مذہبی صحیفوں اور قرآن کی بے حرمتی: مذہبی جذبات بنام اظہارخیال کی آزادی

0

کچھ مغر بی ممالک اظہار خیال کی آزادی اور جمہوریت کے نام پر آگ سے کھیل رہے ہیں۔پچھلے دنوں یوروپ کے دوملکوں میں قرآن شریف کو جلانے اور اس کی بے حرمتی کرنے کی اجازت دے کر یہ ثابت کردیاہے کہ یہ ممالک مسلمانوں کے ساتھ مخلصانہ تعلقات اور مراسم بڑھانے کے لئے تیار نہیں ہیں اور بارہا اپنی حرکتوں سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ مذہبی جذبات کا احترام خاص طور پرمسلمانوں کے ساتھ، ان کی کتابوں اور دیگر علامتوں کی بے حرمتی کرکے وہ مسلسل ان کو صدمات سے دوچار کررہے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مغربی ممالک میں مضبوط جمہوریت قائم ہے اور وقفے وقفے سے انتخابات منصفانہ طریقے سے ہوتے ہیں ، کئی ملکوں میں شفافیت ،کھلے پن کے ساتھ ،تمام مکاتب فکر اور نسلوں کے لوگوں کو اپنی حکومتیں چننے کا اختیار ہے اور حکومتوں کے مضبوط انتظامیہ کی وجہ سے ہی ان ملکوں میں جمہوری ادارے مضبوط ہیں ، محفوظ اور حقیقت معنوں میں منتخب ممبران کو اظہار خیال کی آزادی ہے، لیکن بلا اشتعال اور بلا وجہ مذہبی جذبات کی توہین کرنا ،کتابوں کی بے حرمتی کرنا خاص طورپرقرآن شریف جیسے صحیفے کی بے حرمتی کے مواقع اور اجتماعات منعقد کرنا غیر مناسب ہے ۔اس کے علاوہ ستم تو یہ ہے کہ اس قسم کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے عدالتی احکامات اور وصول وضوابط کا حوالہ دیاجاتاہے ۔
سویڈن میں اس قسم کے دل خراش واقعات زیادہ طواطر کے ساتھ ہورہے ہیں ۔ستم یہ کہ سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کرنے والا شخص جومقام اور وقت منتخب کرتاہے وہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مذموم حرکتیں جان بوجھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ ہورہی ہیں، ورنہ کیا وجہ تھی کہ عراق سے بھاگ کر سویڈن میں پناہ لینے والا ایک مہاجر جو کہ مذہب کے اعتبار سے عیسائی ہے، اس کو دوسرے مذہب کی کتاب کی بے حرمتی کی اجازت دی جائے ،وہ بھی ایسے انداز میں کہ دل دہل جائے، مگر قربان جائیے کہ پیغمبر آخر زماں ،محسن انسانیت، فخر دوعالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور حسن اخلاق جس نے یہ سکھایا کہ بدترین جارحیت اور دل سوزی کے باوجود آپ صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔مسلمانوں نے عید کی نماز کے بعد ہونے والے اس قرآن سوزی کے اجتماع کے بعد اس دل خراش منظر کو بے بسی کے ساتھ دیکھا، میرے خیال میں یہ بے بسی نہیں تھی بلکہ یہ اس کتاب کی تعلیمات اور احکام خدا وندی کا نتیجہ تھا کہ موقع پر موجودہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے چوں تک نہیں کی۔اس واقعہ کے بعد پوری دنیا میں احتجاج ہوئے ، مسلمانوں کے تمام بڑے ممالک ، شخصیات ، مذہبی اکابرین اور حکمرانوں نے انتہائی شائستہ انداز میں اپنا احتجاج تو درج کرایا، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تمام کشادہ قلبی کے مظاہرہ کے باوجود مغرب کے روشن خیال طبقوں اور جمہوری طور پر منتخب لیڈروں نے کوئی ایسی کارگریا موثر کارروائی نہیں کی کہ اس قسم کے جان سوزی کے اقدامات کو روکا جاسکے۔ عراق کا وہ شخص جس کا نام سلوان نجم بتایاجاتاہے وہ سویڈن کا کوئی شہری بھی نہیں ہے اور نہ ہی ابھی تک کسی بھی طریقے سے یہ لگاہے کہ وہ ایک گرین کارڈ ہولڈر شہری ہو، جس کو سویڈن کے شہریوں کی طرح وہ تمام جمہوری انسانی مراعات حاصل ہوںکہ وہ ایسے اقدام کا مرتکب ہو، جس سے پناہ دینے والے ملک یعنی سویڈن کے دیگر ملکوں کے ساتھ رشتہ متاثر ہوتے ہیں،آخراسے ایسا کرنے کی اجازت کیوں کر حاصل ہے۔آج کے اس دور کشاکش میں جب کہ دنیا بدترین اقتصادی بحران ، سیاسی اتھل پتھل سے گزررہی ہے۔کوئی بھی پناہ گزیں سویڈن یا کسی دوسرے ملک میں جاکر اس طرح کے اقدام کرے ، پچھلے دنوں یہ بھی سننے میںآیا ہے کہ سویڈن کی سرکار سلوان نجم کو بحیثیت مہاجر قیام کرنے کی اجازت پر نظرثانی کررہی ہے۔ کئی حلقوں میں یہ خبر بھی سنائی دی کہ شاید اس کو ملک بدر کیاجائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ سلوان نجم عراق کا شہری ہے، اس قدم کے بعد سب سے زیادہ سخت اور پرتشدد ردعمل عراق سے ہی آیا۔عراق کے مقبول لیڈر مقتدا الصدر کی پارٹی اور ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں نے بغداد میں سویڈن کے سفارتخانہ کے باہر احتجاج کیا جو کہ پرتشددتھا، مگر مجموعی طور پر پورے عالم اسلام میں احتجاج تو کئے گئے،لیکن حدود اور دائرے میں رہتے ہوئے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔سب سے قابل ذکراورقابل ستائش بات یہ ہے کہ حکومت ہند نے اقوام متحدہ میں ان دل خراش واقعات پر ہونے والے اجلاس میں مسلم ملکوں کے ساتھ ووٹ دیا۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی طرف سے پیش ہونے والے اس ریزولیشن کی حکومت ہند نے تائید کی۔حکومت ہند کا یہ رویہ منصفانہ اور ہندوستان کی دیرینہ رواداری کی اقدار کا بہترین نمونہ ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ رہتاہے ، ہندوستان میں رہنے والی مسلمانوں کی تعداد انڈونیشیا کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔ حکومت ہند نے اس غیر معمولی سانحہ پر جو کشادہ قلبی اور روشن خیال کا ثبوت دیاہے۔وہ غیر معمولی ہے اور مثالی ہے ، جب کہ مغرب کے نام نہاد جمہوریت پسند ملکوں نے اپنی روایتی تنگ ذہنی کا مظاہرہ کیا۔امریکہ جیسے ممالک جومذہبی آزادی کے نام پر دوسرے ملکوں کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں ۔مذہبی آزادی کا انڈیکس جاری کرتے ہیں ، قراردادیں پاس کرتے ہیں ،ڈیلی کیشن بھیج کر زمینی حقائق کا پتہ لگاتے ہیں ، ایسے ممالک اس طرح کے بدبختانہ ، کمبختانہ ، بزدلانہ اور مسلمانوں کے جذبات کے تئیں تجاہل عارفانہ کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اس طرح کے ہتھکنڈوں کی مذمت کرنے میں بخل اور جانبداری سے کام لیتے ہیں۔
مسلمانوں کے سخت رویہ کو دیکھتے ہوئے بطور خاص آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے 57ممالک کے مشترکہ موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے سویڈن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنے موقف سے آگاہ کرے گا۔سویڈن کے وزیرخارجہ توبیاس بل اسٹورم نے کہاہے کہ ان کا ملک تمام ممبرممالک کو ایک مکتوب لکھ کر اسلاموفوبیا کے اس عمل کی مذمت کرے گا اور اپنے موقف سے روشن کرائے گا ۔اوآئی سی کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لیاگیاہے کہ ممبرممالک اس طرح کے واقعات کے خلاف سیاسی اقتصادی اقدام کریں ۔اسی طرح ڈنمارک کے وزیرخارجہ نے بھی او آئی سی ممالک کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بات دہرائی،مگر ڈنمارک کے وزیرخارجہ رسموسین نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اسلامی ملکوں کے تنظیم کے ممبران کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہے گا اور اس موقع پر پاس ہونے والی قرار داد اور سفارشات پر غور کرے گا۔
خیال رہے کہ کئی حلقوں میں اس بات کو دہرایاجارہا ہے کہ سویڈن جو کہ ایک یوروپی خطے کانارڈک ملک ہے ،اس کی ناٹو میں شمولیت کو لے کر ترکی نے کچھ اعتراضات داخل کئے تھے جو سویڈن اور فن لینڈکوناٹو کا ممبربنانے کے اپنے تحفظات اور اس کی خود کی داخلی سیکورٹی و سالمیت کو لے کر کے ظاہر کئے تھے، مگر سویڈن نے ترکی کے اس رویہ کی وجہ سے اس طرح کے دل خراش مظاہروں کی اجازت دے کر اپنی دانست میں ترکی سے بدلہ لینے کی کوشش کی ، اگر چہ یہ بات بھی صحیح ہے کہ ترکی نے سویڈن کی رکنیت کو لے کر کئے گئے اعتراضات کو واپس لے لیاتھا، مگر اس کے باوجود سویڈن میں قرآن سوزی کے واقعات ہورہے ہیں۔ اس پورے تناظر سے اس پروپیگنڈے کی بھی نفی ہوتی ہے کہ مغربی ایشیا سے ہجرت کرنے والے لوگوں میں مسلمان ہی ہیں۔مغربی ایشیا کے داخلی خلفشار اور خارجی مداخلت کی وجہ سے ہر طبقے اور عقیدے کے لوگ ہجرت کررہے ہیں۔ یہ ہجرت جان ومال کی تحفظ کی خاطر ہورہی ہے اور اس ہجرت کا مقصد ان ملکوں پر قبضہ کرنا نہیں ہے جہاں پر وہ پناہ لینا چاہتے ہیں ، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یوروپ کے بہت سے ممالک مغربی ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں پرطویل عرصہ تک قابض رہے ہیں ، ان ممالک میں سویڈن ، فرانس، بلجیم ، اٹلی اور پرتگال کے علاوہ برطانیہ بھی شامل ہیں ،آج جبکہ یہ ممالک برے وقت سے گزررہے ہیں ان ملکوں کی معمولی آبادی کی منتقلی ان مغربی ممالک کو گراں گزررہی ہے۔یہ وطیرہ مغرب کی سامراجی طاقتوں کے تانا شاہی والے رویہ پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔rtq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS