آج اس وقت لوک سبھا میں دہلی حکومت کے مختلف اعلیٰ افسران اور عہدیداران کی تقرری کا بل پارلیمنٹ میں پیش ہورہا ہے اور تمام اپوزیشن پارٹیاں جوکہ مرکزی حکومت پر الزام لگا رہی ہیں کہ یہ بل The Government of National Territory of Delhi Amendment Bills دہلی سرکار کے اختیارات کو غصب کرنے اور ایک منتخب حکومت کو بے دست وپا کرنے کی کوشش ہے۔ اسی دوران کئی ہفتوں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ دہلی میں امن وقانون کی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے مرکزی حکومت کے دہلی میں نمائندے لیفٹیننٹ گورنرایک قانون لاکر اور دہلی میں ایک ایسا قانون نافذ کرنے پر غورکر رہے ہیں، جسے گجرات پریونشن آف اینٹی سوشل ایکٹیوٹی 1995 کہا جاتا ہے۔ اس قانون کا مقصد دہلی میں جرائم پیشہ عناصر پر قدغن لگانا اور امن و قانون کی صورت حال کو قابو کرنا ہے۔ اس قانون کے مطابق دہلی میں شرپسند عناصر، جرائم پیشہ لوگ، جسم فروشی اور منشیات ودیگر غیراخلاقی حرکتوںمیں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔ اس کا مقصد جیسا کہ کہا گیا ہے کہ پبلک آرڈر کو مینٹین کرنا ہے۔ خیال رہے کہ یہ قانون 2؍اگست 1985 میں گیزیٹ ہوا تھا اورنافذ کیا گیا تھا، اس سے ایسے شرپسندوں کو اس کی زد میں لایا گیا تھا جونئے حالات اور بدلتی صورت حال میں قابو میں نہیں آرہے تھے۔ اس سلسلے میں گئوکشی اورجنسی جرائم کے علاوہ سائبرکرائم کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت ان جرائم پیشہ افرادپر بطورخاص کنٹرول کرنا ہے جوکہ باربار جرائم کرتے ہیں اور عادی مجرم ہیں۔ کئی حلقوں میں مرکزی حکومت اور دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے ارادوں کی نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ دہلی پولیس کے ذریعہ سفارش کے بعد ا س قانونی التزام کی طرف توجہ دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس قانون کے نفاذ کی سفارش دہلی پولیس کی طرف سے کی گئی تھی۔ بعض حلقے میں اس قانون کے نفاذ کی تجویز پر اس لئے نکتہ چینی کی جارہی ہے کیونکہ ان کو یہ لگتا ہے کہ دہلی کو ایک پولیس اسٹیٹ بنانے کی طرف قدم ہے۔
مجوزہ قانونی التزام کے تحت دہلی پولیس کو یہ اختیار حاصل ہوجائے ہوگا کہ وہ کسی بھی شخص کو اندیشے کے تحت اپنی حراست میں لے سکتی ہے۔ مذکورہ بالا گجرات پریوینشن آف اینٹی سوشل اکٹیویٹی ایکٹ 1995 کے سیکشن 3کے تحت ریاستی سرکار کو یہ اختیاردیا گیا ہے کہ وہ اگرمطمئن ہے تو پبلک نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی ناپسندیدہ شخص کو اپنی حراست میں لے سکتی ہے۔ گجرات میں نافذ اس قانون کے تحت پولیس ریاست میں کہیں بھی مشتبہ شخص کو حراست میں لے سکتی ہے اور انسدادی اقدام کے تحت ریاست میں کسی بھی علاقے میں اس کو بھیجا جاسکتا ہے۔ اس قانون میں یہ التزام ہے کہ مشتبہ شخص کے خلاف کسی بھی پولیس اسٹیشن میں ایک سے زیادہ ایف آئی آر درج ہوں۔ اس شخص کے خلاف پی اے ایس اے کے تحت مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔ مذکورہ بالا قانون پی اے ایس اے کے سیکشن 6 میں کسی بھی شخص کو مختلف الزامات و وجوہات کے تحت اس کے خلاف رپورٹ درج کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ اگر کورٹ مذکورہ بالا ایف آئی آر کو غیرمناسب یا مبہم قرار دے کر رد بھی کرتی ہے تو اس کو دیگر الزام یا مشتبہ حرکتوں کی بنیاد پر بھی حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔
گجرات میں نافذ اس قانون کے پس پشت کئی عوامل بتائے جاتے ہیں ۔ گجرات اسمبلی میں جو اعدادوشمار فراہم کئے گئے ہیں ان کے تحت یہ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دوسال میں اس قانون کے تحت 5402 کیس درج تھے۔ جن میں سے گجرات ہائی کورٹ نے 3447 کیسوںکو رد کردیا۔ اور رد ہونے والے معاملات مجموعی طورپر درج مقدمات کا 60فیصد ہے۔ یہ اعدادوشمار جوکہ گجرات اسمبلی میں ستمبر 2021 میں پیش کئے گئے تھے اوریہ دوسال کے اعدادوشمار ہیں۔ یہ بات بھی نکل کر آئی ہے کہ اس ضمن میں 1620 ایسے تڑی پار احکامات تھے، جن میں سے ہائی کورٹ نے 37کو رد کردیا تھا۔ اس سلسلے میں گجرات ہائی کورٹ کے کچھ تبصرے او ر فیصلے بھی سامنے آئے ہیں۔ گجرات ہائی کورٹ نے 2020 میں کہا تھا کہ یہ معاملے بغیرجواز کے دائر کردیے گئے ہیں۔ 2020 میں ہریانہ ہائی کورٹ کی ایک ڈویژنل بینج جس کی صدارت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وکرم ناتھ کر رہے تھے، کہا تھا کہ اس سلسلے میں کچھ گائڈ لائنس نافذ ہونی چاہئے۔ انہوں نے کچھ گائڈ لائن جاری بھی کی تھی۔ انہوںنے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پولیس جب کسی شخص کو حراست میں لے تو اس کوحراست میں لیتے وقت جو حکم جاری کیا جائے وہ اس زبان میں ہو جس زبان کو حراست میں لئے جانے والے شخص کی سمجھ میں آتی ہو اور اس حراست کے حکم میں اس بات کی وضاحت ہو کہ کن شواہداور اندیشوں کی بنا پر اس کو حراست میں لیا جارہا ہے۔ ہائی کورٹ نے اپنے اس اہم فیصلے میں بتایا تھا کہ مذکورہ شخص کی حراست کے دوران جو کاغذات داخل کئے جائیں وہ تمام اس حکم نامے میں موجود ہوں اور مشتبہ شخص جس کی حراست کوحاصل کرنا حکام چاہتے ہیں اس شخص کے وکیل یا نمائندوں کو تمام احکامات کی آگاہی ہونی چاہئے۔ عدالت نے اس سلسلے میں ایک ایڈوائزری بورڈ بھی وضع کرنے کی ہدایت دی تھی جو مشتبہ شخص کی حراست سے متعلق تمام مٹیریل اور ٹیلی فون کی تفصیلات وغیرہ بھی ایڈوائزری بورڈ کے سامنے رکھے اور یہ تمام تفصیلات حراست میں لینے کے بعد7ہفتوں کے اندراندر حکومت کو روانہ کرے۔
2020 میں گجرات ہائی کورٹ کے ایک اہم فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انسدادی حراست کو Habeas Corpus Petitionحبس بے جا کی عرضی کے تحت غور کرنا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اس التزام کو لے کر ہائی کورٹ کے زبردست اندیشے ہیں اور ان اندیشوں کے تحت ہی ہائی کورٹ نے اس قسم کی پابندیاں پولیس پر لگائی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قانون کے بیجا استعمال کی طرف ایک اشارہ ہے۔ گجرات میں پی اے ایس اے قانون کے تحت جوگرفتاریاں ہوئی ہیںاس پر کافی اعتراضات ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں وڈودرا کے ایک ڈاکٹر کے خلاف کارروائی پر بہت بحث ہوئی تھی۔ اس ڈاکٹر نے 3ہزار کووڈ کے مریضوںکا وبا کے بدترین دنوںمیں علاج کیا تھا اور اس کو صرف اس شک کی بنیاد پر حراست میں لے لیاگیا تھا کہ ریمڈیسویر انجکشن اس کے پاس سے برآمد ہوا تھا۔ متھیش ٹھکر نام کے اس ڈاکٹرکو اس معمولی شبہ کی بنیاد پر 106 دن کے لئے جیل میں رکھا گیا تھا۔ بعدمیں عدالت نے پولیس کو اس ڈاکٹر کو اس قانون کے تحت حراست میں رکھنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہ مثال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کس طریقے سے گجرات میں اس قانون کاغلط استعمال کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر ٹھکر کے خلاف جو الزامات لگائے گئے تھے وہ مبہم تھے اورمحض شبہ کی بنیاد پر اس خدمت پر مامور ڈاکٹر کو اتنے طویل عرصے تک حراست میں رکھا گیا تھا۔ کورٹ بار بار ریاستی سرکار کی توجہ دلاتی رہی ہے کہ اس قانون کا استعمال کھلم کھلا غلط طریقے سے کیا جارہا ہے اور بے دریغ طریقے سے لوگوںکوحراست میں لیا جارہا ہے۔ کچھ ایسی خبریں بھی ہیں کہ دو مختلف مذاہب اور عقائد کے افراد کے ازدواجی رشتوں میں منسلک ہوئے جوڑوںکے خلاف بھی مذکورہ بالا قانون کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ جی ایس ٹی کی خلاف ورزی کرنے پر بھی پی اے ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ پولیس نے کئی مقامات پر شہریوں کے آپس کے تفرقوں اور اختلافات کی بنیاد پر بھی اس قانون کا استعمال کیا ہے۔ ہائی کورٹ میں پہنچنے کے بعداگرچہ اس قسم کے ملزموں کے خلاف مقدمات رد کردیے گئے تھے، مگر ظاہر ہے کہ یہ معمولی معمولی تنازعات میں علاقہ بدر کرنا، شہربدر کرنا، حراست میں لیناانسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ کے دفتر میں جو اعدادوشمار فراہم کئے ہیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ 2018 سے 2019 کے درمیان اس قانون کے تحت 5402 افرادکو حراست میں لیا تھا۔ صرف دوسال کی مدت میں اس پیمانے پر حراستیں چونکا دینے والی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی) نے بھی کچھ اعدادوشمار پیش کئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں 2315 اور 2019 میں 3308 شہریوں کو ڈٹینشن قانون کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گجرات کے بعد تمل ناڈو میں حراست میں لئے جانے والوںکی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
حال ہی میں ہندوستان میں ایک رجحان پرورش پا گیا ہے جس کے تحت ریاستی حکومتیں پولیس کوزیادہ سے زیادہ اختیارات دے کر اپنا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس قسم کے اختیارات دینے سے پولیس والے منمانی کرتے ہیں۔ غیرضروری طورپر حراست میں لیتے ہیں اور ان کوقانونی مدد بھی فراہم نہیں کراتے۔ کچھ شکایتیں ایسی بھی آئی تھیں کہ پولیس نے ایسے افرادکے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کی جائیدادوںکو قرق کرلیا تھا۔گجرات میں اس قانون کے غیرضروری استعمال پر کئی حلقوں میں ناراضگی ظاہرکی جاتی رہی ہے۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دہلی میں امن وقانون کی صورت حال غیرمعمولی طورپر خراب ہے اور سنگین وارداتوں کی خبریں عام آدمی کوبے چین کئے رہتی ہیں، مگر پولیس کو اتنے زیادہ اختیارات دے کر آئینی عہدیداران اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔
٭٭٭