عیسیٰ نفس مسیحائوں کی بے حرمتی اور قتل

0

عورتوں کی پرستش کرنے والے ہندوستانی معاشرہ میں جنسی ہراسانی اور درندگی عروج پر ہے۔ دہلی سے کولکاتا تک ہر روز کوئی نہ کوئی لرزہ خیز واقعہ انسانیت تک کو جھنجھوڑجاتا ہے۔ مغربی بنگال کی راجدھانی کولکاتا میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ چند یوم قبل پیش آیا۔یہاں کے معروف سرکاری اسپتال آر جی کار میڈیکل کالج اینڈ ہاسپیٹل کے سمینار ہال میں پوسٹ گریجویٹ کی طالبہ و ایک جونیئر خاتون ڈاکٹر کی مسخ شدہ خون آلود لاش ملی۔ مقتولہ کے بدن پر کپڑے ادھورے تھے اور جابجا سنگین زخم بھی پائے گئے۔ پہلے پولیس نے کہا کہ اس خاتون ڈاکٹرنے خودکشی کی ہے۔ لیکن پوسٹ مارٹم نے اس بات کی تصدیق کی کہ قتل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی، وحشیانہ طریقہ سے اس کی عصمت دری کی گئی اور بعدازاں ظالموں نے اسے انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا کہ مقتولہ کی آنکھوں، منہ اور شرمگاہ سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کی بائیں ٹانگ، گردن، دائیں ہاتھ اور ہونٹوں پر بھی زخم آئے تھے۔
اس واقعے کے خلاف گزشتہ جمعہ کے روز سے کولکاتامیں ڈاکٹروں نے ہنگامی خدمات بند کر دی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ پہلے بچیں گے پھر بچائیں گے۔ان کی اس ہڑتال کی وجہ سے صحت خدمات ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل پر ڈاکٹروں کا احتجاج پیر کی شام اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب آر جی کار میڈیکل کالج اور اسپتال کے پرنسپل کو دن کے اوائل میں استعفیٰ دینے کے بعد شہر کے ایک اسپتال میں بحیثیت پرنسپل تعینات کر دیا گیا۔آج منگل کو ہندوستان کے ریزیڈنٹ ڈاکٹروں نے اس واقعہ کے خلاف احتجاج کیا، ایمس دہلی کے ڈاکٹروں کے احتجاج کی وجہ سے قومی راجدھانی میں صحت خدمات متاثر ہونے کی خبریںہیں۔ دہلی اور پونے کے دیگر بڑے اسپتالوں، لکھنؤ کی کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی اور جے پور کے سوائی مان سنگھ میڈیکل کالج میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
احتجاج کرنے والے میڈیکل طلبا یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ ہمارے ملک میںگھر، باہر، اسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں،اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ملک کے ہر شہری کے ذہن میں گونج رہا ہے۔ ہندوستان میں خواتین حقیقتاً غیرمحفوظ ہیں، کام کی جگہ یا تفریح کی جگہ، سنسان سڑک ہو یا بھری پری عمارت، خواتین کو کہیں احساس تحفظ نہیں ملتا ہے۔2022کے این سی آ ر بی ڈیٹا کے مطابق ہندوستان میںیومیہ عصمت دری کی 90 وارداتیں ہوتی ہیں۔یہ وہ ڈیٹا ہے جو ریکارڈ پر ہے پتہ نہیں ایسے کتنے واقعات ہوں گے جن کے بارے میں متاثرین زبان نہیں کھول پاتی ہیں۔اسپتال اور شفاخانہ کو اس لیے محفوظ سمجھاجاتاہے کہ وہاں عیسیٰ نفس خواتین مسیحائی کرتی ہیں،ان کے ساتھ بدسلوکی یا ان کی بے حرمتی کا تصور بھی مشکل ہوتا ہے لیکن اب تو اسپتال اور شفاخانہ بھی ان کیلئے غیرمحفوظ ہوگئے ہیں۔2012 میں دہلی اور 2019 میں حیدرآباد میں دو خواتین ہیلتھ ورکرز کی عصمت دری اور قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔دہلی میں فیزیوتھیراپی کی طالبہ اور حیدرآباد میں جانوروں کے ڈاکٹر کا ریپ اور قتل سنسان سڑ ک پر ہوا مگر آر جی کار میڈیکل کالج میں جونیئر خاتون ڈاکٹرکی عصمت دری اور قتل خود اس کے ہی میڈیکل کالج کے اندر ہوا۔ میڈیکل کالج طب کے طلبا کا گھرہوتاہے، جہاں وہ اپنا زیادہ تر وقت گزارتے ہیں۔ اس گھر کو محفوظ رکھنا، کام اور تفریح کیلئے موزوں بنانا کالج اور اسپتال کے حکام کی ذمہ داری ہے۔ اگر سی سی ٹی وی اور سیکورٹی گارڈز کی موجودگی کے باوجود وہ سیکورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی ہے، تو یہ نہ صرف لاپروائی بلکہ ایک سنگین جرم بھی ہے۔ اس معاملے میں کالج انتظامیہ ہی قصوروار ہے۔ وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے مجرمین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس گھناؤنے واقعہ میں زیادتی کرنے والے اور قاتل سخت سزا کے مستحق ہیں۔
آج کلکتہ ہائی کورٹ نے اس معاملے کی تفتیش سی بی آئی کے سپرد کردی ہے ممکن ہے تفتیش کے بعد معاملہ یکسو ہوجائے اور قاتلوں کو سزا بھی ملے لیکن آر جی کار میڈیکل کالج کے معاملے میں کئی ایسے سوال ہیںجن کا جواب ملنا بھی ضروری ہے۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ اتنے بڑے کالج میں ایک غیرمحفوظ سمینار ہال کو ہی خواتین ڈاکٹروں کیلئے آرام گاہ کے طور پر کیوں نامزد کیا گیا؟ اس کے باہر سی سی ٹی وی جیسا بنیادی حفاظتی نظام کیوں نہیں تھا؟اس علاقہ میں سیکورٹی گارڈ گشت کیوں نہیں کررہے تھے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو یہاں کے طلباو طالبات پہلے سے ہی کالج انتظامہ سے کرتے رہے ہیں لیکن کالج انتظامیہ نے ان کی بات نہیں سنی۔اس سنگین لاپروائی اور غیر ذمہ داری کا واحد سبب سیاست ہے جو آج مغربی بنگال کے ہر تعلیمی ادارہ کو گھن کی طرح کھارہی ہے۔ جنرل کالجوں کی طرح ہی میڈیکل کالج کے انتظامیہ میں بھی سیاسی مداخلت انتہاکو پہنچی ہوئی ہے، اگرا یسا نہ ہوتا تو کالج کے پرنسپل کا استعفیٰ لیے جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی اسے دوسرے میڈیکل کالج کا پرنسپل نہیں بنایاجاتا۔اگر سیاسی مداخلت نہ ہوتی توپولیس افسران واقعہ کی مناسب تفتیش سے قبل لڑکی کی موت کو ’خودکشی‘ قرار نہیں دیتے۔
ایسے دل دہلادینے والے واقعات کا اعادہ روکے جانے کیلئے ضروری ہے کہ ان معاملات میںتیز رفتار تفتیش اورسزا کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو سیاسی غنڈوں کی دست برد سے بچایا جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS