پٹری سے اترتی ریل اور وزیر ریل

0

ملک میں بڑھتے ریل حادثات وزارت ریلوے کیلئے تشویش ناک امر ہوناچاہئے لیکن افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ وزیر ریل ان حادثات سے نہ تو متاثر نظرآرہے ہیں اور نہ ان کی سنگینی کے تعلق سے کسی بات کا سنجیدہ جواب دینا اپنی ذمہ داری سمجھ رہے ہیں ۔آج لوک سبھا میں یہی منظر دیکھنے کو ملا جب حزب اختلاف نے وزیر ریل اشونی وشنو سے حادثات کی بابت بیان دینے کو کہا تو وہ ناراض ہوگئے اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق اپوزیشن کو ہی اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دینے لگے ۔ایوان میں جب اشونی وشنو بولنے کیلئے کھڑے ہوئے تو حزب اختلاف کے ممبران پارلیمنٹ نے ’’اشونی وشنو ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگائے جس سے وہ اپنا آپاکھو بیٹھے اور پارلیمنٹ میں ایک ہیڈماسٹر کی طرح حزب اختلاف کے اراکین کو سخت ڈانٹ ڈپٹ کی۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلسل ہونے والے ریل حادثات کو اپنی ناکامی سمجھتے ہوئے وہ اپنا استعفیٰ سونپ دیتے لیکن اس کے برعکس وہ 58برسوں کے کانگریس کے اقتدار کی کہانی سنانے لگے اور کہا کہ ان58برسوں میں اقتدار میںرہنے کے بعد بھی کانگریس نے آٹومیٹک ٹرین پروٹیکشن (اے ٹی پی) کیوں نہیں لگا یا؟آج سوال کرنے سے بہتر یہ ہوتا کہ وہ کانگریس کے58برسوں کے اقتدار میں یا پھراس کے بعد ممتابنرجی کی وزارت کے زمانے میں یہ لگادیاجاتاتو یہ حادثات نہیں ہوتے۔ موصوف نے یہ بھی کہا کہ آ ج حادثات کی شرح 0.24 فیصد سے کم ہو کر 0.19 فیصد پرآگئی ہے ۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے اس کے باوجود حزب اختلاف ریل حادثات کو اگر موضوع بنارہاہے تو یہ اس کی بدنیتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اشونی وشنو کوئی ناخواندہ سیاست دان ہیں موصوف آئی اے ایس افسر رہ چکے ہیںوہ حکومتوں کے کام کاج کے طریقے سے اچھی طرح واقف ہیں یہ بھی جانتے ہیں جدید ٹیکنالوجی کا آغاز اور ہندوستان میں اس کا استعمال کب سے شروع ہوا ۔ وہ اس سے بھی واقف ہیں کہ ٹرینوں کوحادثات سے بچانے کیلئے اے ٹی پی کا جدید انتظام ’ کوچ‘ (KAVACH) ہندوستان میں2012میں متعارف ہوااوراس کی تکمیل 2022میں ہوئی ۔ ان سب کے باوجود اگر وہ ریل حادثات کیلئے سابقہ58برسوں کی حکومتوںکو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں تو اس سے ریل حادثات کے تئیں ان کی سنجیدگی کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران جس تواتر سے ریل حادثات ہوئے اسے دیکھتے ہوئے یہ انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ یہ ریلوے حکام کی غفلت، لاپروائی اور غیر سنجیدگی کانتیجہ ہے ۔ایک ہی مہینہ میں کئی حادثات ہونا بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے ۔
گزشتہ سال جون میں اوڈیشہ کے بالاسور میں تین ٹرینوں کا زبردست تصادم ہوا تھا جس میں 300 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 1000 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ 2023میںہی اکتوبر کے مہینہ میں پھر دو حادثات ہوئے پہلا حادثہ 11 اکتوبر 2023 کو دہلی سے گوہاٹی جانے والی نارتھ ایسٹ ایکسپریس کے ساتھ پیش آیا جو بہار کے بکسر میں پٹری سے اتر گئی۔اس حادثہ میں 4 مسافر جاں بحق اور 60-70 افراد زخمی ہوئے۔ پھر29 اکتوبر 2023 کو آندھرا پردیش میں دو مسافر ٹرینوں کے درمیان سنگین تصادم ہوا جس میں 14 مسافروں کی موت ہو گئی اور بہت سے لوگ زخمی ہو گئے۔ رواں سال 17 جون کو کنچن جنگا ایکسپریس پٹری سے اتر گئی تھی جس میں 11 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ پھر گزشتہ ماہ 18 جولائی کو اتر پردیش کے گونڈہ ریلوے اسٹیشن کے قریب ٹرین کے 8ڈبے پٹری سے اتر گئے جس میں 4 افراد ہلاک اور 35 سے زائد زخمی ہوئے۔ 26 جولائی 2024کو دربھنگہ سے نئی دہلی جانے والی بہار سمپرک کرانتی کو دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اس کا انجن تقریباً 100 میٹر آگے چلا گیا اور تمام ڈبے پیچھے رہ گئے بعد میں کسی نہ کسی طرح انجن سے الگ ہوجانے والے باقی ڈبوں کو جوڑا گیا ۔ تین دن پہلے 30جولائی کو جھارکھنڈ میں ہوڑہ-ممبئی میل کے 20 ڈبے ایک مال ٹرین سے ٹکرا گئے اور پٹری سے اتر گئے۔ جس میں کئی لوگوں کی موت ہوگئی اور درجنوںمسافرزخمی ہوگئے ۔جہاں یہ ٹرین حادثہ ہوا، وہاں ایک مال گاڑی پہلے ہی پٹری سے اتر چکی تھی، لیکن اس کے ڈبے ابھی بھی پٹری پر موجود تھے۔ اسی دوران پیچھے سے آنے والی ہوڑہ-ممبئی میل مال گاڑی کے ڈبوں سے ٹکرا گئی اور پھر معصوم لوگوں کی جانیں داؤ پر لگ گئیں۔اس کے اگلے ہی دن 31جولائی کویعنی گزشتہ کل مغربی بنگال میں دارجلنگ ضلع کے رنگاپانی میں مال گاڑی کے دو ڈبے پٹری سے اتر گئے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ان میں بیشتر حادثات کیلئے ذمہ داری کا تعین کرنے کی بجائے ریلوے حکام سازش کے تار تلاش کررہے ہیں ۔سوشل میڈیا کے ذریعے شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اتنے زیادہ حادثات کسی نہ کسی سازش کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔یعنی اس سے پہلے کہ وزارت ریلوے پر انگلیاں اٹھیں کسی ممکنہ سازش کاشوشہ چھوڑدیاجائے تاکہ احتساب سے بچا جاسکے،لیکن یادرہے کہ یہ رویہ وزیرریل کو جواب دینے سے نہیں بچا سکتا۔ریل سفر کو حادثات سے مکمل طور پر محفوظ بناناوزارت ریلوے اور مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے اور دونوں ہی اس ذمہ داری کی ادائیگی میںمکمل ناکام ہوچکے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS