انل چمڑیا
اقتصادی نظام اور جمہوریت کے تعلق کو دو طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ ہوسکتا ہے کہ جمہوریتیں اپنے مقاصد کے مطابق اقتصادی نظام کی تشکیل کریں۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہوسکتا ہے کہ اقتصادی نظام اپنے پھلنے پھولنے کے مطابق جمہوریت کا خاکہ تیار کرے۔ ہندوستان میں برطانوی سلطنت کو ختم کرنے کے پیچھے عوامی تحریک کا یہ مقصد پنہاں تھا کہ وہ اپنے طور پر ایک ایسے اقتصادی نظام کی تعمیر کرے، جس میں مساوات کی صورتحال بحال ہوسکے۔ مساوات کیا ہے؟ اقتصادی نظام ایسا ہوجس میں سبھی کے لیے یکساں معاشی حالات پیدا ہوسکیں۔ یہاں یہ ضروری ہے کہ مساوی اقتصادی نظام کے لیے ہم نے جمہوریت کے راستے کا انتخاب کیا۔ جب 1947 میں برطانوی حکمرانوں سے ملک کے نمائندوں کے ہاتھوں میں اقتدار آیا تو اس کے بعد ایک مقررہ وقت میں یہ مطالعہ کیا جاتا تھا کہ ملک میں جو آمدنی ہورہی ہے، وہ آمدنی معاشرہ میں کس طرح تقسیم ہورہی ہے۔ پلاننگ کمیشن یہ ذمہ داری پوری کرتا تھا۔ اس میں اقتدار کی منتقلی کے تقریباً 15سال بعد پی سی موہن ویس (1964) کی قیادت میں بنی ایسی کمیٹی کا یہاں ذکر کیا جاسکتا ہے۔ اس کمیٹی نے اپنے مطالعہ کے بعد یہ پایا کہ قومی آمدنی کا بڑا حصہ تقسیم نہیں ہورہا ہے بلکہ کچھ لوگوں کے کنٹرول میں پہنچ رہا ہے۔ جمہوریت کے لیے یہ تشویش کی بات تھی۔ اس مطالعہ کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ جمہوریت کے راستہ میں کچھ اصلاحات کی ضرورت ہے جس سے آمدنی کی مساوی تقسیم ہوسکے اور سرمایہ کے ارتکاز کی صورتحال کو روکا جا سکے۔
مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کے نمائندوں کو وقتاً فوقتاً اپنے مقاصد کے مطابق اقتصادی نظام کی تعمیر کے سلسلے میں الرٹ رہنا ضروری ہوتا ہے، شہریوں کے لیے آزادی اور مساوات دونوں ہی اہم ہیں۔ ارون کمار جنہیں قارئین پانی بابا کے نام سے بھی جانتے ہیں، انہوں نے ایک پروگرام میں اپنی ایک یادداشت سنائی تھی۔ انہوں نے برطانوی راج کے خاتمے کے بعد راجستھان کے گاؤوں میں جاکر پوچھا کہ اپنی حکومت بننے کے بعد وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے گاؤوں میں یہ دیکھا کہ لوگوں میں غربت اور بدحالی کی صورتحال ہے۔ ان کا خیال تھا کہ لوگ اپنی مالی حالت کے مدنظر یہ ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں کہ اس آزادی سے سیاسی غلامی ہی بہتر تھی۔ لیکن انہیں برعکس جواب ملا۔ انہوں نے ایک بوڑھی خاتون سے پوچھا کہ پہلے انہیں کم سے کم کھانے پینے کے لیے تو کافی مل جاتا تھا؟ جواب میں خاتون نے کہا کہ غلامی کی گھی سے چپڑی روٹی سے اچھی ہے، آزادی کی سوکھی روٹی۔
یہ ایک مثال ہے جس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اقتصادی نظام محض معاشی سرگرمیوں کا مترادف نہیں ہے۔شہریوں کے لیے اقتصادی نظام میں جمہوریت پیوست ہے۔ کیونکہ انسانی جسم صرف کھانے پینے کی مشین نہیں ہے۔ جمہوریت کی معاشی سرگرمیوں میں سیاسی اختیار سب سے اہم عنصرہوتا ہے۔
مندرجہ بالا صورتحال کے برعکس حال ہی میں ایک نئی صورتحال کئی انتخابات میں دیکھنے کو ملی۔ الیکشن ہی وہ ذریعہ ہے جس میں شہری اپنے سیاسی حق کا استعمال کرکے جمہوریت کے لیے نمائندے کا انتخاب کرتا ہے تاکہ وہ جمہوریت کے حالات کو بحال کرسکے اور اپنے مقاصد کی تکمیل میں آگے بڑھ سکے۔ لیکن اپنے ملک میں تازہ ترین تجربہ یہ ہوا کہ ایک الیکشن میں ایک امیدوار نے ایک حساب لگایا کہ اگر وہ انتہائی خراب معاشی حالت میں رہنے والے ووٹروں میں سے اپنی جیت کے لیے چند ہزار ووٹروں کو فی ووٹر ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے دے کر ان کے سیاسی حقوق کو خرید لے تو اسے زیادہ سے زیادہ کتنا سرمایہ لگاناپڑے گا؟ اس نے اپنے تخمینہ شدہ بجٹ میں اس انتخابی حلقہ کے چند ہزار ووٹرز کے ووٹ خرید لیے اور ڈھائی لاکھ ووٹروں کے حلقہ میں صرف 16ہزار ووٹ حاصل کرکے الیکشن جیت گیا۔
یہ ایک مثال ہے کہ جمہوریت کے ذریعہ اپنے مقاصد کے مطابق اقتصادی نظام کی تعمیر کے برعکس، نیا اقتصادی نظام اپنے مقاصد کے مطابق جمہوریت کے خاکے متعین کر رہا ہے، یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ پیڈ نیوز کے ساتھ ساتھ پیڈ ووٹ(ووٹ کی خریدی) کا رواج بھی جمہوریت کے عمل پرحاوی ہوگیا ہے۔ اس صورت حال کو اس طرح سے دیکھیں کہ جب لوگوں کی مالی حالت خراب ہوتی جاتی ہے تو وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ ناموافق حالات میں کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اگر ان کے پاس کچھ سامان ہے تو وہ اسے فروخت کرتے ہیں۔ عورتیں جسم فروشی کرتی ہیں۔بچے تک فروخت کیے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں گھروں میں رکھی چیزوں کا کیا ہے؟ گھر کے برتن، زمین، زیورات فروخت کرنے کے واقعات تو عام ہیں۔لیکن اس بات کا تصور کریں کہ جس کے پاس چیزیں بیچنے کے لیے نہیں ہوں۔ جن کے پاس کام کرنے کے حالات بھی نہیں ہو تو وہ کیا بیچ سکتے ہیں؟ جمہوریت میں سیاسی حقوق شہریوں کے لیے سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر اسے فروخت کرکے دوچار دنوں کی روٹی بھی ملتی ہو یا وہ لمحاتی خوشی محسوس کرتے ہوں تو اسے کیوں ہچکچاہٹ ہونی چاہیے؟ انتخابی حلقوں میں یہ رجحان نئے اقتصادی نظام کے بننے کے اعلان کے بعد ہی ہوا ہے، ایسا نہیں کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی رفتار کئی گنا زیادہ تیز ہوئی ہے اور وہ الیکشن میں جیت کے انتظام کا اہم حصہ بن گیا ہے۔ ملک کے 99فیصد لوگ الیکشن لڑنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ سیاسی حقوق ہیں لیکن پیسے نہیں ہیں۔ الیکشن لڑنے کے لیے بڑی رقم چاہیے اور اس صورتحال کو جمہوریت کے راستہ ہی قابل قبول بنایا گیا ہے۔ اس طرح ’’جمہوریت کی انجینئرنگ‘‘ کرنے میں نئے اقتصادی نظام کے ترجمان کامیاب ہوئے ہیں۔ شہری معاشی سطح پر تنگدست ووٹر میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔
جمہوریت میں خودکشیاں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں اور ان خودکشیوں میں ایک بڑا کردار نئے قسم کے معاشی تعلقات استوار کرنے کے عمل میں پنہاں ہے۔ ہندوستان گاؤوں کا ملک ہے۔ کسان ’اَن داتا‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ خودکشیاں اسے کرنی پڑی ہیں۔ کسانوں اور تاجروں کے معاشی رشتے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ کسان جب خودکشی کرے گا یا بدحالی میں ہوگا تو صرف کھیت میں کام کرنے والے مزدور ہی متاثر نہیں ہوتے ہیں بلکہ چھوٹے تاجر ہی سب سے پہلے ہوں گے۔ کاروبار ٹوٹے گاتو معاشی سرگرمیوں کی جو کڑیاں بنی ہوئی ہیں وہ ٹوٹیں گی۔ ظاہر ہے کہ پروڈیوسر جب موت کے دہانے پر کھڑا ہوگا تو پروڈکشن کا کاروبار کرنے والا کیسے بچ سکتا ہے؟ نیا اقتصادی نظام ان کڑیوں کو ہی توڑ کر نئے معاشی تعلقات بنانے کا نام ہے۔ نئے معاشی تعلقات میں خودکشیاں پنہاں ہیں۔ نئے اقتصادی نظام میں جمہوریت کی تشہیر ہے۔ اسی لیے سیاسی میدان میں اشتہارات کا بول بالا ہے۔ انتخابات میں نئے اقتصادی نظام کے اشتہاری نمائندے منتخب کیے جانے کی مجبوری نظر آتی ہے۔
[email protected]