محمد فاروق اعظمی
آج ملک کا ماحول ایسا بن گیا ہے کہ کورونا سے کرکٹ تک ہر چیز کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔آثار یہ بھی ہیں کہ حالات اگلے چند برسوں تک نہ صرف ایسے ہی رہیں گے بلکہ اس سے بھی بدتر ہونے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
ملک میں سیاست کے دو اہم کھلاڑیوں پرشانت کشور اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی صورتحال کے مزید بھیانک ہونے کے خدشات ظاہر کیے ہیں۔ پرشانت کشور کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی آنے والی کئی دہائیوں تک ہندوستانی سیاست کا مرکز رہنے والی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی جیت یا ہار سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑ ے گا۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کیلئے کامیاب مشیر کا کردار ادا کرچکے پرشانت کشور کا دعویٰ ہے کہ حزب اختلاف اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ عوام مودی سے ناراض ہیں اور وہ مودی جی کو انتخاب میں شکست دیں گے تو بی جے پی کی حکومت چلی جائے گی۔ایسا بالکل نہیں ہے۔ بی جے پی کہیں نہیں جارہی ہے بلکہ آنے والی چند دہائیوں تک سیاست میں اس کامرکزی کردار رہے گا۔ پرشانت کشور نے اس کے ساتھ ہی کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ سیاست کے اس کھیل کو اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں۔ بعینہٖ یہی باتیں ممتابنرجی نے بھی کہی ہیں۔ ممتابنرجی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم مودی کو طاقتور بنانے میں کانگریس کا ہاتھ ہے۔ کانگریس انتخابی سیاست میں سنجیدہ نہیں ہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی مزید طاقتور ہوں گے۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان دونوں سیاسی کھلاڑیوں نے یہ باتیں گوا میں کہیں جہاں بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت ہے۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں خلاف توقع کامیابی حاصل ہونے کے بعد ترنمول کانگریس اور ممتابنرجی کے حوصلوں کو پر مل گئے ہیں اور وہ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی انتخابی سیاست کیلئے ہاتھ پیر مار رہی ہیں۔ گوا میں اگلے سال 2022 نومبر میں اسمبلی انتخاب ہونے ہیں۔ ترنمول کانگریس نے اس ریاست کی کل40اسمبلی سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے اوراس کا مقابلہ حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی سے ہونا ہے لیکن تنقید اور مخالفت وہ کانگریس کی کررہی ہیں۔
بھارتیہ جنتاپارٹی کے ساتھ مقابلہ کیلئے ضرور ی تو یہ تھا کہ یہ دونوں کھلاڑی بی جے پی کی کمزوریوں، خامیوں اور عوام دشمن پالیسیوں پر تنقید کرتے لیکن ایسا نہ کرکے وہ حالات کا ذمہ دار کانگریس کو بتارہے ہیں اور آنے والی چند دہائیوں کے سلسلے میں بھی عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھارہے ہیں کہ بی جے پی ہی حکمراں رہے گی اور اس کا سبب کانگریس یا یوں کہیں کہ کمزور ہوچکی کانگریس ہے۔
یہ درست ہے کہ ملکی سیاست میں کانگریس بوجوہ اپنا مطلوبہ کردار ادا نہیں کرپائی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس کو کمزور اور بی جے پی کا ہاتھ مضبوط کرنے میں علاقائی پارٹیوں کا سرگرم کردار رہا ہے۔ خود ترنمول کانگریس بھارتیہ جنتاپارٹی کی نہ صرف حلیف رہ چکی ہے بلکہ اس کی سپریمو ممتابنرجی این ڈی اے کی حکومت میں کابینہ وزیر بھی رہ چکی ہیں۔اب بھی وہ کانگریس کو توڑ کر بالواسطہ بھارتیہ جنتاپارٹی کو فائدہ پہنچارہی ہیں۔ اس کی مثال تری پورہ سے کانگریس کی خاتون صدر سشمتادیب کو ترنمول کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا اور گوا سے سابق وزیراعلیٰ او ر کانگریس ایم ایل اے لوئی زنہوفلیرو اور نفیسہ علی کو ترنمول کانگریس میں شامل کرنا ہے۔مغربی بنگال میں اپوزیشن کانگریس اور سی پی آئی ایم کو دیوار سے لگاکر انہوں نے بھارتیہ جنتاپارٹی کیلئے کھلا میدان فراہم کردیا اور وہ آج 2سے بڑھ کر 70سیٹوں پر قابض ہوگئی۔ یہی حال دوسری سیاسی پارٹیوں کا ہے، اترپردیش کی بہوجن سماج پارٹی بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت چلاچکی ہے۔ جنتا دل متحدہ تو بی جے پی کی پرانی حلیف ہے، بہار میں بی جے پی -جے ڈی یو کی مشترکہ حکومت ہے۔ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک کانگریس کو کمزور کرنے میں علاقائی پارٹیوں کے وقتی اور ذاتی مفاد نے سرگرم کردارادا کیا ہے۔خود کو ’ آل انڈیا‘کہنے والی ان نام نہاد سیکولر علاقائی پارٹیوں نے اپنے مخصوص علاقہ سے باہر نکل کر قومی سیاست میں مثبت کردار کے حوالے سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کے بڑھتے قد م روکنے کی بجائے جہاں موقع ملا ان علاقائی پارٹیوں نے اس سے مفاہمت کی اور حکمرانی میں حصہ دار ہوگئیں۔
افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ علاقائی پارٹیاں قومی سطح پر اپنا مثبت کردار اداکرنے کیلئے اب بھی تیار نہیں ہیں۔ ممتابنرجی نے بڑے ہی باجے گاجے کے ساتھ ’یونائٹیڈ انڈیا‘کااراد ہ ظاہر کیا تھا۔ غیر بی جے پی پارٹیوں کا اتحاد بنانے کے حوالے سے ان کی سرگرمیوں نے قومی سطح پرا نہیں اسپیس بھی دیا لیکن ان کی خواہش اتحاد کی قیادت سنبھالنے کی تھی جس پر دوسری پارٹیوں کو کئی سارے تحفظات تھے اور یوں ہوا کہ مثبت جواب نہ ملنے سے برہم ترنمول سپریمو، کانگریس کے خلاف ہی بزن بولنے لگیں۔
اس سے انکار نہیں کہ کانگریس کمزور ہے۔اس کے کئی لیڈران غیر مطمئن بھی ہیں، اس پارٹی میں اندرونی اختلافات بھی ہیں۔ قیادت کا بھاری بوجھ سنبھالے سونیا گاندھی کبھی کبھی لڑکھڑا بھی جاتی ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ کانگریس کے بغیر ہندوستان میں کوئی اتحاد بھارتیہ جنتاپارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔کانگریس بہرحا ل ہندوستان کی ایک قدیم سیاسی پارٹی ہے جس کا کردار کسی خاص علاقہ اور ریاست تک محدود نہیں، یہ قومی پارٹی علاقائی مفاد سے بالا اٹھ کر پورے ملک کے سیاسی منظر نامہ میں رنگ بھر سکتی ہے۔بھارتیہ جنتاپارٹی کی ناقص پالیسیوں، ملک میں پھیل رہے نفرت انگیز نظریات اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی ختم کرنے، جمہوریت اور سیکولر زم کی بحالی اور آئین کی سربلندی کیلئے علاقائی پارٹیوں کو کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اپنی ایک ریاست میں جیتنے کے بعد ان پارٹیوں کے قائدین کے سر میں قومی لیڈربننے اور ملکی قیادت کا سودا سماجاتا ہے۔ نہ ان پارٹیوں کے پاس اتنی افرادی قوت اور کارکن ہیں کہ وہ قومی سطح پر بھارتیہ جنتاپارٹی کا مقابلہ کرسکیں نہ قومی مفاد اور ملکی سیاست کا وہ شعور ہے جو کسی قائد میں ہوناچاہیے۔اس کے باوجود یہ چاہتی ہیں کہ قیادت ان کے سپرد کی جائے۔اپنے اس خواب کوحقیقت کا روپ دینے کیلئے یہ بی جے پی کی بجائے کانگریس کے خلاف ہی تلوار سونت کر میدان میں آنکلتی ہیں۔ ممتابنرجی اور پرشانت بھی گوا میں یہی کررہے ہیں۔ مقابلہ بی جے پی سے ہے گالیاں کانگریس اورر اہل گاندھی کو دی جارہی ہیں۔
ملک کو مفسدانہ اور نفرت انگیز نظریات سے بچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔اس کیلئے علاقائی اور ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام کانگریس کو ساتھ لیے بغیر نہیں کیاجاسکتا ہے۔
[email protected]