جمہوری عمل یا سیاسی مفاد؟

0

مہاراشٹر کی حالیہ سیاسی صورتحال نے نہ صرف ریاست کی جمہوریت کو ایک کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے بلکہ عوام کے اعتماد اور سیاسی اخلاقیات پر بھی کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ حکومت سازی کا آخری سنگ میل عبور کرنا بلاشبہ ایک اہم پیش رفت ہے،لیکن اس کے پس پردہ واقعات اور عمل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جمہوری نظام میں شفافیت اور عوامی مفادات کی تقدیم کا خاتمہ ہوچکاہے۔ دیویندر فڑنویس،ایک ناتھ شندے اور اجیت پوار کی قیادت میں حکومت سازی کا عمل،جو بظاہر جمہوریت کی فتح نظر آتا ہے،درحقیقت ایک ایسی کہانی کو جنم دیتا ہے جو سیاست کی پیچیدگیوں اور اقتدار کی رسہ کشی کا عکاس ہے۔

حکومت سازی کے اس عمل میں جو تاخیر دیکھنے کو ملی،اس نے نہ صرف عوام کو بے یقینی کے عالم میں مبتلا کیا بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا سیاست دان عوامی خدمت کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں؟ قطعی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود حکومت کے قیام میں دس دنوں سے زائد کا وقت لگنا اس بات کا غماز ہے کہ اقتدار کی تقسیم اور ذاتی مفادات نے جمہوری اقدار کو پس پشت ڈال دیا۔ عوامی اعتماد،جو جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہے،اس تاخیر کے باعث متزلزل ہوا۔

مہاراشٹر کی موجودہ سیاسی صورتحال میں جمہوریت کے اصول شفافیت اور عوامی خدمت کی اہمیت کو نظرانداز کیا گیا ہے، جس کا اظہار حکومت سازی کے عمل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دیویندر فڑنویس،ایکناتھ شندے اور اجیت پوار پر مشتمل حکومت کا اتحاد کسی نظریاتی ہم آہنگی کا نتیجہ نہیں،بلکہ اقتدار کی پیچیدہ تقسیم اور ذاتی مفادات کا عکاس ہے۔ اس اتحاد نے عوام میں یہ تاثر مزید گہرا کر دیا ہے کہ سیاستدانوں کی اصل ترجیح عوامی خدمت نہیں بلکہ اپنی کرسی کو محفوظ رکھنا ہے۔

اس تناظر میں،مارکر واڑی گائوں کے عوام کے ای وی ایم پر اٹھائے گئے سوالات جمہوریت کی شفافیت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ گائوں والوں کا بیلٹ پیپر کے ذریعے دوبارہ ووٹنگ کا مطالبہ دراصل ان کا جمہوری حق بازیاب کرنے کی کوشش تھا، لیکن اس مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے انتظامیہ نے امتناعی احکامات نافذ کرکے عوام کی آواز دبانے کی کوشش کی۔ اس طرز عمل نے نہ صرف عوامی جذبات کو مجروح کیا بلکہ جمہوری نظام کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھا دیے، جو اس بات کے غماز ہیں کہ سیاسی مفادات کی رسہ کشی نے جمہوریت کی حقیقی روح کو کچل دیا ہے۔ مارکر واڑی کے لوگوں کا یہ سوال کہ بی جے پی کو ماضی میں اتنے ووٹ کیوں نہیں ملے تھے اور اس بار اچانک ووٹوں میں اضافہ کیسے ہوا،ایک حقیقی عوامی تشویش ہے۔ اگر الیکشن کمیشن اور انتظامیہ ان کے اس مطالبے کو تسلیم کرتے اور بیلٹ پیپر کے ذریعے دوبارہ انتخابات کا انعقاد کرتے،تو یہ نہ صرف عوامی اعتماد کو بحال کرنے کا ذریعہ بنتا بلکہ انتخابی عمل کی شفافیت کے حق میں ایک مضبوط دلیل بھی ہوتی۔ لیکن انتظامیہ کے سخت رویے اور عوامی جذبات کو دبانے کی پالیسی نے ان شکوک و شبہات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

حلف برداری کی تقریب،جو جمعرات کو ہونے والی ہے، ایک نئی حکومت کے قیام کی علامت ہو گی،مگر یہ سوال بھی موجود ہے کہ کیا یہ حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترسکے گی؟ کیا یہ سیاسی اتحاد اپنے نظریاتی اختلافات کو بھلا کر مہاراشٹر کی ترقی کیلئے کام کرے گا،یا پھر یہ بھی اقتدار کی سیاست کا ایک اور باب بن کر رہ جائے گا؟ یہ سوالات عوام کے ذہنوں میں گونج رہے ہیںاور ان کا جواب وقت ہی دے گا۔
جمہوریت ایک مسلسل عمل ہے جس میں صرف انتخابات کا انعقاد کافی نہیں۔ عوام کا اعتماد بحال رکھنا،شفافیت کو یقینی بنانا اور عوامی مفادات کو ترجیح دینا اس نظام کی کامیابی کے بنیادی اصول ہیں۔ مہاراشٹر میں تشکیل پانے والی نئی حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ان اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ اگر یہ حکومت عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی تو یہ عوامی اعتماد کو مزید نقصان پہنچائے گی۔

مہاراشٹر کی موجودہ صورتحال ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جمہوری نظام کی بقا کیلئے عوامی امنگوں کا احترام کرنا اور شفافیت کو یقینی بنانا نہایت ضروری ہے۔ عوامی اعتماد کو بحال کرنا، شفافیت کو فروغ دینا اور جوابدہی کے اصولوں پر عمل کرنا ہی وہ اقدامات ہیں جو جمہوریت کو مضبوط بنا سکتے ہیں، بصورت دیگرجمہوریت ایک خالی ڈھانچے میں تبدیل ہوسکتی ہے جہاں عوامی خدمت کے بجائے اقتدار کی سیاست کا راج ہوگا۔

مہاراشٹر کی سیاست کا یہ باب نہ صرف ریاست بلکہ پورے ملک کیلئے ایک سبق ہے کہ جمہوریت کے اصولوں کو نظرانداز کرنا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ عوامی اعتماد اور شفافیت کو یقینی بنائے بغیر کوئی بھی حکومت دیرپا کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس حکومت کا مستقبل اب اس پر منحصر ہے کہ وہ ان چیلنجز سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہے اور عوامی توقعات پر کس حد تک پورا اترتی ہے۔ مہاراشٹر کے عوام ایک ایسی حکومت کے منتظر ہیں جو ان کی آواز سنے،ان کے مسائل حل کرے اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کرے۔ اگر یہ حکومت ان توقعات پر پورا اترتی ہے تو یہ جمہوریت کی ایک بڑی کامیابی ہوگی،ورنہ یہ بھی محض اقتدار کی ایک اور کہانی بن کر رہ جائے گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS