جمہوریت یرغمال !

0

جمہوریت محض ایک طرز حکومت نہیں،بلکہ ایک عہد ہے، ایک امانت ہے جو عوام اپنے منتخب نمائندوں کو سونپتے ہیں تاکہ وہ ان کے حقوق کی پاسبانی کریں، ان کے مسائل کی آواز بلند کریں اور اقتدار کو جوابدہ بنائیں۔ مگر جب اسی جمہوریت کا سب سے مقدس ایوان جسے عوام کی آواز کا مظہر ہونا چاہیے چند افراد کی مرضی و منشا کا تابع بن جائے تو یہ محض ایک سیاسی تنازع نہیں رہتا بلکہ ایک قومی المیہ بن جاتا ہے۔

لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کی آواز کو دبانے کی مسلسل کوششیں، اسپیکر اوم برلا کی مبینہ جانبداری اور اپوزیشن کے اس الزام کہ انہیں بولنے نہیں دیا جاتا، نے پارلیمانی جمہوریت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ کیا یہ محض حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان رسہ کشی ہے یا واقعی جمہوری اقدار کو کچلا جا رہا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر باشعور شہری کے ذہن میں ابھر رہا ہے۔

اسپیکر کی کرسی کسی بھی جمہوری ایوان کی سب سے مقدس کرسی ہوتی ہے۔ اس پر براجمان شخص کسی جماعت کا نہیں بلکہ پورے ایوان کا محافظ اور نگہبان ہوتا ہے۔ اس کا منصب کسی ایک جماعت کے مفادات کو آگے بڑھانے کیلئے نہیں بلکہ پوری پارلیمانی روایت کو برقرار رکھنے کیلئے ہوتا ہے۔ مگر جب اسپیکر خود کسی خاص جماعت کے نمائندے کی طرح کام کرنے لگے تو جمہوریت کا سب سے بڑا ستون متزلزل ہو جاتا ہے۔

لوک سبھا میں گزشتہ چند اجلاسوں میں راہل گاندھی کو بولنے کی اجازت نہ دینا، جبراً کارروائی ملتوی کر دینا، ان کے بیانات کو ریکارڈ پر نہ آنے دینا اور جب وہ بولنے کی کوشش کریں تو حکومتی ارکان کی ہنگامہ آرائی کا سہارا لینا، ایک گہری سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسپیکر اوم برلا پر لگنے والے یہ الزامات معمولی نہیں۔ پارلیمانی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا کھلم کھلا جانبداری کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہو۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر حکومت کو راہل گاندھی کے بولنے سے خوف کیوں ہے؟ وہ کون سی بات ہے جو حکمراں جماعت کے اعصاب شل کر دیتی ہے؟ اگر ان کی بات میں وزن نہیں، اگر ان کے الزامات بے بنیاد ہیں تو پھر ان کو بولنے دینے میں حرج کیا ہے؟

راہل گاندھی کی سیاست ہمیشہ ایک مخصوص طبقاتی اور اقتصادی نظام کے خلاف رہی ہے۔ وہ بارہا بڑے تاجروں اور سرمایہ داروں کو نوازنے کی پالیسی پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ وہ عوام کو باور کراتے ہیں کہ ملک کی دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہو رہی ہے، جبکہ عام آدمی غربت کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ اڈانی اور امبانی جیسے صنعتکاروں کو حکومت کی طرف سے دی جانے والی رعایتوں پر ان کی تنقید حکومت کیلئے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ وہ نکات ہیں جو عام آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور شاید یہی وہ حقیقت ہے جسے بی جے پی حکومت چھپانا چاہتی ہے۔

اپوزیشن اتحاد ’انڈیا ‘ کے رہنمائوں نے اسپیکر کو ایک خط لکھ کر شکایت کی ہے کہ نہ صرف اپوزیشن کے مائک بند کیے جا رہے ہیں بلکہ لوک سبھا کے ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ بھی خالی چھوڑ دیا گیا ہے جو روایتی طور پر اپوزیشن کو دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کے بلوں کو نظر انداز کرنا، تحریک التوا کو مسترد کرنا اور اہم مباحثے نہ کروانا اس بات کی دلیل ہے کہ حکمراں جماعت پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال چکی ہے۔

یہ صورت حال صرف اپوزیشن کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اگر آج راہل گاندھی اور ان کے ساتھیوں کو بولنے نہیں دیا جا رہا تو کل کوئی اور بھی اس جبر کا شکار ہو سکتا ہے۔ جب پارلیمان میں اپوزیشن کو خاموش کر دیا جائے گا تو عوام کی آواز کون بلند کرے گا؟

بی جے پی کا موقف یہ ہے کہ اپوزیشن جان بوجھ کر ہنگامہ برپا کرتی ہے اور غیر ضروری مباحثے چھیڑ کر ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالتی ہے۔ ان کے مطابق نظم و ضبط قائم رکھنے کیلئے سخت اقدامات ضروری ہیں۔ مگر یہ دلیل اسی وقت مضبوط ہو سکتی تھی جب بی جے پی کے اپنے ارکان بھی ان ہی اصولوں کے تابع ہوتے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بی جے پی ارکان کو پورا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی بات مکمل کریں جبکہ اپوزیشن کیلئے یکسر مختلف رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔یہ دوہرا معیار جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ جمہوری ادارے کسی ایک جماعت کی ملکیت نہیں ہوتے۔ ان کا وقار سب سے مقدم ہوتا ہے۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ جمہوریت کی سب سے بڑی علامت پارلیمان، خود ایک جماعت کے مفادات کی رکھوالی کرتی نظر آ رہی ہے۔

یہ حالات ایک خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اگر اپوزیشن کو کمزور کرنے کی یہ حکمت عملی کامیاب ہو گئی تو پھر مستقبل میں کوئی بھی حکومت خود کو جوابدہ نہیں سمجھے گی۔ اگر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو دبانے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک آئینی بحران ہوگا۔یہ وقت ہے کہ جمہوریت کے تمام علمبردار چاہے وہ کسی بھی نظریے سے تعلق رکھتے ہوں، اس رویے کے خلاف آواز بلند کریں۔ جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ اس میں اختلاف کی گنجائش ہو، سوال اٹھانے کا حق ہو اور اقتدار کو عوام کے سامنے جوابدہ بنایا جاسکے۔ اگر آج پارلیمان میں اپوزیشن کی آواز دبانے کی روایت کو قبول کر لیا گیا تو کل یہی خاموشی پورے نظام پر حاوی ہو جائے گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS