ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا، تبھی بے روزگاری کم ہوگی

جزوی لاک ڈاؤن سے بھی بے روزگاری کی شرح میں اضافہ طے تھا۔ ضرورت اب ایسے اقدامات کی ہے، جس سے کھپت کو سہارا ملے اور پیداوار میں اضافہ ہو۔

0

ارون کمار

تقریباً 50ہفتوں کے بعد 16مئی کو ختم ہوئے ہفتہ میں دیہی بے روزگاری کی شرح بڑھ کر14.34فیصد ہوگئی۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) کے مطابق شہری علاقوں میں بھی بے روزگاری کی شرح میں اسی طرح سے اضافہ ہوا ہے اور شہروں میں وہ بڑھ کر 14.71فیصد ہوگئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب لاک ڈاؤن کو بتایا جارہا ہے جو کورونا کی دوسری لہر کے بعد ملک گیر تو نہیں، لیکن تقریباً 90فیصد حصہ پر کسی نہ کسی طور نافذ ہے۔
لاک ڈاؤن میں روزگار کا ختم ہونا فطری ہے، کیوں کہ ایسے میں ہم اپنی معاشی سرگرمیوں کو بند کردیتے ہیں۔ حالاں کہ اس سال روزگار پر اتنا زیادہ اثر نہیں پڑا ہے، جتنا گزشتہ سال پڑا تھا۔ گزشتہ سال ملک گیر لاک ڈاؤن کے سبب 12.2کروڑ لوگوں کی نوکریاں ختم ہوئی تھیں، جب کہ تقریباً 20کروڑ لوگوں کے کام متاثر ہوئے تھے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ روزگار کے مقابلہ میں کام زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ جیسے لاک ڈاؤن میں دفاتر اور اسکول-کالجوں کے بند ہونے سے سرکاری ملازمین، اساتذہ، پروفیسروں وغیرہ کے روزگا ر پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا لیکن کام کے بند ہونے سے مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) منفی طور پر متاثر ہوتی ہے کیوں کہ اس سے پیداوار بند ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے، اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سال جزوی لاک ڈاؤن لگا ہے، لیکن پھر بھی سپلائی چین تو متاثر ہوئی ہی ہے۔ جگہ جگہ کارخانے بند ہوئے ہیں اور گھریلو صنعتوں(Cottage industries) پر اس کا خاصا اثر پڑا ہے۔ منظم سیکٹر کو بھی لاک ڈاؤن نے متاثر کیا ہے۔ چوں کہ اس میں اب بڑے پیمانہ پر ٹنڈر پر روزگار دیے جاتے ہیں، اس لیے یہاں ملازمین کو باہر کا راستہ دکھانا آسان ہے۔

ایک بڑی ضرورت غریب طبقہ کو مدد دینے کی ہے۔ انہیں اگر نقد مدد ملے گی تو کھپت میں اضافہ ہوگا، جس سے بازار میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایسی ہی مدد متوسط طبقہ کو بھی چاہیے۔ اس سال بجٹ میں منریگا کے لیے مختص ایک لاکھ 10ہزار کروڑ روپے سے کم ہوکر 70ہزار کروڑ روپے کردیے گئے تھے۔ یہ کٹوتی نہیں ہونی چاہیے۔ چوں کہ دیہی علاقوں میں بھی وائرس کا پھیلاؤ ہوگیا ہے، اس لیے وہاں بھی پیداوار اب متاثر ہوگی۔

لوگوں میں پھیلتے خوف نے بھی روزگار کے شعبہ کو متاثر کیا ہے۔ دوسری لہر کو دیکھتے ہوئے شہروں سے پھر مزدوروں کی نقل مکانی ہوئی۔ چوں کہ بغیر جانچ کے گاوؤں کی طرف روانہ ہوئے، اس لیے وائرس کا پھیلاؤ گاؤں-گاؤں میں ہوگیا ہے۔ طبی دنیا کا ایک ماڈل کہہ رہا ہے کہ انفیکشن کے جتنے معاملے سامنے آرہے ہیں، ان سے تقریباً 10گنا زیادہ انفیکشن ہوا ہے اور اموات بھی تین سے آٹھ گنا زیادہ ہوئی ہیں۔ یہ دہشت تب مزید بڑھ گئی، جب متوسط طبقہ اور اعلیٰ طبقہ میں بھی وبا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا۔ خوفناک صورت حال کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے اخبارات میں آدھے صفحہ پر تعزیتی پیغام شائع ہوا کرتے تھے، لیکن اب یہ بڑھ کر چار-چار صفحات تک ہوگئے ہیں۔ چوں کہ یہی طبقہ زیادہ کھپت کرتا ہے، اس لیے بیماری کے آنے کے بعد اس نے اپنی کھپت کم کردی۔ پھر ان طبقات کے صحت سے متعلق اخراجات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ غریب طبقہ تو قرض لے کر جیسے تیسے اپنا علاج کرا رہا ہے، لیکن متوسط اور اعلیٰ طبقہ اپنی بچت خرچ کررہے ہیں۔ تیسری لہر کے خدشات نے بھی انہیں بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کے لیے ترغیب دی ہے۔ ممکن ہو اسی وجہ سے ریزرو بینک نے کہا ہے کہ لوگ اب نقدی زیادہ جمع کرنے لگے ہیں، کیوں انہیں یہ ڈر ستا رہا ہے کہ اگر کوئی پریشانی ہوئی تو نقد رقم ہی مددگار ثابت ہوگی۔ ان سب سے ہماری کھپت بری طرح گرگئی ہے اور کھپت کے گرنے کا اثر پیداوار پر پڑا ہے۔ پیداوار کم ہونے کا مطلب ہے، نئی سرمایہ کاری کا کم ہونا، جس سے فطری طور پر روزگار پر منفی اثر پڑا ہے۔
سوال ہے اب آگے کیا کیا جائے؟ ٹیکہ کاری پر زور دیا جارہا ہے لیکن اس سے معیشت کو شاید ہی فوری فائدہ ہوسکے گا۔ ایسا اس لیے کیوں کہ اپنے یہاں ٹیکہ کاری سے متعلق واضح پالیسیوں کی کمی ہے۔ امریکہ، برطانیہ جیسے ممالک نے بروقت ٹیکہ کے آرڈر دے دیے تھے، اسی لیے انہوں نے تیزی سے ٹیکہ کاری کی ہے۔ نتیجتاً وہاں کی 80فیصد آبادی کو ٹیکہ لگ چکا ہے، جس کا فائدہ انہیں ملنا شروع ہوچکا ہے۔ اپنے یہاں اوّل تو آرڈر دینے میں دیر ہوئی اور پھر جیسے تیسے ٹیکہ کاری شروع کردی گئی۔ کہا گیا کہ پہلے ڈیڑھ ماہ میں ایک کروڑ لوگوں کو ٹیکہ لگایا جائے گا جبکہ سوا ارب کی آبادی کے لحاظ سے ہمیں 10کروڑ سے شروعات کرنی چاہیے تھی۔ ایسا اس لیے کیوں کہ ’ہرڈ امیونٹی‘ کے لیے 60فیصد آبادی کی مکمل ٹیکہ کاری ضروری ہے۔ یعنی 10ماہ میں 84کروڑ لوگوں کو ٹیکے کی دونوں خوراکیں لگادینی چاہیے۔ اس کا مطکب ہے، ہمیں ٹیکہ کی تقریباً 170کروڑ خوراک کی ضرورت ہے۔ اسے اگر 10ماہ میں تقسیم کریں تو ہر ماہ ہمیں 17کروڑ خوراک چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اس سے نہ صرف وائرس کے نئے نئے علاقوں میں پھیلنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، بلکہ اس کے میوٹیٹ ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ اگر وائرس میوٹیٹ ہوگیا تو یہ ان علاقوں میں پھر سے پھیل سکتا ہے جہاں ایک مرتبہ یہ تباہی مچا چکا ہے۔ ایسے میں لاک ڈاؤن ہی واحد طریقہ ہے۔ جب تک لہر قائم رہتی ہے، ہمیں لاک ڈاؤن کے بھروسے ہی اس کے پھیلاؤ کو روکنا ہوگا۔
دوسرا کام ہیلتھ انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کا ہے۔ ’ٹیسٹنگ‘ اور ’ٹریسنگ‘ کے ساتھ ساتھ ’جینوم ٹیسٹنگ‘ پر ہمیں زور دینا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوسکے گا کہ وائرس ہمارے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ ابھی وائرس سے متعلق کئی اطلاعات برطانیہ اور امریکی لیباریٹیزسے آرہی ہیں۔ ہمیں خود یہ تجربہ زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے، مگر المیہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے بند رہنے سے ایسی تحقیق کم ہورہی ہیں۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ایک بڑی ضرورت غریب طبقہ کو مدد دینے کی ہے۔ انہیں اگر نقد مدد ملے گی تو کھپت میں اضافہ ہوگا، جس سے بازار میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایسی ہی مدد متوسط طبقہ کو بھی چاہیے۔ اس سال بجٹ میں منریگا کے لیے مختص ایک لاکھ 10ہزار کروڑ روپے سے کم ہوکر 70ہزار کروڑ روپے کردیے گئے تھے۔ یہ کٹوتی نہیں ہونی چاہیے۔ چوں کہ دیہی علاقوں میں بھی وائرس کا پھیلاؤ ہوگیا ہے، اس لیے وہاں بھی پیداوار اب متاثر ہوگی۔ اسے دھیان میں رکھ کر ہمیں چھوٹی اور کاٹیج صنعتوں کو مناسب سپورٹ دینا ہوگا۔ ظاہر ہے، بجٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے درست کرنا ہوگا اور ضروری مدوں میں خرچ میں اضافہ کرتے ہوئے ان ان جگہوں پر کٹوتی کرنی ہوگی، جہاں ایسا کرنا ممکن ہے۔ اس سے مالی خسارہ زیادہ نہیں بڑھے گا اور نئی لہر سے نمٹنے کے لیے بھی ہم تیار رہ سکیں گے۔ جان بچانے کے ساتھ ساتھ مستقبل بچانے پر بھی کام ہونا چاہیے۔
(مضمون نگار ماہرمعاشیات ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS