی میں غائب ہوجاتی ہے۔ اُجاڑ ہوگئی سندھ کے خشک ہونے کے سبب اس کے کنارے آباد گاوؤں کے پانی کی سطح 200سے 300فٹ تک نیچے جاچکی ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ اگر پانی چاہیے تو چنبل کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے اس کی سطح پر ریت کی موٹی پرت کے بغیر کچھ ہونے سے رہا۔ اُدھر ریت کے بغیر حکومت کی ترقی کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ملک کی ترقی کا معیار بھلے ہی زیادہ سے زیادہ پکی تعمیرات ہوں، اونچی چھتیں اور سیمنٹ سے بنیں چکنی سڑکیں جدیدیت کا معیار ہوں، لیکن ایسی چمک-دمک کی اصل بنیاد بالو یا ریت، حیات بخش ندیوں کے لیے زہر ثابت ہورہی ہے۔
ندیوں کا اُتھلا ہونا اور تھوڑی سی برسات میں طغیانی پر آجانا، ساحلوں کے کٹاؤ کے سبب سیلاب آنا، ندیوں میں جاندار کم ہونے کے سبب پانی میں آکسیجن کی مقدار کم ہونے سے پانی میں بدبو آنا، ایسے ہی کئی اسباب ہیں جو منمانی ریت کانکنی سے آبی ذخائر کے وجود پر بحران کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ قدرت نے ہمیں ندی تو دی تھی پانی کے لیے لیکن معاشرہ نے اسے ریت حاصل کرنے کا ذریعہ بنالیا اور ریت نکالنے کے لیے ندی کا راستہ روکنے یا بہاؤ کی سمت تبدیل کرنے سے بھی پرہیز نہیں کیا۔ آج حالات یہ ہیں کہ کئی ندیوں میں نہ تو پانی کا بہاؤ ہے اور نہ ہی ریت۔
سبھی جانتے ہیں کہ ملک کی بڑی ندیوں کو وسعت دینے کا کام ان کی معاون چھوٹی ندیاں کرتی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں ملک میں تقریباً 3ہزار چھوٹی ندیاں ختم ہوگئیں۔ اس کا اصل سبب ایسی موسمی چھوٹی ندیوں سے بے تحاشہ ریت نکالنا تھا، جس کے سبب ان کا اپنے اوریجن و بڑی ندیوں سے ملنے کا راستہ ہی بند ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے پانی روٹھ گیا۔ بالخصوص نرمدا کو سب سے زیادہ نقصان ان کی معاون ندیوں کے ریت کے سبب ختم ہونے سے ہوا ہے۔ اس کا ہی اثر ہے کہ بڑی ندیوں میں پانی کے بہاؤ کی مقدار سال در سال کم ہورہی ہے۔
ملک کی جی ڈی پی کو رفتار دینے کے لیے سیمنٹ اور لوہے کی کھپت بڑھانا پالیسی ساز فیصلہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پکے مکان دینا یا نئے اسکول-اسپتال کی تعمیر ہونا بھلے ہی اعداد و شمار و پوسٹروں میں بہت پرکشش لگتا ہو، لیکن اس کے لیے ریت جمع کرنا اپنے آپ میں ایسے ماحولیاتی سانحہ کی وجہ ہے جس کے نقصان کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ ملک میں ویسے تو ریت کی کوئی کمی نہیں ہے- بڑے ساحل سمندر ہیں اور کئی ہزار کلومیٹر میں پھیلا ریگستان بھی، لیکن سمندری ریت نمکین ہوتی ہے جب کہ ریگستان کی بالو بیحد گول اور چکنی، تبھی ان کا استعمال تعمیر میں ہوتا نہیں۔ بہتی ندیوں کی اندرونی سطح میں ریت کی موجودگی اصل میں اس کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کا ریگولیٹر، پانی کو شفاف رکھنے کا چھنّا اور ندی میں کیچڑ روکنے کی دیوار بھی ہوتی ہے۔ ساحلوں تک ریت کا پھیلاؤ ندی کو سانس لینے کا عضو ہوتا ہے۔ ندی صرف ایک بہتے پانی کا ذریعہ نہیں ہوتی، اس کا اپنا ماحولیاتی نظام ہوتا ہے جس کے تحت اس میں پلنے والے جاندار، اس کے ساحل کے مائیکرو بیکٹیریا سمیت کئی عنصر شامل ہوتے ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا کام ریت کا ہوتا ہے۔ ندیوں کی کوکھ غیرقانونی اور غیرسائنسی طریقہ سے کھودنے کے سبب یہ پورا نظام تہس نہس ہورہا ہے۔ تبھی اب ندیوں میں ریت بھی نہیں آپارہی ہے، پانی تو ہے ہی نہیں۔ ریت کے لالچی ندی کے ساتھ ساتھ اس سے متصل علاقوں کو بھی کھودنے سے باز نہیں آتے۔ گزشتہ سال ہی راجستھان کے بھیل واڑہ ضلع میں جب بناس ندی خشک ہوگئی تو ریت کے لیے قریبی چرا گاہ، نالے تک کھود ڈالے گئے۔
چھتیس گڑھ کے لیے کی گئی وارننگ اب سرکاری دستاویزات میں بھی درج ہے۔ کچھ سال قبل رائے پور کے آس پاس ریت کی 60کانیں تھیں، انتظامیہ نے ان کی تعداد کم کرکے دس کردی۔ ایسے میں یہاں پیداوار کم ہے اور کھپت زیادہ ہے۔ رائے پور میں ترقی کے سبب آئے دن بالو کی ڈیمانڈ بڑھتی جارہی ماہرین کا انتباہ ہے کہ بروقت اگر الرٹ نہیں کیا گیا تو رائے پور سے متصل شیوناتھ، کھارون اور مہاندی میں کچھ برس میں ریت ختم ہوجائے گی۔
قانون تو کہتا ہے کہ نہ تو ندی کو تین میٹر سے زیادہ گہرا کھودو اور نہ ہی اس کے پانی کے بہاؤ میں رخنہ پیدا کرو، لیکن لالچ کے لیے کوئی بھی ان کی پروا نہیں کرتا۔ ریت ندی کے پانی کو صاف رکھنے کے ساتھ ہی اپنے نزدیکی علاقوں زیرزمین پانی کو بھی محفوظ رکھتی ہے۔ کئی مرتبہ این جی ڈی اور سپریم کورٹ احکام دے چکے، گزشتہ سال تو آندھراپردیش حکومت کو ریت کی غیرقانونی کانکنی نہ روک پانے کے سبب 100کروڑ کا جرمانہ بھی لگادیا گیا تھا۔ اس کے باوجود مدھیہ پردیش کی حکومت نے این جی ٹی کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریت کی کانکنی کی پالیسی بنادی۔ این جی ٹی نے کہا تھا کہ ریت لانے لے جانے والی گاڑیوں پر جی پی ایس ضرور لگا ہو تاکہ انہیں ٹریک کیا جاسکے، لیکن آج بھی پوری ریاست میں کھیتی کے کام کے لیے منظورشدہ ٹریکٹروں سے ریت ڈھوئی جارہی ہے۔ منظورشدہ گہرائیوں سے دوگنی تین گنی گہرائیوں تک پہنچ کر ریت کانکنی کی جاتی ہے۔ جن نشان زد علاقوں کے لیے ریت کانکنی کی لیز ہوتی ہے ان سے باہر جاکر بھی کانکنی ہوتی ہے۔ بیچ ندی میں پوک لینڈ جیسی مشینیں لگانا عام بات ہے۔ یہ بھی افسوسناک ہے کہ پورے ملک میں جب کبھی ندی سے کھدائی پر سختی ہوتی ہے تو حکومتیں پتھر پیس کر ریت بنانے کی منظوری دے دیتی ہیں، اس سے پہاڑ تو تباہ ہوتے ہی ہیں آس پاس کی ہوا میں بھی دھول کے ذرّات آلودگی بڑھاتے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے ملک میں ضلع سطح پر وسیع پیمانہ پر ریسرچ کی جائے کہ ہر ایک چھوٹی بڑی ندی میں سالانہ ریت جمع ہونے کی صلاحیت کتنی ہے اور اس میں سے کتنی کو بغیر کسی نقصان کے نکالا جاسکتا ہے۔ پھر اسی کے مطابق تعمیراتی کاموں کی پالیسی بنائی جائے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انجینئروں کو ریت کے متبادل تلاش کرنے پر بھی کام کرنا چاہیے۔ اسی کے مطابق ریاستی حکومتیں اس ضلع میں ریت کے ٹھیکے دیں۔
آج یہ بھی ضروری ہے کہ مشینوں سے ریت نکالنے، ندی کے کس حصہ میں ریت کانکنی پر پوری طرح پابندی ہو، ٹرانسپورٹ میں کس طرح کے راستہ کا استعمال ہو، ایسے ایشوز پر وسیع پیمانہ پر مطالعہ ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی ندی کے ساحل پر آباد باشندوں کو ریت کی کھدائی کے برے اثرات کے تئیں حساس بنانے کی کوشش بھی ہونی چاہیے۔ عام لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ریت نکالنے کے بعد ندی کے ساحل سے متصل زمین کمزور ہوتی ہے اور اس کا اثر عمارتوں کی بنیاد پر بھی پڑتا ہے۔
[email protected]