ایم اے کنول جعفری
غزہ کے 20لاکھ بے کس اورلاچار مسلمانوں کو اسرائیلی جارحیت اور بدترین مظالم کا سامنا توہے ہی،یہ افراد شدید غذائی قلت کا شکاربھی ہیں۔ بچے بھوک و پیاس سے تڑپ کرموت کا نوالہ بن رہے ہیں،لیکن اس سے اسرائیل اور امریکہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔حماس سے بدلہ لینے کے جنون میں اندھے ہو چکے بنیامن نیتن یاہو اور ٹرمپ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ بھوک سے کسی کی موت واقع ہوئی ہے۔ 26جولائی تک 127افراد بھوک کی تاب نہ لاکرمرچکے ہیں۔ان میں 85بچے ہیں۔ اسپتالوں میں ہمہ وقت موت کے قریب ہورہے بچوں کاوزن مسلسل کم ہورہاہے۔بھوک سے بے حال بچوںکے چہروں پر جھریاں اُبھر آئیں، آنکھیں اندر دھنس گئیں اور پسلیاں باہر نکل آئی ہیں۔ ڈاکٹروں کو ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو چکے اجسام میں ہاتھ اور پیروں کی نسیں نہیں مل رہی ہیں۔اسپتال میں داخل غذائی قلت کے شکار15کلوگرام کے بچے کا وزن 6:50 کلوگرام رہنا اس کا ثبوت ہے۔والدین جہاں اپنے لخت جگر کو موت کے قریب جاتا دیکھ رہے ہیں،وہیں ڈاکٹر بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزیں ایجنسی(انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے ایک ساتھی کے حوالے سے بتایا کہ غزہ میں لوگ مردہ ہیں اور نہ زندہ،وہ صرف چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔100سے زیادہ بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط کا انتباہ دیتے ہوئے حکومتوں سے ضروری کارروائی کرنے کی درخواست کی ہے۔اقوام متحدہ نے خبردارکیا کہ غزہ میں امداد کی سطح انتہائی کم ہے۔یہاں بھوک کا بحران کبھی اتنا سنگین نہیں تھا،جتنا آج ہے۔ اسرائیل کی غزہ پرجاری گولہ باری میں59,676افراد شہید ہوچکے ہیں،جب کہ1.44لاکھ زخمی ہیں۔
غزہ کے لوگ بھوک کی تاب نہ لاکر دنیائے فانی کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔جنرل فلپ لازارینی کے مطابق ان کی ٹیم کووہاں انتہائی لاغراور کمزوربچے ملے ہیں۔اگر ان کا فوری علاج نہ کیاگیاتو شہادت کا خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت سے انسانی امداد کے شراکت داروں کو غزہ میں بغیر کسی روک ٹوک اور تعطل کے امدادی اشیا پہنچانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے رہنماؤں نے اسرائیل سے فلسطینی علاقے میں فوری طور پر امدادی سامان کے داخلے پر عائد پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا،تاکہ قحط کا شکار لوگوں تک مدد پہنچ سکے۔عالمی صحت تنظیم کا کہنا ہے کہ غزہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھوک کی گرفت میں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس کے مطابق وہ نہیں جانتے کہ آپ اسے بڑے پیمانے پر ’ قحط‘ کے علاوہ اور کیا کہیں گے اور یہ صورت حال خود انسانوں کی پیدا کی ہوئی ہے۔مقامی بازاروں اور دُکانوں میں کھانااور دیگر ضروری سامان دستیاب نہیں ہے۔ اگر کہیں ہے بھی،تو اس کی قیمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی اُسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ آٹا مہنگا ہے اور مشکل سے مل پاتا ہے۔
لوگ آٹا حاصل کرنے کے لیے سونے کی چیزیں اور ذاتی سامان فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔بچے کوڑے اور کچرے کے ڈھیر میں سے کھانے کے ٹکڑے تلاش کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ کھانا،پکانااورنہانا پرتعیش چیزیں بن چکی ہیں۔ چھوٹے بچوں کو یہ معلوم نہیںہے کہ پھلوں کا ذائقہ کیا ہوتاہے۔اسرائیل نے مارچ کی شروعات میں جنگ بندی کے بعد غزہ کو امداد کی فراہمی پر پابندی عائد کی تھی۔ تقریباً دو مہینے بعداسے جزوی طور پر نرم کیاگیاتھا،لیکن خوراک،ایندھن اور دوا کی کمی شدت اختیار کر گئی۔ اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ مل کر ’غزہ ہیومن ٹیرین فاؤنڈیشن(جی ایچ ایف) کے ذریعہ امداد پہنچانے کا نیا نظام قائم کیا۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق گزشتہ دو مہینوں کے اسرائیل کے ظالمانہ حملوں میں امداد کے متلاشی ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ان میں کم سے کم 766افراد اسرائیلی فوجی علاقے میں واقع ’ جی ایچ ایف‘ کے امریکی نجی سیکورٹی کنٹریکٹرز کے ذریعہ چلائے جانے والے4 مراکز کے قریب شہید ہوئے، جب کہ 288لوگ اقوام متحدہ اور دیگر امدادی قافلوں کے قریب مارے گئے۔ غزہ کے ایک اسپتال میں پناہ گزیں19سال کی بیوہ نجاح اتنی خوف زدہ ہے کہ وہ سوچتی ہے کہ اگر وہ امداد حاصل کرنے کے لیے مرکز گئی تواُسے گولی ماردی جائے گی۔ نجاح کا کہنا ہے،’میں اُمید کرتی ہوں کہ وہ ہمیں کچھ کھانے اور پینے کے لیے لائیں، ہم بھوک سے مر رہے ہیں، ہمارے پاس کھانے یا پینے کے لیے کچھ نہیں ہے،ہم خیموں میں رہتے ہیں،ہم ختم ہوچکے ہیں۔‘
