جنگ جب چل رہی ہو تو مدمقابل کو کمزور کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ناکہ بندی کی جاتی ہے، رسد کو پہنچنے سے روکا جاتا ہے، دشمن کو کمزور بتانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اپنوں کا اعتماد اس پر متزلزل ہو، دشمن کے خلاف پروپیگنڈے کا سلسلہ تو خیر چلتا ہی رہتا ہے۔ اسی لیے جنگ کے دوران دعویٰ سے کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے اور کہنا بھی نہیںچاہیے، خبر کو خبر سمجھ کر پڑھنا چاہیے، حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جیسے 7 اکتوبر، 2023 کو حماس نے حملے کیے مگر اس نے اچانک حملے کیوں کیے؟ ان حملوں کی اصل وجوہات کیا تھیں؟ اس پر کیا دعویٰ سے کچھ کہنا آسان ہے؟
ایسا تو نہیں ہے کہ حماس کے ذمہ داران کو اسرائیل کی طاقت کا اندازہ نہیں رہا ہوگا؟ وہ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ ان کے حملوں کے بعد اسرائیل جوابی کارروائی ضرور کرے گا اور امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر طاقتور ممالک کھل کر اسی کا ساتھ دیں گے اور اہل غزہ کے لیے ہمدردی کا اظہار کرنے والے ملکوں کی تعداد بھی کافی کم ہوگی؟ حماس کے ذمہ داروں کو یہ بات بھی معلوم رہی ہوگی کہ اپنوں کو گنوانے کے بعد بیشتر اہل غزہ کی دماغی حالت کیا ہو جائے گی۔ اس کے باوجود اس کے جنگجوؤں نے حملے کیے تو کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اہل عزہ پر یقین تھا کہ وہ ہر قربانی دیں گے، یہ سمجھیں گے کہ ابراہم معاہدے سے خطے کے کئی اور ممالک وابستہ ہوگئے تو پھر فلسطینیوں کے آزاد فلسطین کا خواب خواب ہی رہ جائے گا، اسی لیے امریکہ کے صدارتی انتخابات سے پہلے حماس نے حملے کیے تاکہ ٹرمپ کے صدر بن جانے کے بعد بھی حالات اس طرح کے نہ رہیں کہ اسرائیل بغیر جنگ کیے جیت جائے؟
حیرت اس بات پر ہے کہ غزہ جنگ ایک سال سے زیادہ عرصے تک چلتی رہی، اسرائیل کی بمباری کا سلسلہ جاری رہا لیکن اہل غزہ نے حماس کے خلاف احتجاج نہیں کیا، مظاہرے نہیں کیے جبکہ چند دنوں کی فائر بندی کے بعد غزہ جنگ دوبارہ شروع ہوئی ہے تو حماس کے خلاف غزہ کے کئی لوگوں کے مظاہرہ کرنے کی خبر آگئی ہے۔ مظاہرین نے کیا یہ بات مان لی ہے کہ قصوروار حماس ہی ہے یا اس طرح کا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ رپورٹ کے مطابق، 25 مارچ، 2025 کو شمالی غزہ میں سیکڑوں فلسطینیوں نے اسرائیل کے ساتھ جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور اپنی بات منوانے کے لیے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے ’حماس آؤٹ‘ کے نعرے لگائے۔ اسے ’دہشت گرد‘قرار دیا۔ یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ کیا یہ مظاہرین اعتدال پسند تھے یا واقعی امن پسند تھے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ مظاہرے بیت لاہیہ نام کے علاقے میں ہوئے۔ اس مظاہرے کے لیے ’ٹیلیگرام‘ پر پہلے ہی اپیل کر دی گئی تھی۔ مظاہرین میں سے ایک شخص سید محمد کی اس بات کو رپورٹ میں نقل کیا گیا ہے کہ ’میں نے عوام کی طرف سے پیغام دینے کے لیے احتجاج میں حصہ لیا ہے ،کیونکہ جنگ بہت زیادہ اور طویل ہو چکی ہے۔ میں نے وہاں حماس کے لوگوں کو اس مظاہرے کو منتشر کرتے ہوئے دیکھا۔‘مظاہرین میں سے ایک اور شخص مجیدی کا کہنا تھا، ’لوگ اب تھک چکے ہیں۔۔۔۔اگر حماس کے اقتدار چھوڑ دینے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے توعوام کے تحفظ کے لیے حماس اقتدار چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟‘یہ مظاہرے عالمی میڈیا کی سرخیوں میں اس لیے بھی ہیں کہ حماس کے خلاف اس طرح کے مظاہرے عام طور پر نہیں ہوتے ہیں۔
7 اکتوبر، 2023 کے حملوں کے بعد یہ پہلا مظاہرہ ہے جو اس کے خلاف، رپورٹ کے مطابق، غزہ کے لوگوں نے کیا ہے۔ کیا چند دنوں کی فائر بندی نے غزہ کے کچھ لوگوں کو حماس کے خلاف کر دیا ہے اور انہیں یہ لگتا ہے کہ حماس کے اقتدار سے الگ ہوجانے پر غزہ کے حالات بہتر ہو جائیں گے، وہاں امن قائم ہوجائے گا؟ کیا یہ لوگ مغربی کنارہ کے حالات سے واقف نہیں ہیں؟ مغربی کنارہ حماس کے زیر اثر نہیں ہے مگر کم ہی سہی، حالات وہاں بھی خراب ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ وہاں حالات خراب کیوں ہیں؟