پروفیسر اسلم جمشید پوری
مغربی اترپر دیش میں میرٹھ کے مقام کا کیا کہنا۔میرٹھ مغربی اترپردیش کا دل ہے۔ ہرت پردیش میں میرٹھ کو راجدھانی بنانے کی تجویز تھی۔یوں بھی میرٹھ میں کئی بزنس اعلیٰ پائے کے ہوتے ہیں۔کئی بزنس تو عالمی سطح پر ہوتے ہیں، مثلاًاسپورٹس کے سامان، گیند،بیٹ،فٹ بال، وکٹ، ریکٹ، کارک وغیرہ کی سپلائی بیرون ملک بھی کی جاتی ہے۔گانے بجانے کے آلات خاص کر ہارمونیم، طبلہ، گٹار ستار، بانسری، وائلن، ٹرمپیڈوغیرہ کی تجارت عالمی سطح پر ہوتی ہے۔ قینچی کا کاروبار کئی ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔گزک اور ریوڑی کی کئی قسموں کی دنیا بھر میں ڈیمانڈ ہے۔یہاں کا سوتی کپڑا بھی کئی ملکوں میں جاتا ہے۔
میرٹھ تعلیم کے معاملے میں بھی آس پاس کے شہروں سے کافی آگے ہے۔یہاں دو صوبائی یونیورسٹیز چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اورسردار ولبھ بھائی پٹیل ایگری کلچرل یونیورسٹی، چار پرائیویٹ یونیورسٹیز ویویکا نند سبھارتی یونیورسٹی،آئی آئی ایم ٹی یونیورسٹی، شوبھت یونیورسٹی اور مہاویر یونیورسٹی موجود ہیں۔ کھیل یونیورسٹی بہت جلد میرٹھ میں کھلنے والی ہے۔بی ایڈ، انجینئرنگ، مینجمنٹ، ہوٹل مینجمنٹ، میڈیکل،پیرا میڈیکل،نرسنگ کالجز خاصی تعداد میں ہیں۔سی بی ایس سی،آئی سی ایس سی،اترپردیش بورڈ کے بہت اچھے اسکول ہیں۔ایک طرح سے ہم میرٹھ کو ایجوکیشنل ہب کہہ سکتے ہیں۔
میرٹھ میں میڈیکل، پیرا میٖڈیکل اور نرسنگ کالجز ہیں۔ یہاں اسپتال اور نرسنگ ہومز کی بھرمار ہے۔یہاں تقریباً ہر بیماری کے لیے اچھے اچھے اسپتال موجود ہیں۔ہومیوپیتھی، یونانی پیتھی(حکمت)، آیورویدک، ایلوپیتھی طریقۂ علاج کی میرٹھ میں سہولیات موجود ہیں۔ انفرااسٹرکچر، ریئل اسٹیٹ،ہوٹل اور ریسٹورینٹ کا بڑا بزنس ہے۔سونا چاندی کا یہاں بڑا بازار ہے۔ یہاں کے بازار میں روزانہ کروڑوں روپے کا کارو بار ہو تا ہے۔ پبلشنگ کا یہاں بڑا بزنس ہے۔میرٹھ میں پاسپورٹ آفس بھی ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انگریزوں نے جان بوجھ کر میرٹھ کو ریلوے اور ہائی وے کی مین لائن سے نہیں جوڑا۔انہیں بعد میں بھی خطرہ تھا کہ یہاں سے 1857 جیسا انقلاب رونما ہو سکتا ہے۔میرٹھ میں انگریزوں کے ہی زمانے سے مشہور فوجی چھائونی تھی۔ اب یہاں دہلی سے دہرہ دون ہائی وے اوردہلی سے میرٹھ، ملک کاپہلا 14لین ہائی وے موجود ہے۔ہائی اسپیڈ ٹرین اورمیٹرو ریلوے بہت جلد میرٹھ اور دہلی کے درمیان چلے گی۔ہاپوڑ، بلندشہر، گڑھ،باغپت، مظفرنگر، سہارنپور، بجنور اچھی اور چوڑی سڑکوں سے جڑے ہوئے ہیں۔میرٹھ کی اپنی عالمی شناخت ہے۔کئی کھلاڑی کبڈی،کرکٹ،خواتین کھیل وغیرہ میں کافی نام کر چکے ہیں۔
میرٹھ کے تین اہم مطالبات ہیں۔یہاں کے لوگوں کی بہت زمانے سے ہائی کورٹ بنچ کی مانگ چلی آرہی ہے۔ یہاں ضلعی عدالت ہے،جس میں مقدموں کی بہتات ہے۔ یہاں کے بے شمار لوگوں کو اپنے مقدموں کے لیے الٰہ آباد جانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے میرٹھ سے سنگم اور نوچندی ایکسپریس ٹرینیں چلتی ہیں۔جو کبھی اپنے وقت سے نہیں پہنچتیں۔ ان ٹرینوںکاتین چار گھنٹے لیٹ ہونا تو عام بات ہے۔ یہاں کے وکیلوں نے ہر طرح کی تحریک چلائی۔ بھوک ہڑتال کی،کام کاج کئی دن تک بند رکھا۔سی ایم،ایم پی اور وزیروں سے بھی ملے مگر ابھی تک کامیابی ’’دہلی دور است‘‘ کے مصداق بنی ہوئی ہے۔راشٹریہ لوک دل کے سپریمو مرکزی وزیر نے میرٹھ میں ہائی کورٹ بنچ کے مطالبے کو اپنی حمایت دی ہے۔برسوں کے اس مطالبے کو ہر بار الیکشن میں امید بندھتی ہے۔اس بار وکلاء اور اس تحریک سے جڑے لوگ،حزب ِ اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی سے ملنے اور اس مطالبے کو زور شور سے پارلیمنٹ میں اٹھانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
میرٹھ والوں کی برسوں سے چلی آرہی ایئرپورٹ کی مانگ بھی اب تک پوری نہیں ہوئی ہے،جبکہ میرٹھ میں ہوائی پٹی موجود ہے اورجس کا سیاسی لیڈران ہیلی کاپٹر کے لیے استعمال کر تے ہیں۔یہاں اب تک ہوائی سروس شروع نہیں ہوئی جبکہ کئی بار صوبائی سرکار اس کا اعلان کرچکی ہے۔یہاں کے بی جے پی ایم ایل اے،ایم پی ( لوک سبھا اور راجیہ سبھا)،صوبائی وزیر،مرکزی وزیر اور سی ایم کوشش کر چکے ہیں۔ایئرپورٹ کا رن وے،اڑان کے معیار( لمبائی چوڑائی )کے مطابق ہوچکا ہے۔میرٹھ ایک کاروباری شہر ہے،لہٰذا یہاں سے ہوائی کمپنیوں کو بہت زیادہ منافع ہونے کی امید ہے۔کئی بار سروے ہوچکا ہے۔35 سیٹر ہوائی جہاز کے اڑان کی منظوری مل چکی ہے۔ہوائی کمپنیاں بھی تیار ہیں،مگر ایئر پورٹ اب تک شروع نہیں ہوا ہے۔میرٹھ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (MDA ) نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایئر پورٹ کے آس پاس کی زمینوں میں ایئر پورٹ انکلیو (Air port Enclave) کے لیے پلاٹ سازی کئی سال قبل شروع کر دی تھی۔میرٹھ میں ہوائی اڈہ کا یہ علاقہ پرتاپور میں واقع ہے۔اب دیکھئے میرٹھ والوں کا ایئر پورٹ کا یہ خواب کب پورا ہو گا۔باغپت کے رالود ایم پی،جو اکثر میرٹھ ہی قیام کرتے ہیں،نے میرٹھ میں ایئرپورٹ کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔
میرٹھ والوں کا تیسرا بڑا مطالبہ ایک مرکزی یونیورسٹی کا ہے۔لوگ چاہتے ہیں کہ چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا جائے۔اس یونیورسٹی کو یہ افتخار حاصل ہے کہ اس کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے۔ چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کا قیام یکم جولائی 1965 میں ہوا۔اس کا نام،میرٹھ یونیورسٹی تھا۔یہ آگرہ یونیور سٹی سے الگ ہو کر بنی تھی۔اس کا علاقہ مغربی اترپردیش کے 10اضلاع اوراترا کھنڈ کے دو اضلاع پر مبنی تھا۔1994 میں ملائم سنگھ کی حکومت میں اس کا نام کسانوں کے مسیحاچودھری چرن سنگھ کے نام پررکھا گیا۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کچھ برس قبل تک اس یونیورسٹی میں تقریباً 8 لاکھ طالب علم امتحان دیتے تھے اور اس کے ماتحت بی ایڈ کالجز ملا کر تقریباً ایک ہزار سے زائد کالجز اور انسٹی ٹیوٹ آتے تھے۔اب سہارنپور میں ما ں شاکمبھری یونیورسٹی بن جانے سے سہارنپور،مظفر نگر اور شاملی کے تعلیمی ادارے کم ہوگئے۔اس یونیورسٹی میں 37 شعبے ہیں جن میں کئی کورسز چلتے ہیں۔یہ222ایکڑ زمین پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا خوبصورت ماحول،بڑے بڑے ہری کھاس کے قطعے،کھیل کا بڑا سا میدان،کشتی اسٹیڈیم، تین بڑے بڑے آڈیٹوریم،ایک گھنا جنگل،لڑکوں کے لیے 6 ہاسٹل،لڑکیوں کے لیے دو ہاسٹل، گیسٹ ہائوس، ڈسپنسری،زولوجیکل پارک، رہائشی مکانات،رہائشی پارک، بڑی سی سینٹرل لائبریری، کینٹین، ریلوے ریزرویشن کائونٹر وغیرہ کی سہولیات موجود ہیں۔ یہاں سال بھر انٹرنیشنل، نیشنل، صوبائی سطح کے سمینار، سمپوزیم،ورکشاپ کا انعقاد کسی نہ کسی شعبے کی طرف سے ہو تا رہتا ہے۔یہاں کے طالب علم ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں چھائے ہوئے ہیں۔پی ایم،سی ایم،وزیر،ایم پی،ایم ایل اے،بڑی بڑی کمپنیوں کے اعلیٰ عہدوں پر یہاں کے طالب علم پہنچے ہیں۔ ایسی یونیورسٹی کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ ملنا ہی چاہیے۔
میرٹھ کے ان تینوں مطالبات کی تکمیل کا فائدہ اس پورے علاقے کو ملے گا، خاص کر بلندشہر، ہاپوڑ، گڑھ، مظفرنگر، دیوبند، سہارنپور، شاملی، بڑوت، باغپت علاقوں کے کسانوں اور کاروباری لوگوں کو ہوگا۔ہائی کورٹ بنچ، ایئرپورٹ اور مرکزی یو نیورسٹی کی مانگوں سے مغربی اترپردیش میں ترقی کی نئی عبارت لکھی جائے گی۔یہاں کے موجودہ ایم پی،ایم ایل اے،وزراء،اترپردیش کے سی ایم سب مل کر کوشش کر رہے ہیں۔میرٹھ اور گرد و نواح کے عوام کو اپنے ان تینوں مطالبات کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ جب تک یہ مطالبات پورے نہ ہوں،چین سے نہیں بیٹھنا ہے،خواہ کچھ بھی کرنا پڑے۔
[email protected]