غزہ میں برطانوی طبی فلاحی ادارے کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر عاصیل کا کہنا ہے کہ غزہ قحط کے قریب نہیں،بلکہ حقیقت میں قحط کا شکار ہوچکا ہے۔ان کے شوہرامدادی مرکز گئے اور سامان لے کر واپس آگئے،لیکن دوسری مرتبہ گئے تو انہیں گولی ماردی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں بھوک سے مرنا ہے تو مرجائیں، امداد کا راستہ موت کا راستہ ہے۔ غزہ کے لوگ ایک ایسی آفت جھیل رہے ہیں،جس کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔ غزہ میں ہر5میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ہر 3 میں سے ایک شخص کو کئی کئی روز تک کھانا میسر نہیںآتا۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق غزہ میں بھوک کا بحران مایوسی کی نئی اور حیران کن سطح تک پہنچ گیا ہے۔اس نے غزہ کے لیے خوراک کی امداد میں اضافے پر زور دیا۔ 90,000 خواتین اور بچوں کو غذائی قلت کے فوری علاج کی ضرورت ہے۔ مرسی کور، ایم ایس ایف، نارویجن رفیوجی کونسل سمیت 109 تنظیموں نے مشترکہ بیان میں کہا کہ امدادی کارکن خود قطاروں میں کھڑے ہوکر خوراک لینے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل کی مکمل ناکہ بندی سے غزہ میں قحط، افراتفری اور موت کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ کے اسپتال ٹراما سینٹر بن گئے ہیں،جو امداد کے متلاشی افراد پر حملوں کے نتائج میں زخمیوں سے بھر رہے ہیں۔ہر شخص خوراک کی تلاش میں ہے اورزندگی مفلوج ہوکررہ گئی ہے۔خوراک کی فوری فراہمی ہی بحران کو روک سکتی ہے۔ بھوک مٹانے کے لیے خوراک کی امداد کو پھرسے راستے پر لانا ہوگا۔ اسرائیلی فوج کی مستقل ناکہ بندی کے باعث فلسطین کے لوگ ایک وقت کی روٹی کو ترس گئے ہیں۔ مصر کی سرحد پر کھڑے امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ اسرائیلی مظاہرین نے فاقہ کش فلسطینی بچوں کی تصاویر لیے تل ابیب میں نیتن یاہو حکومت کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے امداد کی فوری فراہمی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ نیویارک میں بھی لوگوں نے غزہ میں غذا کا بحران ختم کرنے اور ٹرمپ حکومت سے اسرائیل کی حمایت بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ فلاحی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق غزہ میں صورت حال تباہ کن ہونے کے سبب ہر فرد بھوک کا شکار ہے۔ تقریباً10لاکھ بچے شدید بھوک سے متاثر ہیں۔ اسرائیل نے27جولائی کو عالمی دباؤ میں مواسی، دیر البلاح اور غزہ شہرکے گنجان آبادی والے علاقوں میں10گھنٹے کی جنگ بندی کااعلان کیاہے۔
غزہ کے لوگ موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ عالمی امن،آزادی اور مساوات کے علمبردار ایک غاصب اور غیرقانونی ریاست کی دہشت گردی کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود مجرمانہ چشم پوشی کر رہے ہیں۔ عالمی امن کا ڈھنڈورہ پیٹنے والے ٹرمپ اور امریکہ کی منافقت و دہشت گردی کا دوہرا معیار سب کے سامنے ہے۔ اس نے فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں 28اور29جولائی کو ہونے والی کانفرنس سے خود کو الگ کرلیاہے۔دنیابھر کے امن پسند شہری غزہ کے لوگوں کی بے بسی،بھوک و پیاس سے دردناک اموات،امدادی مراکز پر اسرائیلی دہشت گردی،خوراک و پانی کی قلت اور قحط و بھکمری کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، جب کہ جمہوریت و انسانیت کے نام نہاد جھنڈابردار مغربی ممالک اورعرب ریاستوں کے حکمران فلسطینیوں کی چیخیں سننے کے باوجود تاریخی نسل کشی کو دم سادھے دیکھنے میں مصروف ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
jafrikanwal785@gmail.com