ایک نظریے کی آمریت کی جانب گامزن جمہوریت

0

محمد حنیف خان

ہندوستان کا تنوع ہی اس کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے، جسے جمہوری نظام نے مزید خوبصورت بنا دیا تھا لیکن اس خوبصورتی کو بد صورتی میں بدلنے کی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ کوشش اس لیے ہو رہی ہے تاکہ ہندوستان تباہ و برباد ہوجائے بلکہ اس کے پیچھے ایک نظریہ جو ملک کے تنوع کی خوبصورتی کی تعریف جمہوریت کے تناظر میں کرنے کے بجائے ’’ورن‘‘ نظام کے طور پر کرتا ہے لیکن چونکہ یہ اکیسویں صدی ہے، اس لیے وہ اس نظام کا ذکر نہیں کرتاہے بلکہ وہ اس کے دیگر متعلقات تک ہی محدود رہتاہے تاکہ کوئی اس کی حقیقت تک رسائی نہ حاصل کرسکے۔اسی لیے سب سے پہلے ملک کے ان طبقات کو نشانہ بنایا جاتاہے جن کا تعلق اکثریت سے نہیں ہے۔ساورکر نے صاف طور پر کہا تھا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات کا تعلق ہندوستان سے نہیں ہے، اس لیے ان کا جذباتی لگاؤ یہاں سے نہیں ہوسکتا۔دراصل ان کا یہ بیان اقلیتوں کے تعلق سے اکثریت کے ذہن میں ایک طرح سے دوری کے بیج ڈالنے کی کوشش تھی، انہوں نے ہمیشہ ہندو اور مسلمان کو بحیثیت دو قوم دیکھا اور اسی کی وکالت کی۔اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اقلیتوں کو دوم درجے کا شہری بناکر رکھ دیا گیا ہے۔
چونکہ ملک میں جمہوری نظام ہے، اس لیے دستاویزی سطح پر کوئی بھی دوم درجے کا شہری نہیں ہے لیکن زمینی سطح پر اقلیتیں دوم درجے کے شہری کے طور پر ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں جس طرح سے اقلیت اور اکثریت کی سیاست ہوئی اور ملک کو ایک جمہوری نظام سے ہندو راشٹر کی طرف لے کر جایا گیا، وہ ہندوستان کی ترقی کے لیے خطرہ ہونے کے ساتھ ہی اس کی روح کے بھی منافی ہے۔
آزاد ہندوستان میں جس طرح سے فسادات ہوتے ہیں اور ان کی سرکاری سرپرستی کی جاتی ہے وہ اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ ملک اپنی آئینی روح سے روز بروز دور ہوتا جارہا ہے۔بلڈوزر کلچر سے لے کر حجاب اور نماز پر پابندی، اس پر ایف آئی آر اور مسلم سرکاری اداروں میں ان کے نصاب کے خلاف مہم یہ واضح کرتے ہیں، اقلیتیں آزاد نہیں ہیں۔
نصاب کے خلاف مہم بادی النظر میں بات چھوٹی لگ سکتی ہے لیکن اس کے نتائج بہت دور رس ہوں گے، جن کے ذریعہ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کو مستقبل میں مزید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے اور اکثریت کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگی کہ مسلمان قابل بھروسہ نہیں ہے۔اسی طرح سے جہاں ایک طرف آر ایس ایس جیسی تنظیم تو ملک میں کھلے عام کام کرسکتی ہے اور اس پر کسی کو انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی وہیں کسی بھی مسلم تنظیم کو پنپنے نہیں دیا جاتاہے۔تنظیم پر گاہے بگاہے ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام عائد کیا جاتا رہتاہے۔عدالت میں ثبوت نہ پیش کیے جانے کے باوجود صرف مسلم تنظیم ہونے کی بنیاد پر اس پر پابندی کی باتیں کی جاتی ہیں، اس سے بھی اندازہ ہوتاہے کہ متعصب طبقے کو ہندوستان میں اپنے تشخص کا پاس و لحاظ کرنے والا مسلم نہیں پسند ہے بلکہ وہ ایک ایسا لبرل مسلم چاہتا ہے جو ان کے ہی رنگ میں رنگا ہوا ہو جس کی اجازت اسلامی تعلیمات نہیں دیتی ہیں۔
سی اے اے اور این آر سی کو ایک بڑی اقلیت کو دوم درجے کا شہری بنانے کے ہتھکنڈے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ظاہری طور پر تو اس سے انکار کیا جا رہاہے لیکن حقیقت میں یہ اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔
حکومت اور اس کی حامی تنظیموں اور افراد کی ان ہی کوششوں کو دیکھتے ہوئے ملک کا لبرل طبقہ حکومت کے اس عمل سے نہ صرف نالاں ہے بلکہ ا س کو بھی دکھائی دے رہاہے کہ اس سے ملک ترقی کی طرف جانے کے بجائے تباہی کی طرف جا رہا ہے، اس کو تنوع، وحدت اور یکسانیت میں تبدیلی ہوتی دکھائی دے رہی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ ان کوششوں کے نتیجے میں ملک کی تقسیم بھی دیکھ رہے ہیں۔ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن کے مطابق ہندوستان کا مستقبل فراخدلانہ جمہوریت اور اس کے اداروں کو مستحکم بنانے میں مضمر ہے، کیوں کہ معاشی ترقی کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔اکثریت پسندی کے خلاف انتباہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سری لنکا اس امر کی ایک مثال ہے کہ جب سیاسی قائدین اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے ملازمتوں کے بحران کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔آر بی آئی کے سابق گورنر نے مزید کہا کہ ہمارا مستقبل اپنی جمہوریت اور اس کے اداروں کو کمزور بنانے میں نہیں بلکہ مزید فراخدلانہ و جمہوری بیان میں مضمر ہے اور درحقیقت یہی چیز ہماری ترقی کے لیے اہم ہے۔ اکثریت کی مطلق العنانی کو شکست دینے کی ضرورت پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بڑی اقلیت کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوئی بھی کوشش ملک کو تقسیم کرکے رکھ دے گی اور داخلی ناراضگی پیدا کرے گی۔اس کے علاوہ ملک میں بیرونی مداخلت کی راہ ہموار کرے گی۔ سری لنکا میں جاری بحران کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب کسی ملک کے سیاسی قائدین اقلیت کو نشانہ بناتے ہوئے روزگار کی پیداوار سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے یہی نتائج برآمد ہوتے ہیں اور سری لنکا بھی اسی کا سامنا کررہا ہے۔
ان کے اس بیان کے تناظر میں اگر حکومت اور اس کے حامیوں کا عمل دیکھا جائے تو صاف طور پر نظر آ رہا ہے کہ ان کی سبھی کوششیں اکثریت میں علویت پسندی کو فروغ دینے اور اقلیتوں کو خوف کے سائے میں رکھنے کے لیے ہورہی ہیں۔طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ95کروڑ کی اکثریت میں بھی خوف پیدا کیا جارہاہے اور ان کو ڈرایا جا رہاہے کہ مسلم اقلیت ان کو نگل جائے گی۔مثلاً ان کو بتایا جا رہاہے کہ مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہوجائے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کی مسلمانوں میں شرح پیدائش گزشتہ 12 برسوں میں بہت تیزی سے کم ہوئی ہے جبکہ ہندوؤں کی شرح آبادی میں کمی تو ہوئی، مگر اتنی تیزی سے نہیں۔ اسی طرح ان میں یہ خوف پیدا کیا جا رہاہے کہ ’’لوجہاد‘‘ سے ان کی بہو بیٹیوں کی عزتوں کو خطرہ ہے۔اس طرح ایک طرف خوف اور دوسری طرف تفوق دونوں محاذ پر کام کیا جارہا ہے۔
اکثریت میں تفوق پیدا کر نے کی کوششوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اب کھلے عام ہندو راشٹر کی بات کی جا رہی ہے ورنہ اگر دیکھا جائے اس طرح کی باتیں ملک سے غداری کے زمرے آئیں گی۔اسی کو اگر پلٹ دیا جائے اور اکثریت کی جگہ پر اقلیت اور ہندو کی جگہ پر مسلم لکھ دیا جائے تو کیا ہوگا، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔یعنی ایک بات جو اکثریت کی طرف سے کھلے عام کہی جارہی ہے، جس پر کوئی تعزیر نہیں ہے وہی بات اگر اقلیت کا کوئی فرد کہہ دے تو یواے پی اے سے لے کر متعدد قوانین کا اس پر نفاذ کرکے ملک سے غداری کا مرتکب قرار دے دیا جائے گا۔جس نظام میں یہ دوہرا معیار ہو اور وہ جمہوریت کا بھی مدعی ہو، اس کا مستقبل کیا ہوگا،سوچا جا سکتاہے۔
جیسے جیسے2024کے عام انتخابات قریب آتے جائیں گے، تفوق اور برتری کی کوششیں تیز ہوتی جائیں گی اور عام الیکشن میں ہندو راشٹر اور مسلموں کے دوم درجے کا شہری بنانے کا مسئلہ اہم ہوسکتاہے۔کیونکہ جس طرح سے سوشل میڈیا اور عام زندگی میں اکثریتی طبقے کا برتاؤ نظر آرہاہے، وہ اسی بات کا اشارہ ہے کہ یہ جمہوریت تیزی سے ایک نظریے کی آمریت کی طرف بڑھتی جا رہی ہے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن کی طرح ملک کے تنوع سے محبت کرنے والے افراد سامنے آئیں اور حکومت کے ساتھ ہی اس خاص ذہنیت اور نظریہ کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں، اگر ایسا نہیں ہوا تو بہت جلد یہ کاغذی جمہوریت بھی تاریخ کا حصہ بن جائے گی کیونکہ ہمارے وزیراعظم نے 2014 میں 1200برس کی غلامی کا ذکر کیا تھا، جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ جمہوریت کے پردے میں اکثریت کو حاوی کرکے ہندوستان کو اس ورن نظام میں پہنچانا چاہتے ہیں جس میں چار طبقات کے سامنے عام انسانوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔جبکہ ہمارا جمہوری نظام ہر انسان کو برابری کا درجہ دیتاہے اور فرد کو سر اٹھاکر اپنے دین و مذہب کی پیروی کرتے ہوئے آزادی سے جینے کا حق دیتاہے اور یہی حق ہر ہندوستانی کا خواب تھا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS